لائف سٹائلکالم

طلاق کا اطلاق: جب دو محرم نامحرم بن جاتے ہیں

ارم رحمان

طلاق کا اطلاق ہوتے ہی ایک مکمل خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے، دو محرم مرد عورت ایک دوسرے کے لیے نامحرم بن جاتے ہیں، میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں لیکن طلاق دونوں کو بے لباس کر دیتی ہے اور یہ بے لباسی کتنی ہولناک ہوتی ہے اس پر بات کرتے ہیں۔

اسلامی لحاظ سے طلاق کے حوالے دینا یا طلاق دینے کے احسن طریقے بتانا یا کیا کیا شرائط ہیں جن کی بنا پر طلاق دی جا سکتی ہے الغرض طلاق جائز چیزوں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند ہے اور شیطان کی پسندیدہ ترین چیز ہے۔
میں اسلامی پہلو سے بات کرتی ہوں تو لوگ مجھے عالمہ، مبلغہ، کٹر اور مذہبی انتہاسند کہتے ہیں اور اگر قانونی پہلو بیان کرتی ہوں تو لوگ مجھے وکیل ہونے کا طعنہ دیتے ہیں کہ وکیل کا کام تو ہے ہی باتیں بنانا۔

تو لیجیے آج عام انسانی سوچ کے تحت طلاق کے اطلاق کے بعد سماجی، معاشی اور معاشرتی عوامل اور مشکلات پہ بات کرتے ہیں اور اس طلاق کے جو اثرات اس مطلقہ خاتون پر اثرانداز ہوتے ہیں وہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

طلاق ایک ایسا لفظ ہے جو ہمارے شعور اور لاشعور کے علاوہ تحت الشعور میں بھی منفی معنی رکھتا ہے؛ کوئی بھی شخص اس لفظ کو پسند نہیں کرتا لیکن جب مرد اپنا یہ ہتھیار ایک مظلوم عورت کے خلاف استعمال کرتا ہے تو وہ جسمانی طور پر الگ ہوتی ہے لیکن اندر سے بالکل ختم ہو جاتی ہے۔ عورتوں کی اکثریت طلاق کے بعد متوازن زندگی نہیں گزار پاتی اور سماجی اور معاشرتی لحاظ سے بھی اس کا درجہ کم ہو جاتا ہے، اس کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے احترام و توقیر تنزلی کا شکار ہو جاتی ہے۔

مرد کتنا بھی غلط ہو عورت برداشت کرتی ہے لیکن مردوں کی اکثریت طلاق کو دھمکی کی طرح استعمال کرتی ہے اور عورت مجبور ہو جاتی ہے۔ عورت ہمیشہ ایک مرد کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتی ہے، شوہر جگہ جگہ لاکھ منہ مارے لیکن عورت ہمیشہ وفادار رہتی ہے۔

طلاق کی وجوہات میں اگر کبھی باریک بینی سے مشاہدہ کیا جائے تو طلاق کا اطلاق عام طور پر مرد کی غصیلی طبعیت، عدم برداشت، شک اور احساس برتری کا عکاس ہوتا ہے۔ عورت اگر کسی کو پسند بھی کرتی ہو لیکن کسی اور مرد سے نکاح ہو جائے تو اپنے شوہر کی ہی وفادار بن جاتی ہے لیکن مرد کو ذرا سی بھنک بھی پڑ جائے تو وہ طلاق دینے سے گریز نہیں کرتا۔

عورت کی ساری زندگی اس ایک لفظ سے تباہ ہو جاتی ہے؛ وہ سماج میں قابل اعتبار و قابل احترام نہیں رہتی، اس کی ساری خوبیاں مٹی میں مل جاتی ہیں، وہ لاکھ سچ بولے مگر مرد کا پلڑا ہی بھاری رہتا ہے۔ مرد کسی بھی عورت پر بدکرداری کا بہتان لگا کر طلاق دے دے تو وہ عورت اگر قرآن پاک بھی اٹھا لے یا گرم توے پہ چڑھ جائے مرد کا شک ختم نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ عورت جو کسی کی بہن بیٹی ہے جب تک مرد کی گالیاں اور جوتے کھاتی رہتی ہے لوگ اسے صابرہ اور ہمت والی کہتے ہیں اور اس کے آنسو دیکھ کر خود بھی روتے ہیں لیکن جوں ہی طلاق ہوتی ہے تو طعن و تشنیع کے تیر برسانے لگتے ہیں کہ عورت میں برداشت نہیں تھی، اچھی ہوتی تو شوہر کیوں چھوڑتا، ذرا سی مار کھا لیتی تو کیا قیامت آ جاتی آخر شوہر نے گھر میں رکھا کھلایا پلایا کپڑا لتا سب دیا۔ اور وہ سب جانتے ہوتے ہیں کہ اس بے چاری کا شوہر انتہائی گھٹیا اور بدقماش شخص ہے، عورت کی عزت نہیں کرتا، محبت کے نام پر بس اپنی ہوس پوری کرنے آتا ہے ورنہ تو شکل تک نہ دیکھے مشورہ کرنا یا ہنسی مذاق تو بہت دور کی بات ہے۔

