تیراہ: ”آلو سٹور کرنے کا یہ طریقہ سینکڑوں سال پرانا ہے”
شاہ نواز آفریدی
باڑہ: سردیوں کا موسم شروع ہوتے ہی تیراہ تختکی کے رہائشی علی مت خان اپنے باپ دادا کے زمانے سے چلے آ رہے، سینکڑوں سال پرانے طریقے کو اپناتے ہوئے آلو کی بڑی مقدار کو شدید سردی میں استعمال کے لئے زیرزمین رکھ کر چھ ماہ تک سٹور کرتے ہیں، تختکی اور تیراہ کے دیگر مختلف برف سے ڈھکے علاقوں میں لوگ آلو کو اسی طرح سٹور کرنے کے بعد برف کے خاتمے، مارچ کے مہینے تک استعمال کرتے ہیں۔
تیراہ کے اونچے مقامات میں سے ایک تختکی کے علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ بچوں کے والد اور والدین پر مشتمل 9 بندوں کے خاندان کے کفیل علی مت خان نے بتایا کہ وہ اپنے باپ دادا کا سینکڑوں سال پرانا طریقہ کار اپناتے ہوئے ہر سال پانچ، چھ من یا کم و بیش اپنے ہی کھیتوں کے آلو کو زیر زمین خشک جگہ پر دفنا کر سٹور کرتے ہیں اور اکثر اوقات سٹور کرتے وقت آٹے کی خالی بوریاں بھی رکھتے ہیں تاکہ نمی کو ختم کر کے آلو کو اگنے سے روکا جا سکے۔
قبیلہ ملک دین خیل کی ذیلی شاخ کرنا خیل سے تعلق رکھنے والے نیکہ کلے کے 80 سالہ مہمند نے بتایا کہ ہم اپنے باپ دادا کے وقت سے آلو سٹور کرتے ہیں اور ہم شلغم اور کبھی کبھی لوبیا بھی سٹور کرتے ہیں حالانکہ لوبیا کو سٹور کئے بغیر بھی بہت عرصے تک استعمال کیا جا سکتا ہے البتہ شلغم کو تھوڑے عرصے کے لئے سٹور کرتے ہیں کیونکہ وہ جلد خراب ہو جاتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سردیوں کے سخت موسم میں جب تین فٹ سے زیادہ برف پڑتی ہے اور بسااوقات ہمارے راستے بند ہو جاتے ہیں تو یہاں پر سینکڑوں خاندان زیادہ تر ان سٹور شدہ خوراک بالخصوص آلو کا استعمال کرتے ہیں، تیراہ میدان کے علاقوں میں دسمبر سے فروری تک بڑی مقدار میں برف پڑتی ہے مگر ہم پہلے ہی سے تیاری کر لیتے ہیں اور مارچ تک اس کا استعمال کرتے ہیں۔
ضلع خیبر تحصیل باڑہ کے ایگری کلچر فیلڈ انسپکٹر شفقت خان نے رابطے پر بتایا کہ تیراہ میں آلو سمیت دیگر اچھی فصلیں اگتی ہیں جس کے لئے ہم مختلف قسم کی سرگرمیاں کرتے ہیں، ان میں زیادہ تر ٹریننگز شامل ہوتی ہیں جن میں مقامی کاشتکاروں کو ورٹیکل فارمنگ اور ٹنل فارمنگ کے طریقے سکھانے سمیت ان کو آلات بھی دیتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ باڑہ آکاخیل میں واقع فارم سروسز سنٹر میں ہمارے ساتھ 2160 کسان رجسٹرڈ ہیں جن کو ہم وقتاً فوقتاً سہولیات فراہم کرتے ہیں، ہم نے ان کو سبسڈائزڈ ریٹ پر گندم دی، پچھلے سال تیراہ کے کسانوں کو آلو کے ایک ہزار بیگز دیئے، ہر بیگ میں پچاس کلو آلو تھا۔
شفقت خان کے مطابق باڑہ میں زمینداروں کی تعداد اور ان کی زمین کا کوئی ایگزیکٹ ڈیٹا نہیں ہے البتہ ایک اندازے کے مطابق تیس ہزار سے زائد افراد زراعت کے پیشے سے وابستہ ہیں، ”باڑہ میں ہم نے آمن کے قیام کے بعد اب تک سینکڑوں ایکڑ زمین قابل کاشت بنائی ہے جس میں 70 ایکڑ تیراہ تور درہ اور 100 ایکڑ سپاہ میں حال ہی میں قابل کاشت بنائی ہے، اس میں فنانشل ایڈ مختلف غیرسرکاری تنظیمیں کرتی ہیں جن میں حجرہ آرگنائزیشن، کمیونٹی ریزیلئنس ایکٹیویٹی اور اسلامک ریلیف وغیرہ شامل ہیں جبکہ ٹیکنیکل سہولیات ہم دے رہے ہیں، سابقہ فاٹا ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق ضلع خیبر میں 30 ہزار ہیکٹرز تک زمین زیر کاشت ہے۔
