صحتکالم

”خاموش بیماری” یا آسٹیوپوروسس کیا ہے؟

حمیرا علیم

دنیا بھر میں ہر تین میں سے ایک عورت اور 50 سال یا اس سے زیادہ عمر کے پانچ میں سے ایک مرد آسٹیوپوروٹک فریکچر کا شکار ہیں آسٹیوپوروسس کی وجہ سے ہڈیاں کمزور اور نازک ہو جاتی ہیں اور معمولی چوٹ، ٹکرانے، چھینک یا اچانک حرکت کے نتیجے میں آسانی سے ٹوٹ جاتی ہیں۔ آسٹیوپوروسس کی وجہ سے ہونے والا فریکچر جان لیوا، تکلیف دہ اور طویل مدتی معذوری کی ایک بڑی وجہ ہے۔

آسٹیوپوروسس کی وجہ سے ہونے والے فریکچر کا دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں پر تباہ کن اثر پڑتا ہے اس کے باوجود کہ فریکچر کو کم کرنے کے لیے موثر طبی پیش رفت کی جا چکی ہے۔ مردوں اور عورتوں کی ایک قلیل تعداد ہی علاج کرواتی ہے۔

ہڈیوں کا بھربھراپن دل کے امراض کے بعد دوسرا بڑا مسئلہ ہے۔ اس مرض میں ہڈیوں کی لچک میں کمی آ جاتی ہے اور وہ بھربھری ہو کر نرم اور کمزور ہو جاتی ہیں اور ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ ہڈی ایک زندہ ٹِشو ہے جو مستقل طور پر بنتی رہتی اور اس کے پُرانے حصے ختم ہوتے رہتے ہیں۔ یہ 30 سے 40 برس کی عمر میں بہترین حالت میں ہوتی ہیں جبکہ اس کے بعد عموماً ہر فرد کی ہڈیاں گُھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ ’اوسٹیو کلاسٹ‘ نامی خلیے ہڈیوں کو توڑتے ہیں، ان ٹوٹی ہوئی ہڈیوں میں پُرانے خلیے کی جگہ نئے خلیے بنتے ہیں۔ اس عمل کو طب کی زبان میں اوسٹیو بلاسٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس طرح ہمارے جسم کے اندر ہڈیوں کے ٹوٹنے اور بننے کے عمل میں توازن قائم رہتا ہے۔

آسٹیوپوروٹک فریکچر والے صرف ٪20 مریضوں میں آسٹیوپوروسس کی تشخیص یا علاج کیا جاتا ہے۔ 2010 میں صرف یورپ میں ہی تقریباً 12.3 ملین افراد کو آسٹیوپوروٹک فریکچر کا زیادہ خطرہ تھا جن کا علاج نہیں کیا گیا۔ ڈھلتی عمر، ورزش نہ کرنے، متوازن خوراک کی کمی اور خواتین میں مینوپاز سے ہڈیوں کے ٹوٹنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے۔ ہڈیوں کے بھربھرے پن کی بیماری میں ہڈیوں کو توڑنے والے خلیے یعنی اوسٹیو کلاسٹ اپنا کام تیز کر کے اوسٹیو بلاسٹ ہڈیاں جوڑنے کے خلیے کے کام کو ضائع کر دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ہڈیوں کے ٹوٹنے کا عمل تیز اور بننے کا عمل سُست ہونے کی وجہ سے ہڈیوں کے بھربھرے پن کا آغاز ہوتا ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں ہڈیاں زیادہ پتلی اور کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر ذرا سا دباؤ پڑنے سے بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ مرض زیادہ پایا جاتا ہے۔ عورتوں میں 45 برس کی عمر کے بعد یہ مرض پیدا ہوتا ہے جبکہ مَردوں میں 50 برس میں آسٹیوپوروسس ہوتا ہے۔ مَردوں کے مقابلے میں عورتوں میں یہ مرض 40 فیصد زیادہ ہوتا ہے۔

یہ بیماری ویسے تو پورے جسم کی ہڈیوں کو متاثر کرتی ہے لیکن ریڑھ، کولہے اور کلائی پر اس کا زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ہڈیوں کی مضبوطی کا تعلق سورج کی روشنی یا دھوپ سے بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ مرض پاکستان کے دیہی علاقوں سے زیادہ شہروں میں پایا جاتا ہے۔ جو لوگ دودھ نہیں پیتے اور مچھلی نہیں کھاتے یا دھوپ میں نہیں نکلتے ان کو ہڈیوں کا مسئلہ ہو جاتا ہے۔

بڑھتی عمر، موروثی بیماری، بہت زیادہ کیفین کا استعمال، کیلشیم کی کمی، تھائی رائیڈ ہارمونز کا مسئلہ اور اسٹیرائڈز کا استعمال بھی اس کا سبب بن سکتے ہیں۔