قریبی عورتیں بھی سب جانتی ہیں کہ شوہر بہت ظالم ہے پھر بھی عورت کو ہی برا کہیں گی، اور اس مطلقہ کو اٹھتے بیٹھتے طعنے دیتی ہیں۔ سگے والدین بھی اجنبی بن جاتے ہیں۔ بہن بھائی اور خاص کر بھابھی اور بہنوئی تو بالکل بوجھ سمجھتے ہیں اور اس کو منحوس سمجھ کر اس کی نحوست سے اپنے بچوں کو بچاتے ہیں۔

اکثر لوگ اپنی بیٹیوں کو ایسی خواتین سے دور رکھتے ہیں کہ پتہ نہیں کیا بات کریں کہ ان کی بچی بھی طلاق لینے کی کوشش میں لگ جائے۔ کسی شادی بیاہ میں رسم مہندی میں مطلقہ عورت دلہن کو مہندی نہیں لگا سکتی اور نہ ہی کسی قسم کی حیثیت سے دلہن کے ساتھ میل ملاپ رکھ سکتی ہے۔

اسی طرح مطلقہ عورت اگر بچوں والی ہے اور شوہر بچے چھین لے تو اس عورت کی زندگی بالکل تباہ و برباد بو جائے گی کیونکہ بچوں کے بغیر تو کوئی بھی ماں پاگل ہو جائے یا مر جائے تو اچنبھا کیسا!

اسی طرح کچھ مرد طلاق کے بعد بچوں کو عورت کے حوالے کر کے خود مزے سے دوسری شادی کر لیتے ہیں اور بچے ماں کے ساتھ ظلم کی چکی میں پستے ہیں۔ یوں کوئی مرد اس عورت سے شادی کر بھی لے تو اس کے بچوں کو قبول نہیں کرتا، وہ بے چاری شادی شدہ ہو کر بچوں کے بنا خوش کیسے رہ سکتی ہے؛ وہ پھر دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ اگر وہ بچوں کی خاطر شادی نہ کرے تو غیرمرد اس کی عصمت دری کے چکر میں پڑ جاتے ہیں کہ طلاق یافتہ ہے ہم اپنی ہوس پوری کر لیں گے اور پکڑے بھی گئے تو اس عورت پر الزام لگائیں گے، کس نے پوچھنا ہے۔ اور سچ بھی یہ ہی ہے کہ باکرہ کا تو پھر واویلا مچ سکتا ہے کہ کسی نے زیادتی کی ہے، پتہ لگ جاتا ہے مگر مطلقہ عورت تو آسان ہدف ہے کہ یہ عورت ہمیں خود دعوت دے کر اب الزام لگا رہی ہے۔ یقین مانیے کوئی بھی اس عورت کی پاکیزگی کا یقین نہیں کرے گا کیونکہ اس عورت کی حیثیت بالکل اس خالص دودھ کی طرح ہے جس میں میوے بھی تھے اور کھویا بھی لیکن کتا منہ ڈال دے، تھوڑا سا پیے اور چلا جائے اب وہ دودھ بس پھینکا جا سکتا ہے استعمال نہیں کیا جا سکتا اور کوئی بدنیت شخص استعمال بھی کرنا چاہے گا تو چھپ کر تاکہ کسی کو پتہ نہ لگ سکے۔

ایسی خواتین معاشی لحاظ سے بھی اکثر مشکلات کا شکار رہتی ہیں؛ ان میں خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے اور لوگ ان کو کبھی بھی اچھے حلیے تک میں دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ گھر والے بھی خیرات کی طرح انھیں چیزیں دیتے ہیں اور اگر وہ کچھ بہتر حلیہ اپنائیں تو لعن طعن کی جاتی ہے کہ کس کو رجھانا ہے شوہر تو قابو کر نہیں سکیں اب یہ ناز نخرے کس کے لیے، ذہنی اور اعصابی دباؤ کا شکار ہو جاتی ہیں، ایسی خواتین اگر اپنی قوت ارادی سے کام لے کر پھر سے اپنی زندگی شروع کرنا چاہیں تو اکثر سابقہ شوہر ہی ان کی دوسری شادی چلنے نہیں دیتا اور بسنے کی کوششیں ناکام کر دیتا ہے۔

