گدھ یہ سیلاب بن گیا۔۔۔!
عمرانہ کومل
گدھ۔۔۔ یہ سیلاب گدھ بن گیا۔۔۔ جنوبی پنجاب کے سیلاب کے علاقوں کے ایک سِپر سے واپسی پر ایک منظر نے ہماری جیسے کہ جان ہی نکال لی ہو۔۔ اُف ایک بچی۔۔ چھ سے آٹھ ماہ کی ایک بچی سِپر کنارے یوں لیٹی تھی کہ دو سے تین کروٹیں اس معصوم بچی کو خدانخواستہ سیم سیلاب کی نذر کر سکتی تھیں۔ ہم گاڑی پر تھے اس منظر نے اچانک بریک لگانے پر مجبور کیا۔ فوٹوگرافی کرتے ہوئے۔۔ ہم نے اس بچی کی دادی کو تلاش کیا اور بچی اس کے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اماں بچی کا تو خیال کرو۔۔ تو اس نے اپنی زبان میں کہا "یہاں اُتے پانی تلے پانی۔۔ ہر جا پانی پانی۔۔ اساں کتھوں ونجوں۔” یہ کہہ کر سیلاب سے متاثرہ خاتون نے بچی گلے لگا لی۔
واپسی کا سفر تھا اور اس واقعہ نے جیسے ہم پر "گھڑوں پانی پھر گیا ہو” اب تو اس کہاوت کو یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ چُلو بھر پانی ہو تو اس میں ڈوب جائیں۔ نہیں نہیں! بلکہ یہ سیلاب کا گدھ جو ہے سب نگلنے کے لئے۔۔ یہ گدھ کا قصہ کیوں آ گیا میرے ذہن میں؟
اصل میں سماجی ادارہ روزن کے تحت سال 2010 سیلاب کے تناظر میں ملک بھر کے 25 صحافیوں کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے صحافتی رموز و اوقاف کے حوالے سے تربیت دی جا رہی تھی تو ہماری سہل کار شبانہ عارف صاحبہ نے پہلے سیشن میں 26 مارچ 1993 نیویارک ٹائم میں شائع ہونے والی ایک تصویر جس میں جنگ اور قحط زدہ جنوبی سوڈان کی بھوک سے ادھ مرگ ایک بچہ جسے زمین پر بے یار ومددگار پڑا تھا جبکہ ایک گدھ ہڑپ کرنے اور نگلنے کے انتظار میں تھا۔ وہ بچہ تو اقوام متحدہ کے امدادی کیمپ میں کھانے کے لئے جا رہا تھا جو بھوک و نقاہٹ سے گر گیا۔ اس بچے کی تصویر بنانے والے کیون کارٹر (فوٹو جرنلسٹ) کو دنیا کے اعلی ترین انعام پلٹزر پرائز سے اگلے ہی ماہ نوازا گیا جس نے ناقابل فراموش منظر کیمرے میں محفوظ کیا تھا۔ یہ تصویر انسانی ہمدردی کے فروغ اور ضمیر کو جھنجوڑنے کا سبب بنی۔
دوسری جانب نیویارک ٹائمز کو ہزاروں خطوط لکھے گئے، لوگوں نے فوٹوگرافر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اسے خود غرض اور شہرت کا بھوکا قرار دیا کہ وہ اپنی تشہیر کے لئے محض تصویر بناتا رہا اس بچے جس کو پہلے بچی بتایا جا رہا تھا، اس کا کیا بنا۔ مسلسل تنقید نے اس حساس فوٹوگرافر نے، جس نے متعدد تاریخی نوعیت کے دل دہلا دینے والے واقعات عکس بند کئے تھے، اس شاہکار تصویر بنانے کے چار ماہ بعد 33 سال کی عمر میں خودکشی کر لی۔ یہ واقعہ متعدد بار سنُا اور پڑھا لیکن جس طرح میڈم شبانہ نے اس کو لمحہ بہ لمحہ منظرکشی کرتے ہوئے کیون کارٹر (فوٹوگرافر )کے آخری پیغام کے ساتھ سنایا وہ دل میں ایسا اُترا کہ ہر دم پہلے انسانیت اور ہر لمحہ انسانیت ہی یاد رہتی ہے۔ صحافت کو خدمت کے مشن سے لے کر چلنے کے عہد پر تو پہلے ہی دن سے ہیں۔ خیر یہ خاموش تجزیات اپنے اپنے دل ہی میں کرتے ہوئے سوچ رہے تھے۔
