مہرین خالد
آپ سوچ رہے ہوں گے بھلا یہ کیسا سوال ہے۔ استاد تو بہت پڑ ھ لکھ کر ہی ہماری تربیت کرتے ہیں، انہیں کیوں تربیت کی ضرورت ہونے لگی۔ تو اس کا جواب ہے کہ تربیت کی تو سب کو ہی ضرورت ہوتی ہے۔ ویسے جیسی تربیت استاد آج کل کر رہے ہیں اسے دیکھ کر تو کہنا پڑتا ہے کہ انہیں خود تربیت کی زیادہ ضرورت ہے۔
استانی کا تھپڑ
کچھ عرصہ پہلے ایک تربیتی سیشن کے دوران جب ایک معروف ٹرینر نے ہمارے پسندیدہ استاد کا نام پوچھا تو ایک لمحے کیلئے سوچ میں پڑ گئے۔ یوں محسوس ہوا جیسے سالوں سے کوئی خواب دیکھنے کیلئے سوئے ہوں اور اب کوئی خواب کا پس منظر پوچھنے کیلئے بیدار کر رہا ہے۔
اس چٹکی بھر لمحے میں ہمیں صرف اپنی استانی صاحبہ کا وہ تھپڑ یاد آیا جو چوتھی کلاس میں سوال غلط لکھنے پر گال پر نشان چھوڑ گیا تھا۔ خیر سوال کا جواب بھی ہم نے ہڑبڑاہٹ میں دے ہی دیا۔ بعد میں یاد آیا کہ ہم نے جس استانی کا نام بتایا ہے وہ اصل میں ان کا نام ہے ہی نہیں! اف!!!!
طنز کی نوک بمقابلہ قلم کی نوک
کے جی تا پانچویں کلاس تک ہم نے یونیورسٹی پبلک اسکول میں پڑھا جہاں ہماری شرارتوں کا تو کسی اکاؤنٹنٹ کی طرح پورا حساب رکھا جاتا مگر اچھا پڑھنے پر شاباشی کی تھپکی کے آج بھی منتظر ہیں۔
ارے آپ کہیں اس غلط فہمی کا شکار تو نہیں ہو گئے کہ ہم افلاطونی ذہانت کے مالک تھے۔ ایسا کچھ بھی نہیں تھا بس گزارے لائق ہی تھے۔ ہم نے کبھی اپنی کلاس میں بک ریڈنگ نہیں کی البتہ بلیک بورڈ ضرور صاف کیے کیونکہ استانی صاحبہ کے مطابق ریڈنگ صرف ذہانت کے سب سے اونچے منبر پر بیٹھے طالب علم کا حق تھا۔
کاش کہ ایسا کوئی ربر یا جھاڑن ہوتا جس سے ان کے دماغ پر چھائی تعصب کی اس دھند کو بھی صاف کر سکتے۔ ان سے دل کی بات کہہ سکتے کہ آپ مجھ سے بات تو کریں، میرا ہاتھ تو تھامیں، اور سیکھنے کا موقع تو دیں۔
ہم ذہین تو نہیں تھے مگر ہٹ کے پکے ضرور تھے۔ چھٹی جماعت پڑھنے کے لئے لے لیا شہر کے سب سے اچھے اسکول میں داخلہ، وہاں معلوم ہوا کہ جن استانیوں پر تکیہ کر کے ہم اپنی تعلیمی بنیاد کو مضبوط سمجھتے رہے، انہوں نے تو غیرمعیاری تعمیری (تعلیمی) مواد استعمال کیا ہے۔ ہم بنیادی طور پر خاموش طبع واقع ہوئے ہیں تو بس صرف یہ بات استاد کی طبیعت کو بھا جاتی۔ کلاس میں خاموشی کی تعریفوں کے پل باندھتے۔ وہاں بھی دل کی بات نہ کہہ سکے کہ آپ مجھ سے پوچھ کر تو دیکھیں، مجھے سوال تو کرنے دیں، میرے سوالوں کو زبان دینا تو آپ جیسے استاد کا کام ہے۔
پھر ہم نے اپنے آرٹس مضامین پڑھنے کا شوق پورا کرنے کے لئے نہم تا دہم پاک پبلک سکول اینڈ کالج میں داخلہ لیا۔ یہاں استانی صاحبہ کو ہماری خاموشی ایک آنکھ نہ بھاتی، ہمیشہ طنز کی بندوق کی نوک پر رکھتیں۔
