حمیرا علیم
تصویر میں موجود سفید ریش بزرگ فقیر گل ہیں۔صاف ستھرے سفید لباس ، کالی واسکٹ اور سر پہ ٹوپی اور چہرے کی متانت ان کے معزز ہونے کی گواہی دیتے ہیں مگر ہتھکڑی لگے ہاتھ اور دو پولیس آفیسرز کے درمیان کھڑے ہونا یہ ظاہر کرتا ہے کہ انہوں نے کوئی جرم کیا ہے۔جی ہاں یہ درست ہے انہوں نے خاصا سنگین جرم کیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیٹے کے قاتلوں کو صوابی کی عدالت میں فائرنگ کر کے انصاف چھین لیا ہے۔
اس تمہید کا مقصد انہیں معصوم ثابت کرنا یا ان کے جرم کی سنگینی کو کم کرنا نہیں بلکہ صرف یہ ظاہر کرنا ہے کہ جب معاشرے کے ایک بے ضرر اور معزز شہری کے بیٹے کو قتل کر دیا جائے اور پولیس اور قانون پانچ سال تک مجرم کو سزا نہ دے سکیں اور بوڑھا باپ تپتی دوپہروں، ٹھہرتی سردیوں میں صبح سے شام تک عدالتوں کے دھکے کھائے۔پولیس، وکلاء، منشیوں کے چائے پانی کا بندوبست کرے اور شام کو مایوس تھکا ہارا گھر لوٹے جہاں اس کے جوان مقتول بیٹے کی ماں بہنیں اس آس میں بیٹھی ہوں کہ آج انہیں یہ خوشخبری ملے گی کہ ان کے بیٹے اوربھائی کے قاتل انجام کو پہنچے مگر بوڑھے باپ کے جھکے کندھے اور اداس چہرہ دیکھ کر ان کی زبانیں گنگ ہو جائیں وہ کوئی سوال نہ کر پائیں صرف اللہ تعالٰی سے فریاد کریں تو ایک دن ایسا بھی آتا ہے کہ انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتاہے۔
وہ سوچتا ہے کہ ہماری پولیس اور قانون تو انصاف دے نہیں پائیں گے تو کیوں نہ خود ہی انصاف کی کرسی پہ بیٹھ کے اپنی عدالت میں سزا سنائی جائے جج اور جلاد کے فرائض بھی خود ہی سر انجام دے لیے جائیں۔مگر جونہی یہ نحیف و نزار بابا ان قاتلوں کو گولیاں مارتا ہے۔وہی قانون جو کہ پچھلے پانچ سال سے نہ زمین جنبش نہ جنبش گل محمد کی عملی تصویر بنا بیٹھا تھا فورا حرکت میں آتا ہے اور فقیر گل کو گرفتار کر لیتا ہے اور یقینا جلد ہی اسے پھانسی بھی چڑھا دیا جائے گا کہ قاتل کی سزا تو یہی ہے۔
مگر قانون اور انصاف اندھا ہے کیونکہ اسے تو دکھائی ہی نہیں دیا کہ یہ زندہ فقیر گل تو نہیں یہ تو اس کی لاش ہے۔فقیر گل تو اسی دن مر گیا تھا جس دن اس نے اپنے جوان بیٹے کی لاش قبر میں اتاری تھی۔پھر لاش کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اسے پھانسی چڑھایا جائے یا تمغہ جرات دیا جائے۔ہاں اتنا ضرور ہوا کہ اس نے سب کو یہ یقین دلا دیا کہ عدالت انصاف نہ دے تو مظلوم خود منصف بن جانا چاہیے کیونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انصاف حاصل کرنے کا یہی واحد ذریعہ ہے۔
نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا
فقط قانون کا میزان گرا
اس سے پہلے بھی2019 میں سیالکوٹ کی ایک خاتون نے اپنے بیٹے کے قاتل کو گولی مار دی تھی کیونکہ سات سال تک مقدمہ چلنے کے بعد عدالت نے ملزم کی سزائے موت کو کالعدم قرار دے کر اسے رہا کر دیا تھا۔ وجہ صرف اور صرف انصاف کے عمل میں تاخیر یا رکاوٹ تھی۔اگر عدالت اپنا فرض پوری دیانتداری اور ذمہ داری کے ساتھ پورا کرتی اور قاتلوں کو جلد از جلد سزا دیتی تو نہ تو فقیر گل اور نہ ہی پروین اختر قانون ہاتھ میں لیتے۔
ایسی خبروں پر تبصرے کرنا اور یہ کہنا کہ عدالت پہ بھروسہ کرنا چاہیے تھا صبر کرتے، معاف کر دیتے بے حد آسان ہوتا ہے جس ماں یا باپ کا جوان بچہ اس کی آنکھوں کے سامنے قتل کر دیا جائے یہ اس کا دل ہی جانتا ہے کہ ایسا کرنا کتنا دشوار ہوتا ہے۔شریعت و قانون پہ چلیں تو کسی کا قتل کبیرہ گناہ ہے خواہ وہ قاتل ہی کیوں نہ ہو۔میری ذاتی رائے بھی یہی ہے کہ اگر کسی نے آپ کے ساتھ زیادتی کی ہے تو اسے مار کر جنت میں جانے کا موقعہ دینے اور اپنے ہاتھ اس کے گندے خون میں رنگ کر جہنمی بننے کی بجائے صبر کیجئے، اور اللہ تعالٰی سے شکوہ کیجئے، دعا کیجئے کہ وہ آپ کا بدلہ لے اور یقین رکھیے کہ اگر اس دنیا میں نہیں تو اگلی دنیا میں تو آپ کو انصاف ضرور ملے گا کہ اللہ تعالٰی پاکستانی منصفوں سے مختلف اور بڑا عادل منصف ہے۔
ذرا اپنے آپ کو پروین بی بی اور فقیر گل کی جگہ رکھ کر سوچیں۔اللہ نہ کرے کہ کسی کے بچوں کو گرم ہوا بھی چھوئے۔مگر جوان بیٹے کی موت پہ صبر سے زیادہ دشوار عمل شاید ہی کوئی ہو۔اگر تو یہ طبعی موت ہو تو بھی شاید انسان دل کو سمجھا لے مگر قتل کے بعد تو کسی پل چین نہیں آتا۔کان اس خبر کو سننے کو ترس جاتے ہیں کہ قاتل پکڑے گئے اور قرار واقعی سزا پا گئے لیکن جب ہماری کرپٹ عدالتیں مظلوم کو انصاف کی بجائے مجرموں کی پشت پناہی کریں تو فقیر گل بننا ہی پڑتا ہے۔اللہ تعالٰی تمام والدین کو بچوں کے دکھ سے بچائے اور بچوں کو اپنی حفظ و امان میں رکھے۔