دوسرا شوہر بھی اکثر کسی مجبوری کے تحت مطلقہ عورت سے شادی کرتا ہے ورنہ کبھی نہ کرے۔ معاشی مسائل کی وجہ سے اگر ملازمت کی جائے تو وہاں نظروں ہی نظروں، اشارے کنایوں میں کردارکشی کی جاتی ہے اور اکثر بڑے عہدے نہیں ملتے۔ معاشی مجبوری میں دوسری شادی کرنی پڑتی ہے یا گھر میں نوکرانی بن کر رہنے پر مجبور ہو جاتی ہیں اور باپ بھائی کی لعن طعن برداشت کرتی ہیں۔

گالی دینا انتہائی غیراخلاقی حرکت ہے مگر طلاق کا لفظ گالی سے بھی بدتر ہے اور مردوں کی اکثریت گالی گلوچ کرتی ہے اور وہ بھی معاشرہ آرام سے جھیل جاتا ہے کہ مرد ذات ہے، سارا دن کام کرتا ہے تھک جاتا ہے بیوی کو سمجھنا چاہیے کچھ نہ بولے جو شوہر کہے تو مجازی خدا کا حکم سمجھے اور فوراً تعمیل کرے اگر نہیں کرے گی تو طلاق دینے میں حرج کیا ہے!

بیوی سارا دن گھر میں ساس سسر دیور نندوں کا خیال کرتی ہے، گھر کے کام کاج اور دو تین بچے بھی ہوں تو خود سوچیے کیا وہ نہیں تھکتی، کپڑے دھونا صفائی کھانا پکانا یہ بھی فل ٹائم ملازمت ہے، مرد تو گھر آ کر بستر پر دراز ہو جاتا ہے اور ہر کام کے لیے بیوی کو آواز دیتا ہے، بیوی اس کے سارے کام کر کے بچوں کو سلا کر پھر جا کر کہیں سوتی ہے، پھر صبح جلدی اٹھ کر ناشتہ بناتی ہے۔ جب سب سو جاتے ہیں تب سوتی ہے اور سب کے جاگنے سے پہلے جاگ جاتی ہے۔ کیا یہ سب خدمات بیوی انجام نہیں دیتی؟ اس کی خدمت اور وفاداری کا جواب بس ایک لفظ تین بار بول کر کئے کرائے پر پانی پھیر دیا جاتا ہے۔

مرد بے شک کماتا ہے لیکن اب تو عورتیں بھی کماتی ہیں اور گھرداری بھی کرتی ہیں تو شوہر کی کوئی ایک آدھ بات یا حکم نہیں مان سکیں یا تھکاوٹ کی وجہ سے فوری تکمیل نہ ہو سکے تو جیتے جاگتے وجود کو طلاق دے کر زندہ درگور کر دینا کہاں کی انسانیت ہے؟ آخر سب برداشت، صبر، وفا اور خدمت عورت کے کھاتے میں کیوں؟ مرد بھی تو ان کی طرح انسان ہیں، ان کو کیوں نہیں ان باتوں کا متحمل سمجھا جاتا؟ وہ ان خوبیوں سے کیونکر مبرا و ماورا اور مستثنیٰ سمجھے جاتے ہیں؟ خدمت، وفا، محبت، عزت عورت کا بھی تو حق ہے۔ یاد رکھیے اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو یہ سب دیتا ہے تو یقین مانیے وہ کبھی بھی طلاق جیسا مکروہ کام سرانجام نہیں دے گا۔

طلاق دینے والے اکثر مرد اپنی خامیاں اور کمزوریوں کا سامنا نہیں کر پاتے اور اپنی اصلاح کرنا مردانگی کے خلاف متصور کرتے ہیں اس لیے وہ یہ قبیح عمل انجام دیتے ہیں کیونکہ طلاق دینے سے ان کی انا اور ضد کو تسکین ملتی ہے۔ انھیں پتہ ہے کہ معاشرے کی تنگ اور بیمار سوچ صرف عورت پہ ہی الزام لگائے گی اور وہ مرد جسے عورت سنبھالنی نہیں آئی، بیوی رکھنی نہیں آئی، جو عورت کی نفاست اور نزاکت کو سمجھ ہی نہیں سکتا وہ ہی مرد طلاق دے کر اپنے آپ کو اچھا ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

لیکن اگر یہ سماج اور معاشرہ مرد کی سرکوبی کرے اور اس کو بھی طلاق کے لیے مورود الزام ٹھہرانے لگے اور دوسرے لوگ اپنی بہن بیٹیاں طلاق دینے والے مرد کو نہ دیں، عورت کے ساتھ ساتھ مرد کو بھی خوب طعنے دیں، آوازیں کسیں اور اس کو ہر وقت ذلیل کریں تو پھر دیکھیے طلاق دینے سے پہلے مرد بھی دس بار سوچے گا، تب اس کا غصہ بھی کنٹرول میں رہے گا اور زبان بھی!

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک شاعرہ اور کہانی نویس ہیں، مزاح بھی لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button