ماہرین اسے ایک ’خاموش بیماری‘ کا نام بھی دیتے ہیں کیونکہ اس میں ہڈیوں کی فرسودگی کا عمل کسی تکلیف کے محسوس ہوئے بغیر سُست روی سے جاری رہتا ہے، ممکن ہے آسٹیوپوروسس ہونے کے بعد مریض درد یا تکلیف محسوس کرنے لگے۔ اگر وہ کسی وجہ سے گر جائے تو گرنے اور اُٹھنے کے دوران ان کے ہاتھوں یا پیر کی ہڈی میں فریکچر ہو جاتا ہے۔ اس بیماری کی علامات عموماً دیر سے ظاہر ہوتی ہیں۔ اس کی ابتدائی علامات میں مریض کو جوڑوں کے درد کے ساتھ ساتھ اُٹھنے بیٹھنے میں بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

اگر مریض ادویات سے بچنا چاہتا ہے تو صرف بیس منٹ روزانہ سن باتھ لے جس سے جسم کی روزانہ کی وٹامن ڈی 3 کی ضرورت پوری ہو جاتی ہے۔ یہ وٹامن ہڈیوں میں کیلشیم کو جمع کرنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ وٹامن جلد میں موجود ہوتا ہے اور سورج کی روشنی جسم پر پڑنے سے متحرک ہو جاتا ہے اور ہڈیوں تک کیلشیم کو پہنچانا شروع کر دیتا ہے۔

اس کے علاوہ، کیلشیم، دودھ، دودھ سے بنیں اشیاء، ہری سبزیوں اور مچھلی سے حاصل ہوتا ہے۔ اس کے برعکس، فاسفورس، پروٹین اور نمک کا یومیہ ضرورت سے زیادہ استعمال آسٹیو پوروسس کا باعث بنتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ پروٹین اور فاسفورس پر مشتمل غذائیں پیشاب کے ذریعے کیلشیم کے اخراج میں اضافے کا سبب سمجھی جاتی ہیں۔ ریفائنڈ شوگر بھی جسم میں کیلشیم کی کمی بڑھاتی ہے۔

پاکستان میں علاج کی لاگت، تشخیص کے لیے وقت اور وسائل، ادویات کے بارے میں تشویش اور اس دیکھ بھال کی ذمہ داری کے بارے میں وضاحت کی کمی، آسٹیوپوروسس کی شناخت اور علاج کی راہ میں کچھ رکاوٹیں ہیں۔

نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کا اتفاقِ ترقیاتی پینل آسٹیوپوروسس کو ایک نظاماتی خرابی کے طور پر بیان کرتا ہے۔یہ ہڈیوں کی مضبوطی ہڈیوں کی کثافت اور ہڈیوں کے معیار کے انضمام سے ظاہر ہوتا ہے۔ پاکستان میں متوقع عمر 1960 میں 46.6 سال سے بڑھ کر 2010 میں 65.4 سال ہو گئی ہے اور 2023 میں 72.4 سال تک پہنچنے کا امکان ہے۔ بوڑھوں کی آبادی میں مسلسل اضافے اور ناقص غذائیت کے ساتھ آسٹیوپوروسس صحت عامہ کے ایک بڑے مسئلے کا درجہ حاصل کر رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں کولہے کے فریکچر کی لاگت 4000 سے 10000 امریکی ڈالر کے درمیان ہوتی ہے جس کا انحصار ہسپتال پر ہوتا ہے جس میں اوسطاً 7-10 دن رہنا پڑتا ہے اس لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے چاہیئں۔ ریڑھ کی ہڈی پر اچانک کسی بھی طرح کا دباؤ ڈالنے سے گریز کریں خصوصاً آگے جھک کر وزن اٹھانے میں احتیاط کریں۔ جب زمین سے کچھ اٹھانا ہو تو اسے اپنی کمر کو سیدھا رکھتے ہوئے گھٹنوں کے بل جھک کر اٹھائیں۔ بستر پر لیٹتے ہوئے اچانک اور تیزی سے پہلو بدلنے سے اجتناب کریں۔ اسی طرح بستر سے اٹھتے وقت بھی احتیاط کریں۔

آسٹیوپوروسس کے مریضوں کے لیے گرنا خاص طور پر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ ذرا سی چوٹ کا نتیجہ ہڈیوں کے ٹوٹنے کی شکل میں نکل سکتا ہے لہٰذا کام کے دوران خاص خیال رکھیں۔ ایسے پائیدان یا چھوٹے قالین راستوں میں نہ بچھائیں جن پر سے پھسلنے یا ان میں پاؤں کے الجھنے کا خدشہ ہو۔ ایسے جوتے پہنیں جو آپ کے پیروں کی حفاظت کریں اور پھسلنے سے بچائیں۔ گیلے فرش پر احتیاط سے چلیں خصوصاً باتھ روم میں اس بات کا خاص خیال رکھیں۔ بستر اور کرسی کی اونچائی اپنی ضرورت کے مطابق رکھیں۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button