اس بچی کے واقعہ سے قبل سیلاب سے متاثرہ ہر بچے بڑے عورت مرد کی کہی ان کہی باتیں ان کے دُکھ درمان بے بسی کی داستان اپنی ڈائری میں رقم کرتے ہوئے یہی سوچ رہی تھی کہ اس کہانی سے شروع کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کے سیلاب متاثرین کا پیغام قارئین تک پہنچاؤں گی، یہاں سے بات کا آغاز کروں کی لیکن ہمارے اس سفر کا آخری منظر ہماری پہلی بات بن گیا ہے۔ وہ سفر جسے ہماری ساتھی نیشنل پریس کلب کی نائب صدر، ویمن جرنلسٹ ایسوسی ایشن کی بانی، دی نیوز سے وابستہ سینئر صحافی مائرہ عمران صاحبہ نے ہمارے اس وزٹ کو "حقوق کا سفر” کا نام دیا تھا اور واقعی قدم بہ قدم حقوق سے محروم افراد جن کا کوئی پُرسان حال نہیں خود ہی ایک دوسرے سے دُکھ سکھ بیان کرتے ہوئے دن گزارتے اور یہ دعا کرتے ہوئے رات کا اندھیرا دن کے اُجالے میں بدلتا دیکھتے ہیں کہ بارش نہ آ جائے بجلی نہ کڑکے سیلاب اُونچا نہ ہو جائے۔
بہت سی داستانیں تھیں ہمارے حقوق کے سفر میں
ہم مظفر گڑھ میں چپ آرگنائزیشن جو واٹر ایڈ پاکستان کے تعاون سے کام کرتی ہے کے مہمان تھے جہاں تنظیم کے منیجر منظور حسین نے اپنے علاقہ میں سیلاب متاثرین، علاوہ ازیں سیم کے سیلاب اور بیٹ کا علاقہ کیا ہوتا ہے کے بارے میں بتایا کہ ان کے علاقہ میں بیٹ بستی غازی نظام میں اڑھائی سو گھرانے یعنی شہر سلطان اور جتوئی کا ایریا خاصہ متاثر ہوا ہے؛ شہر سلطان میں سیفٹی بند جسے سپر بند بھی کہتے ہیں اس سے جتنی بھی آبادی ہے وہ اس سیم سیلاب سے متاثر ہو چکی ہے۔
ہمارے ڈیٹا کے مطابق شہر سلطان میں چار سو سے زیادہ گھرانے جن کے گھر پانی میں ڈوب گئے ہیں ان کے چار سو ایکڑ کے قریب آموں کے باغات سمیت تمام فصلیں تباہ ہو چکی ہیں جبکہ کچھ لوگ نقل مکانی کر کے چلے گئے ہیں لیکن ابھی بھی سینکڑوں لوگ اونچی جگہ پر آ گئے ہیں لیکن ان کی آمد و رفت سیم سیلاب میں ٹیوب وغیرہ کے ذریعے ہے وہ پانی میں اونچی جگہ تک آ کر اپنے بچوں وغیرہ کے ساتھ واپس جانے پرمجبور ہیں؛ امداد تاحال نہیں ملی۔ ان کی آمد و رفت کا ذریعہ پائپ ہیں یا وہ پیدل جاتے ہیں جبکہ تحصیل علی پور کے سپر اور بیٹ کی یہی صورتحال ہے وہاں چونکہ دریائے سندھ کا پانی زہادہ آیا ہوا ہے وہ لوگ زیادہ متاثر ہیں۔ ڈی سی مظفر گڑھ سے سماجی تنظیموں کی ایک حالیہ میٹنگ میں حالات ان کے سامنے رکھے گئے۔ انہوں نے بتایا کہ سیم سیلاب سے متاثرہ ان افراد کی ایک جانب دریائے سندھ اور دوسری جانب چناب ہے۔ انہوں نے بتایا کہ سیم سیلاب وہ ہوتا ہے جو زمین کے بالائی حصے کے بجائے زیر زمین سے پانی آ جاتا ہے۔ اس طرح سیلاب روکنے کے لئے سپر بند جتنے بھی اُونچے بن جائیں، سیلاب اُوپر سے نہیں بلکہ نیچے سے آ کر بستیاں اُجاڑ دیتا ہے۔ ان دونوں علاقوں کے مقیم سپر کنارے رہنے پر مجبور ہیں۔
منظور صاحب کی بریفنگ نے ہمیں ان ایریاز میں جہاں ہمیں جانا تھا کی خاصی معلومات فراہم کر دیں۔ تنظیم نمائندہ جاوید حسین ہمیں متاثرہ علاقوں میں لے کر گئے جہاں ہم نے دیکھا کہ بستی غازی نظام میں سیلاب کے پانی سے گزر کر آنے والے افراد بچے عورتیں سپر کنارے آ رہے تھے۔ ایسی ہی آنے والی دو خواتین کنیز مائی اور انور مائی نے بتایا کہ انہیں اور ان جیسے سینکڑوں افراد کو کوئی پناہ گاہ نہ ملنے کی وجہ سے سیلاب ہی میں رہنا پڑتا ہے، دو اڑھائی میل کا پیدل سفر کرتے ہوئے پانی سے گزر کر آتے ہیں، کبھی گردن تک پانی میں ہوتی ہیں جبکہ پھسلنی اور دلدلی زمین میں گرنے کے خطرے کے ساتھ ساتھ سانپ و دیگر زہرلے جانوروں کے کاٹنے کے واقعات بھی ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں سر درد کی دوا نہیں ملتی، سانپ کاٹے کی ویکسین تو خواب ہے، دم کروانا پڑتا ہے کم زہر ہو تو بندہ بچ جاتا ہے لیکن زیادہ زہر جان لیوا ثابت ہوتا ہے، یہاں کوئی کشتی تک مہیا نہیں، ہم غریب لوگ ہیں، ہمارے حال پر رحم کیا جائے۔
بیٹ مراد پور کے مرید خان (سیلاب متاثرہ) نے بتایا کہ یہاں بے سروسامانی، بے بسی کا عالم ہے؛ بارش آنے پر مانگے تانگے کے شاپر اوڑھتے ہیں، غریبوں کے نہیں رہے آس امید بھی جا رہی ہے، عام حالات ہی میں یہاں بچے بچیاں تعلیم بنیادی صحت و ضروریات سے محروم ہیں، اب تو بے بس ہو گئے ہیں۔
یہاں کے سیلاب متاثرین کا کہنا ہے کہ راشن نہیں ہے جن کے مکان گر گئے ہمیں یہاں سر چھپانے سے لے کر ضروریات زندگی کی ہر چیز کی ضرورت ہے لیکن کوئی فریاد سننے والا نہیں۔
اس علاقہ میں اڑھائی سو کے قریب گھرانے متاثر ہوئے ہیں؛ زندگی مفلوج نظر آ رہی ہے۔ ٹیوب کے ذریعے سپر تک یہ لوگ بچے عورتیں بزرگ ٹیوب کے ذریعے کسی غیبی امداد کی اُمید سے آتے ہیں لیکن انہیں ڈھارس دینے والا کوئی نہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ انہیں رہائش راشن و ضروریات زندگی مہیا کی جائیں، ان کی فصلیں تباہ ہو گئیں۔ پینے استعمال کا پانی نہیں۔ بچوں کو دریا کنارے ہی رفع حاجت کرنی پڑتی ہے یہیں سے گزرتے ہیں، اپنی ہی مجبوریوں پر رونا آتا ہے، کیا مسئلہ بتائیں کیا چھپائیں!
