لائف سٹائلکالم

”ہماری بیٹی تو کبھی باورچی خانے میں گئی ہی نہیں!”

ارم رحمٰن

ممی ڈیڈی بچے، برگر فیملی Bread and butter کے مسائل سے مبرا ہوتے ہیں۔ یعنی اردو میں روٹی سالن کے مسئلے نہیں دیکھے ہوتے اور انگریزی والا بریڈ اور بٹر ہی کھا رہے ہیں۔

یہ طبقہ پتہ نہیں کیسے معرض وجود میں آ گیا؟ جیسے دیسی مرغی کی جگہ برائلر مرغیوں نے لی، کوڑے اور کھلی جگہ سے دانہ چگنے والی دیسی مضبوط مرغی کی جگہ اپنی جگہ ٹھس بیٹھنے والی کیونکہ وہ اپنی پیدائش کے دنوں سے پہلے ہی پیدا ہو جاتی ہیں۔

ممی ڈیڈی بچے بالکل ان برائلر مرغیوں کی طرح ہوتے ہیں جنھوں نے کبھی کسی گندگی اور کوڑے میں منہ نہ مارا؛ کیڑے مکوڑوں سے دور، یعنی وہ بچے جو پیاری سی مرغی کے چوزوں کی طرح ہوں نہلا دھلا کر کوئی پیارا سا رنگ پروں پر لگا کر صاف جگہ بٹھا دیا جائے اور ہر وقت سست اور کاہلی کا شکار ہوتے ہیں کیونکہ دیسی مرغی کے بچے تو اپنی ماں کی طرح کھلے عام پھرتے ہیں، گرم سرد کے عادی، گرمی اور بارش میں پھرنے والے خود دانہ چگنا اور پیٹ بھرنا کیڑے مکوڑے اور سونڈیوں کو ڈھونڈنا اور لنچ ڈنر کرنا وہ ہر وقت اپنی ماں کے پروں سے لگ کر نہیں بیٹھتے بلکہ اپنے وقت پر وہ سارے کام کرتے ہیں جو انھیں مضبوط اور سخت جان بناتے ہیں۔

یہ تو چلو پرندے ہیں، جانور بھی ایسا ہی کرتے ہیں لیکن انسان تو اشرف المخلوقات ہے؛ وہ تو اس قدر باصلاحیت اور مضبوط ہے کہ کچھ کرنا چاہے تو کیا نہیں کر سکتا؛ پہاڑ توڑ ڈالے، سمندر کا سینہ چیر کر گوہر نایاب ڈھونڈ لائے، چاند سورج کے فاصلے ناپ لے، آسمانوں کے راز جان لے، لوہا پگھلا دے اور دریاؤں کے رخ موڑ دے۔

مضبوط اور جرات مند انسان اپنے بچوں کو بھی اپنی طرح محنت مشقت اور جفاکشی کی عادت ڈالتا ہے۔ کبھی آپ دیکھیے کہ غریب لوگوں کے بچے کس طرح شدید سردی میں بھی ننگے پاؤں اور نامناسب کپڑے پہنے محنت میں لگے ہوتے ہیں، چنگڑوں کے بچے کوڑے سے باسی کھانا اٹھا کر کھا لیتے ہیں، بہت بہت سختیاں جھیلنے والے لوگ بڑے ہو کر کس قدر مضبوط بنتے ہیں۔

کبھی غور کیجیے گا؛ آسائشوں اور سہولتوں کے عادی کبھی بھی قناعت پسند اور شکرگزار نہیں بنتے، جن بچوں نے صبح سویرے لکڑی کی تختیاں لہراتے ٹاٹ پر بیٹھ کر پڑھا ہوتا ہے، سلیٹ پہ چاک سے لکھا ہوتا ہے، ہاتھ گال پھٹے ہوتے ہیں مگر روز سردی میں سکول جا کر پڑھتے ہیں اور شام کو والدین کے ساتھ کام کرتے ہیں۔

وہ بچے جو گھریلو حالات سے مجبور بچپن سے ہی کمانے نکل پڑتے ہیں ان کو دیکھیے، ممی ڈیڈی بچے معمولی نزلہ زکام پر مہنگے ہسپتالوں میں چیک اپ کروانے جاتے ہیں اور غریب شدید بخار میں بھی پیناڈول کھا کر ہلدی دودھ اگر نصیب ہو تو پی کر ٹھیک ہو جاتے ہیں۔

