لائف سٹائلکالم

بڑھتی آبادی اور لاپرواہ انسانیت

محمد سہیل مونس

اقوام متحدہ کے ایک ادارے ڈپارٹمنٹ آف اکانومک اینڈ سوشل افیئرز کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق پندرہ نومبر سن دو ہزار بائیس تک دنیا کی آبادی آٹھ ارب تک پہنچ جائے گی جبکہ انہی اعداد وشمار کے مطابق بھارت کی آبادی اگلے سال کے اختتام تک چین سے ذیادہ ہو جائے گی۔

اس بڑھتی ہوئی آبادی کے بار ے میں اقوام متحدہ کے جنرل سیکرٹری نے اپنے ایک پیغام میں دنیا پر واضح کیا کہ دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ ہماری یہ بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ دوسرے مسائل کو دیکھنے کے علاوہ دنیا کی اتنی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے پر بھی دھیان دیں تاکہ زمین انسانوں کے رہنے کے قابل رہے۔

دنیا کی آبادی سن 1950 تک کافی دھیمے رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی لیکن حالیہ اعداد وشمار نہایت ہی ہوشرباء ہیں، ایک سروے کے مطابق زمین پر بسنے والے نفوس کی کل تعداد سن 2030 تک آٹھ اعشاریہ پانچ ارب، 2050 تک 9 اعشاریہ 7 ارب اور اسی طرح سن 2080 سے لے کر اس صدی کے آخر تک 10 اعشاریہ 4 ارب تک پہنچ جائے گی۔

یہ شرح اگرچہ پرانے دور کی فرٹیلیٹی کی شرح سے کم ہونے کے باوجود بھی اتنی بھیانک ہے، ایک اندازے کے مطابق دنیا کے دو بٹہ تین فیصد آبادی میں بچوں کو جنم دینے والی ماؤں کے برتھ کی شرح دو اعشاریہ ایک فیصد ہے۔ اس شرح کو مزید کم کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آنے والے ادوار میں انسانیت سنگین مسائل سے دوچار ہو سکتی ہے جبکہ پرانے دور کے مقابلے میں جدید علاج معالجے اور دیگر وجوہات کی بنا پر شرح اموات میں پہلے سے کئی گنا کمی واقع ہوئی ہے۔

اقوام متحدہ کی رپورٹس کے مطابق سن 2050 تک بڑھتی ہوئی آبادی کی شرح سے اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کے آٹھ ممالک آنے والے دور میں دھرتی پر مزید نصف آبادی کا بوجھ ڈال سکتے ہیں جن میں کانگو، ایتھوپیہ، مصر، بھارت، نائجیریا، فلپائن، پاکستان اور تنزانیہ شامل ہیں جبکہ افریقہ کے سب صحارا کے اسٹیٹس سے پوری توقع ہے کہ باقی کی کسر وہ پوری کر لیں گے۔

اس دور میں آبادی اور ترقی کے بیچ جس طرز کا رشتہ ہے وہ سخت تناؤ کا شکار ہی۔ اس بارے میں لیوژین من، یو این انڈر سیکرٹری جنرل فار اکنامک اینڈ سوشل افیئرز نے کہا کہ زیادہ آبادی غربت کی وجہ، بھوک کا سبب، غیرمعیاری خوراک کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے جبکہ یہ تعلیم، صحت، روزگار اور ترقی پر بری طرح اثرانداز ہوتی ہے۔ یہ ساری چیزیں تبھی ممکن ہیں جب آبادی کے اس سیلاب کے آگے بند باندھا جا سکے۔

ایک دوسری رپورٹ کے مطابق دنیا کے کئی خطوں میں انفرٹیلیٹی کے سبب ان علاقوں میں 25 سے 65 برس کی عمر تک لوگ اپنے پیشے سے منسلک ہیں اور تن دہی سے کام کر رہے ہیں، ان علاقوں میں اگر یہی حال رہا تو سن 2020 تک جب یہاں اس عمر میں بھی کام کرنے والوں کی شرح 10 فیصد تھی وہ سن 2050 تک 16 تک پہنچ جائے گی۔ اس کے علاوہ امکان یہ بھی ہے کہ سن 2050 تک 65 برس کی عمر کے لوگوں کی تعداد اس دور کے پانچ سے 12 برس کے بچوں سے دگنی ہو جائے گی۔

2019 میں عالمی شرح اموات 65سال کی عمر میں تقریباً 72 اعشاریہ 8 فیصد تھی جبکہ 9 سال میں یہ مزید بہتر ہوئی اب اسے سن 2050 تک 77 اعشاریہ 28 فیصد تک لانے کا امکان ہے۔

اس ضمن میں اگر غور کیا جائے تو غیرترقی یافتہ ممالک میں اوسط عمر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں سات سال کم ہے جس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ آبادی کی زیادتی، خوراک، صحت، تعلیم، صفائی اور اس طرح کے انگنت مسائل سے دوچار ہونا ہے۔ اسی اثناء کووڈ نے بھی رہی سہی کسر پوری کر دی اور اس وباء کے بعد سارے گلوب پر اوسطاً عمر تقریباً 71 برس رہ گئی۔

ایک حالیہ سروے کے مطابق دھرتی پہ رہنے والے انسانوں میں سے مردوں کی کل تعداد تین ارب ستانوے کروڑ تئیس لاکھ آٹھ ہزار تین سو نوے ہے جو کہ کل آبادی کا پچاس اعشاریہ 42 فیصد بنتے ہیں جبکہ خواتین کی تعداد تین ارب نوے کروڑ 47 لاکھ 27 ہزار 342 بنتی ہے یعنی پوری آبادی کا 49 اعشاریہ آٹھ فیصد، اب کہا یہ جا رہا ہے کہ گلوب پر ہر سو خواتین کے لئے 101 اعشاریہ 68 فیصد مرد دستیاب ہیں لیکن ایک نائجیرین اخبار کے ایک مضمون کے مطابق کہا جا رہا ہے کہ زمین پر محض دو اعشاریہ دو ارب مرد جبکہ پانچ اعشاریہ چھ ارب خواتین ہیں۔ا س مضمون میں مزید یہ بھی لکھا گیا ہے کہ ایک ارب لوگ شادی شدہ ہیں، 13 کروڑ جیلوں میں ہیں اور سات کروڑ سے زائد ذہنی طور پر کسی نہ کسی بیماری میں مبتلاء ہیں جبکہ تقریباً تین فیصدی سے زیادہ خواجہ سراء یا پھر ایل جی بی ٹی ہیں۔

اس نائجیرین اخبار کا مضمون تو نہایت ہی مضحکہ خیز لگتا ہے کیونکہ خواجہ سراء، قید، ذہنی مریض اور شادی شدہ مرد ان میں سے نکال لیں تو پورے گلوب پہ ٹھیک ٹھاک مردوں کی تعداد محض 94 کروڑ بچتی ہے جبکہ شادی شدہ خواتین، پھر اس صنف میں سے ایل جی بی ٹی، قید یا ذہنی مریض نکالیں تو پلڑا پھر بھی خواتین کا بھاری رہتا ہے۔

یہ تمام باتیں ایک جانب لیکن اس تحریر سے مطلب قارئین کو اس بات سے آگاہ کرنا تھا کہ خدارا بچوں کی لائن لگانے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، کم بچے خوشحال گھرانہ ایک بہتر حکمت عملی ہے اس پہ دھیان دیں اور کم از کم پاکستان جیسے غریب ملک پر مزید بچوں کا بوجھ نہ ڈالیں۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button