کیپرا کی اِن پُٹ ٹیکس ایڈجسمنٹ کیا ہوتی ہے؟
خیبر پختونخوا ریونیو اتھارٹی نے کہا ہے کہ اِن پٹ ٹیکس گوشوارے جمع کرنے کے فارم میں ادارے سے چھ ماہ کے اندر اندر کلیم کیا جا سکتا ہے، کیپرا نے یو ایس ایڈ کے پی آر ایم کے تعاون سے اپنی آگاہی پروگرام میں اِن پٹ ٹیکس ایڈجسمنٹ کے بارے میں عوام کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اِن پٹ ٹیکس ایڈجسمنٹ کیا ہوتی ہے اور یہ کن صورتوں میں ہو سکتی ہے؟
اس حوالے سے ڈائریکٹر کمیونیکیشن آفتاب احمد نے کہا کہ ایک ہوتا ہے کہ آوٹ پٹ اور ایک اصطلاح اِن پٹ استعمال کی جاتی ہے کہ اگر کوئی ٹرانسپورٹر ہے، وہ سیمنٹ کا کاروبار کرتا ہے اور وہ سیمنٹ پشاور لا رہا ہے تو اس پر پہلے ایف بی آر کو سیلز ٹیکس دیا جاتا ہے اور اس کا اِن پٹ وہ ہم سے کلیم کرتے ہیں یعنی ایف بی آر کو جتنا ٹیکس جمع کیا ہوتا ہے تو اس کی لائبیلٹی منفی کر کے باقی ٹیکس ہمیں دیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کے لئے یہ ہے کہ جب کوئی ٹیکس پیئر گوشوارے جمع کرتا ہے تو بھرنے والے فارم میں خودبخود اس ٹیکس کی ایڈجسمنٹ ہو جاتی ہے اور اسی فارم میں باقی تمام ساری تفصیلات شامل ہوتی ہیں۔
آفتاب احمد نے کہا کہ قانون کے مطابق یہ ٹیکس چھ ماہ کے دوران کلیم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی جینوین ایشو ہو تو اس میں توسیع بھی ہو سکتی ہے لیکن اس کے لئے معقول جواب دینا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ٹیکس پیئر کو چاہئے کہ وہ رجسٹرڈ فرم کے ساتھ کام کرے، اور اسے پچاس ہزار سے زائد رقم بینک کے تھرو جمع کرنا چاہئے۔
ان کے مطابق جتنی بھی ہماری ریونیو اتھارٹیز ہیں تو ان کے ساتھ ہمارے معاہدے ہوئے ہیں کہ اگر ان کا اِن پٹ ٹیکس بنتا ہے تو انہیں ہم مہیا کرتے ہیں، اگر ہمیں ادا کرنا ہوتا ہے تو وہ ہمیں ادا کرتے ہیں اور اس ضمن میں ہم نے گزشتہ سال 5 ارب روپے ادا کئے تھے اور اس میں ہمارا کوئی نقصان نہیں بلکہ قومی یکجہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس میں یوٹیلٹی بلز اور ٹرانسپورٹ وغیرہ بھی آتے ہیں بشرطیکہ کوئی خدمات کے حصول والا شخص ہمارے ساتھ رجسٹرڈ ہو۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی تاجر ہمارے ساتھ رجسٹرڈ نہ ہو اور وہ پھر بھی عوام سے سروسز کا ٹیکس وصول کر رہا ہے تو یہ ایک جرم ہے کیونکہ یہ سارے اثاثے عوام کے ہوتے ہیں اور اگر ہم انہیں اس طرح چھوڑیں تو ہم ذمہ دار ہیں تو اس میں جیل اور پانچ لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکتا ہے، اسی طرح ہم نے کچی رسید والے ایک شخص کو جرمانہ کیا تھا جو گاہک سے کچی رسید کے ذریعے ٹیکس وصول کرتا تھا۔
آفتاب احمد کے مطابق جو 15 فیصد ٹیکس ادا کرتے ہیں تو وہ ہمارے پاس اپنا ٹیکس کلیم کرنے کے لئے آ سکتے ہیں، اس کے علاوہ جو ٹرانسپورٹر تھے وہ ہم سے زیادہ اِن پٹ ٹیکس وصول کرتے ہیں کیونکہ جب پٹرول کی قیمتیں بڑھ گئیں تو ٹیکس اِن پٹ 13 روپے بنتا تھا مگر وہ ہم سے 31 روپے وصول کرتے تھے جس سے کیپرا کو نقصان اُٹھانا پڑتا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہوتی ہے کہ جیسے ہی حکومت کا اعلامیہ جاری ہوتا ہے تو اس کو اخبارات اور سوشل میڈیا کے ذریعے پروپیگیٹ کرتے ہیں تاکہ عوام میں شعور و آگاہی پیدا ہو جائے دراصل یہ ٹرم تھوڑا مشکل ہے مگر پروسِس نہایت اسان ہے جب کوئی اسے فل کرنا چاہے۔
ڈائریکٹر کمیونیکیشن نے کہا کہ اِن پٹ ٹیکس ایڈجسمنٹ صرف صوبے میں خدمات سرانجام دینے والے اداروں سے تعلق رکھتی ہے اگر صوبے سے باہر کوئی ادارہ ہو اور وہ صوبے کے باہر خدمات دے رہا ہو تو وہ ٹیکس ان پر لاگو نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ اِن پٹ ٹیکس ایڈجمسنٹ کی مد میں دی جانی والی رقم کیش میں ادا نہیں کی جاتی بلکہ یہ خزانے سے بینک کے ذریعے واپس وصول کی جا سکتی ہے اور اس کی واپسی قانون کے مطابق ہوتی ہے۔