میرا مضمون امیر غریب کے فرق پہ نہیں بلکہ مضبوطی اور جفاکشی پر ہے کیونکہ "ممی ڈیڈی بچے” یا "برگر فیملی” سے مراد وہ بچے نہیں جو صرف برگر اور شوارما کھاتے ہیں۔ یہاں پر دو پہلو نکل سکتے ہیں کہ چلیں برگر، شوارما، پیزا یہ تو روٹی اور میدے کی تبدیل شدہ یا جدید اشکال ہیں، یہ وقت کے ساتھ وجود میں آئیں لیکن دوسرا پہلو یہ بھی میڈیکلی ثابت ہو گیا ہے کہ ایسی میدے اور کلوریز سے بھرپور غذائیں کھانے والے "پھوکے” یعنی خالی اور کھوکھلے ہو جاتے ہیں، ان میں موٹاپا تو آ جاتا ہے لیکن طاقت نہیں ہوتی۔ مانا کہ سب خالص خوراک تقریباً ناپید ہیں لیکن آج بھی آپ کو روٹی سالن چٹنی سبزی کھانے والے لوگ مضبوط اور سخت جان ملیں گے۔

ایک طرح سے یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ٹھوس غذا انسان کو سخت جان بناتی ہے اور ان کو چاق وچوبند رکھتی ہے۔
اسی طرح جو بچے بچپن سے سردی گرمی جھیلتے ہیں اور جسمانی کام اور مشقت کرتے ہیں وہ عام طور پر نہ تو جلدی بیمار ہوتے ہیں اور نہ ہی تھکتے ہیں۔

ہر وقت سجے سنورے بچے جن کے ہاتھوں نے کبھی مٹی کے کھلونے نہ بنائے ہوں، ننگے پاؤں مٹی اور سیمنٹ کے فرش پہ نہ دوڑے ہوں، گلی محلوں میں گلی ڈنڈا قینچے نہ کھیلے ہوں، ایک دوسرے دوستوں کے پیچھے سارے محلے میں دوڑ بھاگ نہ کی ہو ان بچوں کے ہاتھ پیر کیسے ہوں گے، جن بچوں نے گرمی کے موسم سے پہلے ہی اے سی آن کر لیے ہوں انہیں کیا پتہ پسینے میں شرابور کیسے ہوا جاتا ہے اور ایسے جسموں میں ہر مسام کھل کر تازہ ہوا اپنے اندر بھرتا ہے، دوڑنے اور تیز چلنے سے دل کی شریانیں کھلتی ہیں، پھیپھڑے مضبوط ہوتے ہیں۔ ہر وقت بند کمروں میں بیٹھ کر گیم کھیلنے والے کبھی بھی تندرست نہیں رہ سکتے، ان کا مدافعتی نظام عام بندے سے زیادہ مضبوط ہو ہی نہیں سکتا۔ کبھی مزدوروں کو دیکھیے شدید گرمی میں جب لو کے تھپیڑے گرمی میں ٹھہرنے نہ دیں وہ تن دہی سے عمارتیں بنا رہے ہوتے ہیں، کیا وجہ ہے ایک ہی جیسے انسان ایک ہی موسم میں کس قدر فرق؟

صرف بچپن سے عادت محنت کی، مشقت کی، جن ہاتھوں نے پتھر توڑے ہوتے ہیں ان کے وجود فولاد کے ہوتے ہیں؛ گرمی سے نہیں پگھلتے!

یہ تو تمہید۔۔ ایک مضبوط اور نازک جسم کا فرق، چلیے آتے ہیں اب کامیاب زندگی کی طرف!

جلدی سے سوچیے کہ آپ سینما میں اپنے پسند کے ہیرو ہیروئن کی فلم دیکھنے جاتے ہیں؛ ہیرو کی دوڑ، اس کے مسلز، اس کے سِکس پیکس، اس کی چھلانگ اور پسینے میں ڈوبا وجود! سب اس کی چستی پھرتی کی داد دیتے ہیں خواتین اسے اپنا آئیڈیل قرار دیتی ہیں۔ تو بتائیے کیا وہ ہر وقت اے سی میں بیٹھا رہتا ہے؟

جم تو خود جاتا ہے، ورزش تو خود کرتا ہے، ایک خاص قسم کی خوراک کھاتا ہے جس میں بلاوجہ کیلوریز نہیں ہوتیں، بے شک گاڑی میں اے سی ہو مگر سِکس پیکس کے لیے تو اسے پسینہ بہانا پڑے گا، اس کو اپنے جسم کو خوبصورت بنانے کے لیے ہر طرح کی پابندی کرنی پڑے گی؛ وقت کی پابندی، ورزش اور خوراک کیونکہ کامیاب زندگی ائیر کنڈیشن میں بیٹھے رہنے سے بن ہی نہیں سکتی۔ پائلٹ کو دیکھیے، کشتی کرنے والے جدید ریسلر بھی، کبڈی کھیلنے والے، باکسنگ اور پوری دنیا کے سب سے زیادہ پسندیدہ کھیل کھیلنے والے یعنی فٹ بال، اور کرکٹ، اسی طرح ہر کھلاڑی! ذرا اس کے اوقات کار دیکھیے، محنت کا انداز اور لگن دیکھیے!