شفقت خان کے مطابق تحصیل باڑہ، تیراہ میں زیادہ تر پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے فصلیں بارانی پانی اور چشموں پر انحصار کرتی ہیں جبکہ باڑہ کے میدانی علاقوں میں زیادہ تر فصلیں حکومت کی جانب سے بنائے گئے چینلز سے سیراب ہوتی ہیں جس کا سب سے بڑا سورس دریائے باڑہ ہے۔
ان کے مطابق اپر باڑہ تور درہ، ستوری خیل، تورہ ویلہ، شیر خیل اور سپاہ میں کچھ واٹر چینلز ہیں جبکہ کچھ پر کام جاری ہے جبکہ تیراہ لر باغ، بر باغ، شڈلے، تختکی، احمدی ملک دین خیل وغیرہ میں زیادہ بارانی زمینیں ہیں۔
باڑہ بازار کے سبزی فروش یار بادشاہ نے ٹی این این سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تیراہ میں مختلف قسم کی سبزیاں و دیگر فصلیں اگتی ہیں تاہم تیراہ کا آلو بہت اعلیٰ کوالٹی کا ہوتا ہے جس کا ذائقہ بہت اچھا ہے مگر اس کی پیداوار بہت کم مقدار میں ہوتی ہے جو کہ تیراہ میں اکثر ذخہ خیل پیر میلہ، جمعرات کے میلے اور لر باغ مرکز میں جمعہ کے روز لگائے گئے خصوصی بازاروں میں دستیاب ہوتا ہے اور جسے زیادہ تر مقامی کاشتکار تخم کے لئے یا گھریلو استعمال کے لئے مقامی افراد خریدتے ہیں۔
یار بادشاہ نے بتایا کہ باڑہ میں آلو، شلغم، لوبیا، پیاز اور سورج مکھی کی پیداوار ہو رہی ہے مگر کم مقدار کی وجہ سے علاقے کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں جبکہ تیراہ سے سبزی وغیرہ باڑہ تک لانے میں اخراجات بہت زیادہ آتے ہیں اس لئے ہم پشاور کی منڈیوں سے سودا لاتے ہیں جو کہ تیراہ سے نسبتاً بہت قریب ہے اور اس میں ہمیں زیادہ اقسام کی سبزیاں وغیرہ ملتی ہیں۔
یار بادشاہ کے مطابق اب مہنگائی کی وجہ سے لوگ پسند کے بجائے کم نرخوں والی اشیاء کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اسی وجہ سے ہم مارکیٹ کے مطابق اشیاء لاتے ہیں۔
تیراہ تختکی کے رہائشی علی مت خان کے مطابق سردیوں میں کئی فٹ برف پڑتی ہے اور اکثر و بیشتر ہمارے رابطے دیگر علاقوں سے کٹ جاتے ہیں اس لئے ہم اپنے آباواجداد کے سینکڑوں سال پرانے طریقے اپناتے ہوئے آلو سٹور کرتے ہیں اور وقتاً فوقتاً تھوڑا تھوڑا نکال کر استعمال کرتے ہیں، ”ہمارے ان علاقوں میں سال میں ایک فصل اگتی ہے کیونکہ پھر یہ کھیت برف سے ڈھکے ہوتے ہیں اس لئے بھی ہم آلو کی فصل کے لئے سب سے اچھے کھیت کو چنتے ہیں۔
علی مت خان کے مطابق تیراہ میں زیادہ تر لوگ منوں کے حساب سے آلو زیر زمین سٹور کرتے ہیں اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو کہ اپنی کاشت نہیں کرتے اور بازاروں میں خرید کر سٹور کرتے ہیں کیونکہ یہ کوالٹی کے لحاظ سے بہت اچھے ہیں اور خراب نہیں ہوتے، ”اس کے ساتھ ساتھ اب ہم مکئ، لوبیا، شلغم اور سورج مکھی بھی کاشت کرتے ہیں مگر دیگر اشیاء زیادہ وقت تک سٹور نہیں کر سکتے کیونکہ وہ خراب ہو جاتی ہیں، فصل میں زیادہ تر گائے کا گوبر بطور یوریا استعمال کرتے ہیں، گزشتہ سال بھی تیراہ کے مختلف علاقوں میں بہت زیادہ برف پڑنے سے تختکی اور غلام علی سمیت دیگر کئی علاقوں کے رابطے منقطع ہوئے اور سینکڑوں خاندانوں پر مشتمل عوام کو خوراک اور ادویات سمیت دیگر ضروریات زندگی کی سخت قلت کا سامنا تھا۔”
علی مت خان نے مطالبہ کیا کہ اگر حکومت کی جانب سے منڈیوں تک رسائی کے لئے سڑک سمیت دیگر سہولیات مہیا کی جائیں تو تیراہ میں بہت اچھی اقسام کی فصلیں آگ سکتی ہیں کیونکہ یہاں زیادہ تر چشموں کا پانی ہے جو کہ بہت اچھا ہوتا ہے اور موسم بھی موزوں ہے۔