ان کے پہناؤں اور میک اپ کی تعریف، کلاس میں دوسری لڑکیوں سے کھسر پھسر یا پھر غیبت نہ کرنے کی پاداش میں انہوں نے مجھے اللہ میاں کی گائے کا لقب دے دیا۔ انہیں اس گائے۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ اللہ میاں کی گائے کے مستقبل کی فکر بھی کھائے جاتی کہ آخر ہمارا ہو گا کیا۔
لیکن مستقبل ہماری طرح خاموش مزاج نہیں ہے۔
کل ان کے طنز کی بندوق کی نوک پر ہم تھے اور آج استانی صاحبہ کی غیرمعیاری تعلیمی تربیت ہمارے قلم کی نوک پر۔
اب ہم نے تو یہ ہی سنا ہے کہ قلم بندوق سے زیادہ طاقتور ہے۔
استاد کون ہوتا ہے؟
ہماری تو خواہش ہی رہی کہ کاش کوئی ایسا استاد ہو جو ہم سے بات کرے، ہمیں سکھائے، ہمیں سوچنے کا موقع دے، ہمیں غلطی کرنے دے اور پھر اصلاح کرے تاکہ پتہ تو چلے کہ صحیح کیا ہے۔
سکول سے لے کر یونیورسٹی تک اگر کوئی غلطی ہو جائے تو بجائے یہ کہنے کے کہ اس کام کو مزید کیسے بہتر بنایا جائے، وہی گھسا پٹا ناس پیٹا فقرہ سننے کو ملتا کہ "بیٹا تم غلط جگہ آئے ہو یہاں تمہارا کوئی کام نہیں۔”
اب کوئی ہمیں یہ بتائے کہ غلط کو صحیح سے الگ کرنے اور سیکھنے کا عمل درسگاہوں میں نہیں تو کس جگہ ہوتا ہے؟
اگر سب کچھ پہلے سے ہی آتا ہو تو پھر درسگاہوں کی ضرورت ہی کیا ہے؟
میری خاموشی میرے الفاظ بن گئی
ہماری خاموشی کا ساتھی ہمارا قلم ہے جس کی نوک اسے الفاظ کی شکل میں کاغذ پر بکھیر دیتی ہے۔ مگر ہم ان الفاظ کو اپنی زبان سے بھی بیان کرنا چاہتے تھے۔ ہم بولنا چاہتے تھے۔ الفاظ کا ذخیرہ تو تھا مگر بولنے کی حوصلہ افزائی چاہیے تھی۔
سچ کہیں تو استادوں سے تو مایوس ہو چکے تھے۔ مگر پھر ہمیں ایک انوکھی استاد سبین آغا ملیں۔
کہتی ہیں ہماری خاموشی بولتی ہے، ہماری آنکھیں اس خاموشی کا ریڈار ہیں، خاموشی تو دل سے باتوں کا دوسرا نام ہے، خاموشی سے زیادہ بلند آواز کوئی بھی نہیں، ان کی ڈانٹ ہمیشہ کئی نئے دروازے کھول دیتی ہے، اور ان کا مقصد ہمت بڑھا کر درست سمت پر ڈالنا ہوتا ہے۔
انہوں نے وہ تمام سبق سکھائے جو ہم اسکول سے لے کر جامعہ تک سیکھنا چاہتے تھے، اختلاف کرنا چاہتے تھے، سمجھنا چاہتے تھے، سوال کرنا چاہتے تھے، اور جواب سننا چاہتے تھے۔
بس اب تو کوئی پوچھ کر دیکھے پسندیدہ استاد کے بارے میں تو مغالطے میں پڑنے کے بجائے جھٹ سبین آغا کا نام لے دیں گے،جنہوں نے ہمارے سوال کرنے کے حق کو تسلیم کیا اور جنہوں نے ہمیں نفرت کے بجائے محبت کرنا سکھایا۔
استاد طالب علموں کو راستوں کا نہیں منزلوں کا مسافر بنانے کے اہل ہوتے ہیں۔ راہنما بنیں، راہ زن نہیں۔
اب آپ بتائیے استادوں کو تربیت کی ضرورت ہے یا نہیں؟
مہرین خالد ضلع بنوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر اور رپورٹر کی حثیت سے منسلک ہیں۔