بلوچستان: ”بوٹی مرد شوربا عورت کے حصے میں آتا ہے”
حمیرا علیم
دیہی خواتین کا عالمی دن 15 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن دیہی علاقوں میں رہنے والی لاکھوں خواتین کے لیے وقف ہے اور دیہی ترقی اور زراعت کے لیے ان خواتین کے کردار کو سراہنے کا دن ہے۔ ان خواتین کو سپورٹ سسٹم، ٹرانسپورٹ سسٹم، مواقع، تعلیم کی کمی، کم عمری اور جبری شادیاں اور زمین/جائیداد میں کوئی ملکیت نہ ہونا، عام لوگوں کی نسبت دائمی بیماری کا غیرمتناسب بوجھ، معیاری صحت کی دیکھ بھال تک محدود رسائی، غربت اور بے روزگاری جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پاکستان میں خواتین آبادی کا ٪48.54 ہیں اس کے باوجود وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں خصوصاً دیہی خواتین جو مردوں کی نسبت زیادہ کام کرتی ہیں۔ یہ خواتین بنیادی طور پر کاشت کاری، لائیو سٹاک منیجمنٹ، ماہی گیری اور دست کاری جیسی معاشی سرگرمیوں میں مصروف عمل نظر آتی ہیں تاہم آج بھی زیادہ تر دیہی خواتین ان شعبوں میں بلامعاوضہ، خاندانی مزدور کے طور پر یا کم اجرت پر کام کرتی ہیں۔
اعداوشمار سے ثابت ہے کہ دیہی خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں حصہ اچھا خاصا ہے لیکن چونکہ اکثریتی سطح پر یا تو یہ کام بلامعاوضہ ہیں یا اپنے گھر یا خاندان کے ساتھ مددگار کے زمرے میں شامل سمجھا جاتا ہے جس کا نقصان یہ ہے کہ آج بھی دیہی خواتین کا معاشی کردار اور حصہ حکومتی اعدادوشمار میں نہیں گنا جاتا۔
دوسرا المیہ یہ ہے کہ دیہی خواتین، کام کے حوالے سے آج بھی دوہرے بوجھ کا شکار ہیں۔ اکثر دیہی خواتین غیرشرعی معاشی سرگرمیوں کے ساتھ گھریلو ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتی ہیں جیسے کہ بچے پالنا، پانی اور ایندھن لانا، گھر، بچوں اور بڑوں کی نگہداشت، رسم ورواج وغیرہ۔ ان تمام ذمہ داریوں اور معاشی عمل میں بھرپور کردار کے باوجود اکثر خواتین کے پاس جائیداد اور وسائل کی ملکیت کا اختیار نہیں ہے۔ چند خواتین کو اگر کہیں جائیداد کا حق مل بھی جاتا ہے تو اسے چیلنج کر دیا جاتا ہے۔
پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے کے مطابق 50 فیصد خواتین کے پاس تعلیم نہیں ہے اور صرف 17 فیصد ملازمت کرتی ہیں۔ خواتین زراعت کا کام کرتی ہیں لیکن ان میں سے ایک چوتھائی کو ان کے کام کی ادائیگی نہیں کی جاتی ہے۔خواتین امن اور سلامتی کے انڈیکس میں پاکستان 170 ممالک میں سے 167ویں نمبر پر ہے۔ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا سکور افغانستان کے سکور سے بھی بدتر تھا جو کہ 170 نمبر پر ہے۔ خواتین صنفی بنیاد پر تشدد کی مختلف اقسام، جیسے کہ بچوں کی شادیاں، غیرت کے نام پر قتل کی شکار ہیں۔
بلوچستان میں خواتین آبادی کا نصف ہیں لیکن اس کے باوجود وہ سیاسی، ثقافتی، معاشی اور سماجی حقوق سے محروم ہیں۔ 2021 میں صوبے میں تشدد کے کل 129 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ مائیں غیرمحفوظ محسوس کرتی ہیں کیونکہ ان کے بچوں کی پرورش جنگی حالات میں ہوتی ہے۔ خواتین کو غیرقانونی اور اکثر غیرمحفوظ پیشوں میں مشغول ہونے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
اس کے باوجود کہ بلوچستان گیس، کوئلہ، تیل اور سونے جیسے قدرتی وسائل سے مالا مال ہے یہ دنیا کے غیرترقی یافتہ خطوں میں سے ایک ہے بلوچ خواتین کو کھلی آگ پر کھانا پکانا پڑتا ہے۔ صوبہ بلوچستان میں خواتین کی شرح خواندگی دنیا میں سب سے کم ہے۔ پاکستان سوشل اینڈ لیونگ اسٹینڈرڈ پیمائش سروے (2016) کے مطابق صوبے میں دس میں سے سات خواتین اور لڑکیاں کبھی سکول نہیں گئیں، سکول اکثر بہت دور ہوتے ہیں اور ان کے لیے طویل سفر کرنا خطرناک ہو سکتا ہے۔ خاندان کا دباؤ بھی انہیں پڑھائی چھوڑنے پر مجبور کر سکتا ہے۔