ڈاکٹر انجینئر کو دیکھیے! ہزار سہولتیں ہوں پڑھنا تو اس نے خود ہے، اور گھنٹوں محنت۔ پھر کیسے کیسے مریضوں کو دیکھنا ملنا، سب محنت مشقت ہے۔

اب آتے ہیں سب سے مشکل پیشے، پولیس اور آرمی کی طرف! ان شعبوں میں جانے کے لیے لوگ ترستے ہیں، کبھی ان کے روزمرہ معمول دیکھیے آپ کے ہوش ٹھکانے آ جائیں گے۔

اسی طرح خواتین اپنی بچیوں کو پڑھائی لکھائی کے ساتھ ساتھ گھر کے سارے کام سکھائیں، یہ کوئی فخر کی بات نہیں کہ ہماری بیٹی تو کبھی باورچی خانے میں گئی ہی نہیں، اسے تو انڈہ ابالنا بھی نہیں آتا، سوئی میں دھاگہ نہیں پرو سکتی، ریڈی میڈ کپڑے ہیں نا، پکا پکایا کھانا ملتا ہے نا، جب چاہا آرڈر کیا اور کھانا حاضر، انھیں پکانے والے کس قدر محنت کرتے ہیں یہ بھی تو دیکھیے، درزی، درزن وہ بھی تو انسان ہی ہیں نا!

سب ملتا ہے، سب چلتا ہے لیکن ہم نے بچیوں کو کیا سکھایا؟ کیا ہماری بچیاں مشکل ترین حالات کا سامنا کر سکتی ہیں؟ اگر بازار بند ہوں یا مالی مشکلات میں پھنس جائیں تو خود کام کر کے بچت اور کفایت شعاری سے گھر چلا سکتی ہیں؟ کچھ خواتین کو تو اکثر نوکری کے ساتھ گھرداری بھی کرنی پڑتی ہے؛ شوہر اور بچے سنبھالنے پڑتے ہیں، ہر طرح کے حالات کو نبھانے کا سلیقہ سکھانا چاہیے، ہر وقت عیش و عشرت کی زندگی ورنہ طلاق، یہ تو کوئی کامیاب زندگی نہیں، جیسا موقع محل ہو رہنے کا طور طریقہ آنا چاہیے۔

ساری باتوں کا خلاصہ یہ ہے: سادہ خوراک اور شدید محنت، یہ ہی کامیاب اور صحتمند زندگی کا راز ہے۔ اپنے بچوں کو سہولتیں دینا ہر والدین کی دلی آرزوؤں میں سے ایک ہے لیکن جو والدین اپنی اولاد کو بچپن سے محنت کرنے کی عادت نہیں ڈالتے وہ بچے بڑے ہو کر کبھی مضبوط سخت جان نہیں بن سکتے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو برداشت نہ کرنے والے بڑے بڑے معرکے کیسے ماریں گے؟ جنھوں نے موسموں اور حالات کی سردی گرمی نہ جھیلی ہو وہ زندگی کی تلخیاں کیسے جھیلیں گے؟

اپنی اولاد کو اگر بہت مضبوط اور کامیاب دیکھنا ہے تو انھیں صرف اتنا آرام دیجیے جتنی ایک تندرست انسان کو ضرورت ہے؛ تن آسانی اور بے جا آرام کسی بھی بچی بچے کو کبھی بھی بڑا اور کامیاب انسان نہیں بنا سکتا کیونکہ ہر حالت میں خود کو آگے بڑھانا اور ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہی کامیابی ہے۔

Erum
ارم رحمٰن بنیادی طور پر ایک اچھی شاعرہ اور کہانی نویس، اور اچھا مزاح لکھتی ہیں۔ سیاست سے زیادہ دلچسپی نہیں تاہم سماجی مسائل سے متعلق ان کے مضامین نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ پڑوسی ملک سمیت عالمی سطح کے رسائل و جرائد میں بھی شائع ہوتے رہتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button