بلوچستان میں خواتین کی لیبر فورس کی شرکت صوبے میں خواتین کی کل آبادی کا صرف 5.06 فیصد ہے جو پاکستان اور دنیا میں سب سے کم ہے۔ خواتین اور لڑکیوں کی ایک بڑی تعداد کی شادی بیس سال کی عمر سے پہلے کر دی جاتی ہے۔ حالانکہ پنجاب اور سندھ میں کم عمری کی شادیوں کو پہلے ہی جرم قرار دیا گیا ہے۔ بلوچ خواتین کے لیے ایک اور چیلنج معیاری طبی سہولیات تک رسائی ہے جو خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے بہت اہم ہے۔ ان میں سے زیادہ تر غیرصحت مند سہولیات میں ڈاکٹر کے بغیر بچے کو جنم دیتی ہیں۔ 100,000 میں سے تقریباً 785 خواتین بچے کو جنم دیتے وقت مر جاتی ہیں۔
موسیٰ خیل کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں عورت کو مرد جیسا کھانا کھانے کا بھی حق نہیں ہے۔ بوٹی مرد اور شوربہ عورت کے حصے میں آتا ہے۔ چائے میں دودھ بھی مرد کو ملتا ہے جبکہ عورت کو قہوے پر گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ کچھ لڑکیوں نے بتایا کہ ان کے خاندانوں اور علاقوں میں بیٹے ماؤں پر ہاتھ بھی اٹھاتے ہیں کیونکہ بچپن سے وہ اپنے باپوں کو ایسا ہی کرتے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ قبائلی علاقوں کی لڑکیوں نے بتایا کہ کس طرح سردار اپنے علاقوں میں خواتین کی تعلیم میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ خضدار کی ایک طالبہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں مقامی سردار نے لڑکیوں کے پرائمری سکول میں مورچہ بنایا ہوا ہے۔
لڑکیوں نے دقیانوسی رسم و رواج کا ذکر کیا اور کہا کہ بہت سے علاقوں میں خواتین کو موبائل فون رکھنے کی اجازت نہیں ہے کیونکہ موبائل فون رکھنے والی عورت کو ‘لچر’ سمجھا جاتا ہے۔ انھوں نے کہا کہ پدرسری معاشرے کا دباؤ اتنا زیادہ ہے کہ خواتین میں استحصال کے خلاف کھڑنے ہونے کی طاقت نہیں ہے جو اس نظام کو چیلنج کرتا ہے اسے ‘بری عورت’ کا خطاب دیا جاتا ہے۔
خواتین کو ان جرائم کی سزا بھگتنی پڑتی ہے جن کا وہ حصہ بھی نہیں ہیں۔ ان کے والد اور بھائی اصل مجرم ہوتے ہیں جن کا ان مقدمات میں احتساب ہونا چاہیے لیکن انہیں ریلیف دیا جاتا ہے۔ خواتین کو زبردستی متاثرہ خاندان کے حوالے کیا جاتا ہے۔
گزشتہ پانچ سالوں کے دوران پنجاب بھر میں ونی کے چونتیس کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب کمیشن آن سٹیٹس آف ویمن پی سی ایس ڈبلیو کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق ونی کے تین کیسز ضلع راجن پور، تین کیس لیہ، دو کیس ڈیرہ غازی خان، اور ایک ایک کیس ضلع بھکر سے رپورٹ کیا گیا۔
پاکستان میں دنیا کے کسی بھی ملک کے مقابلے میں فی کس غیرت کے نام پر قتل کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ دنیا میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کا پانچواں حصہ پاکستان میں ہوتا ہے یعنی سالانہ 5000 میں سے 1000۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ جب سے اقوام متحدہ نے دیہی خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال 15 اکتوبر کو منانے کی منظوری دی ہے تب سے اس موقع پر پاکستان میں سرکاری و غیرسرکاری سطح پر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے عوام اور ادارے کسی حد تک سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ تاہم اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی دیہی خواتین کے معیار زندگی میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔
اس میں تبدیلی لانے کے لیے چند اقدام ضروری ہیں:
اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بطور چھوٹے پروڈیوسر خواتین کو پیداواری وسائل جیسے زمین، بیج، پانی اور جنگلات تک رسائی اور کنٹرول کے مساوی حقوق حاصل ہوں۔ خواتین کسانوں کو ریاستی زمین کی تقسیم میں شامل کیا جائے بشرطیکہ زمین قابل کاشت ہو اور زمین گرانٹ کے ساتھ وسائل پیکج بھی ہو۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ خواتین کو مقامی طور پر تیار کردہ، غذائیت سے بھرپور اور کیمیائی خطرات سے پاک خوراک میسر ہو۔ اس میں حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے خصوصی خوراک کے حقوق شامل ہونے چاہیں۔ خواتین کو زراعت سمیت تمام شعبوں مثال کے طور پر ماہی گیری، مویشیوں کی پیداوار، جنگلات اور ڈیری فوڈ پروڈکشن ورک فورس کے حصے کے طور پر مکمل پہچان اور پذیرائی دی جائے۔
کام کرنے والی دیہی خواتین کو پالیسی سطح پر اجتماعی شرکت کا حق دیا جائے تاکہ وہ مل کر اپنے مساوی مواقع، مساوی معاوضہ/تنخواہ، زچگی کی چھٹی اور فوائد، بچوں کی دیکھ بھال اور تولیدی صحت کی خدمات سے متعلق پالیسیوں پر اپنی رائے دینے اور اس کو موثر اور محفوظ بنانے کے قابل ہوں۔
وقت اور مزدور بچانے والی ٹیکنالوجیز دیہی خواتین کی فلاح و بہبود، کام کا بوجھ کم کرنے اور معاشی بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسی ٹیکنالوجیز جو معلومات تک رسائی کو بہتر بناتی ہیں ان کے زرعی کام (فصلوں کی پیداوار، لائیو سٹاک منیجمنٹ) اور غیرزرعی روزگار خواتین کو دستیاب ہونا چاہیے اور ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جانا چاہیے۔ لیبر سیونگ ٹیکنالوجیز کے ذریعے گھریلو کام کا بوجھ کم کرنا، براہ راست خواتین کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے اور ملازمت، تعلیم اور مہارت کے مواقع تک رسائی نیز آرام اور تفریح کے لیے وقت بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔
موبائل فون کے استعمال میں تیزی سے اضافے نے دیہی مردوں اور عورتوں کے لیے معلومات اور ٹیکنالوجی تک بروقت اور کم لاگت سے موثر رسائی کے نئے مواقع کو جنم دیا ہے لہذا سادہ مقامی زبانوں میں معلومات کی فراہمی سے کسانوں کے کاروباری رویوں کو نئی ٹیکنالوجیز کے ذریعے مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔ کمیونٹی مراکز جو سیکھنے کے لیے سیٹلائٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن کا استعمال کرتے ہیں وہاں پر دوردراز کے دیہی علاقوں کے خواتین کو زرعی توسیع، مٹی اور کیڑوں کے تجزیے اور صحت کی تشخیصی مہارت تک رسائی دی جائے۔ ان جدید طریقوں سے مختلف دیہات سے تعلق رکھنے والی خواتین کسانوں کو مصدقہ بیج اور دیگر ٹیکنالوجیز تک رسائی اور معلومات فراہم کی جائیں۔ چھوٹے اور پسماندہ کسانوں اور خصوصی طور پر دیہی خواتین کو اس طرح کے توسیعی منصوبوں میں خصوصی طور پر شامل کیا جائے۔
لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کے لیے آرٹیکل 25A نافذ کیا جائے۔ بالغ خواتین کے لیے تعلیم بالغان کے آؤٹ ریچ پروگراموں کو وسعت دی جائے۔ دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے مڈل، سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور طالبات کو اپنے تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔
صوبائی اور ضلعی حکومتوں کو دیہی خواتین کے لیے پیشہ ورانہ مہارتوں پر مبنی ڈپلوما کورسز شروع کرنے چاہئیں۔ دیہی خواتین کے لیے زراعت اور مویشیوں کے کام کے مہارتوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ غیرزرعی دیہی معیشت کی مہارتوں اور معلومات کے مواقع دیئے جایئں۔ دیہی خواتین کو اس وقت ایسی تربیتوں اور مہارتوں کی ضرورت ہے جو ان کے کام سے متعلق نئی ٹیکنالوجیز تک رسائی فراہم کریں۔