اب ہمیں بستی دوئمہ بستی سرکی و دیگر بستیوں کی جانب بڑھ رہے تھے۔ واضح رہے کہ یہ تحصیل علی پور اور ضلع مظفر گڑھ کی آخری یوسی ہے جہاں راستہ سیم کے سیلاب کی وجہ سے بند تھا گاڑی گزرنا مشکل تھی ہماری ٹیم بھی متبادل راستہ سے پیدل اپنے سیلاب زدگان بہن بھائیوں تک پہنچی جہاں بیٹ کے رہائشی ٹیوبوں اور اپنی مدد آپ کے تحت ایک کشتی کے ذریعہ سپر تک آنے پر مجبور تھے۔ یہاں اپنی مدد آپ کے تحت بنائی جانے والی سیلاب زدگان کی تنظیم خان گڑھ دوئمہ ڈولیپمنٹ آرگنائزیشن کے محمد ایاز قادر نے بتایا کہ اس جگہ دریائے سندھ اور چناب ملتے ہیں۔ موجودہ دریا کے کٹاؤ کی زد میں آنے والے 110 گھر صفہ ہستی ہی سے مٹ گئے ہیں۔ وہاں کے لوگ سپر پر جھونپڑیاں بنا کر بیٹھے ہیں۔ ہم نے 2008 میں ملتان کی سماجی تنظیم آواز فائنڈیشن نے ہماری تنظیم انقلاب آرگنائزیشن کے نام پر بنوائی تھی جس نے ہمیں خود اپنے مسائل اُجاگر کرنے کے قابل بنایا۔ اس کے بعد میں دوآبہ اور ڈبلیو ایچ ایس کی مدد سے ہم نے یہاں کے لوگوں نے دوبارہ تنظیم بنائی اب ہم اپنے لوگوں کے ساتھ مل کر حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ہمیں پتا چل گیا ہے کہ ہم ماچس کی ڈبیا سے لے کر ہر چیز پر ٹیکس دیتے ہیں، ہمارے بھی حقوق ہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ یہاں رہنے کے لئے خیمے، راشن، عورتوں بچوں کے لئے خشک دودھ کپڑے، ادویات و ضرورت کی اشیاء کی فوری ضرورت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ یو سی 16 موضع 480 گھرانے بُری طرح متاثر ہوئے ہیں، ہم اس وقت بے بس ہیں تنظیم بنی ہے لیکن ہماری آواز متعلقہ حکام تک پہنچ نہیں رہی، حکمرانوں کی توجہ کے مستحق ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ بزرگ شخص نے بتایا کہ ان کی فصلیں تباہ مویشی مر گئے ہیں، ہماری جان مشکل سے بچی ہے لیکن بیماریوں نے بڑوں، بچوں اور عورتوں کو بے حال کر دیا ہے؛ کھانے کو روٹی نہیں، علاج کہاں سے کروائیں متعلقہ حکام مدد کریں۔
حقوق کا سفر بہت سے دُکھ آنسو صاف کرنے اور اُمید آس دلانے کا تھا؛ سیلاب زدہ علاقوں کی خواتین بھوک چھپا کر چپ تان لیتی ہیں، بات کرتی ہیں تو آنسو نکل آتے ہیں، پھوٹ پھوٹ کر روتی ہیں۔ بھوک سے بلکتے بچوں کی ماں نے یہی کہا کہ دانے نہیں ہیں پھر اس کے آنسو سسکیاں فریاد کرنے لگے
سیم کے سیلاب کے بیچوں بیچ راشن پینے اور استعمال کا پانی نہ ہونے، رفع حاجت، تولیدی مسائل دبے لفظوں بتانے والی لڑکیاں کسی معجزے کا اتتظار کر رہی ہیں؛ بچوں کو بھوکا دیکھ کر اپنے جذبات کو الفاظ نہ دے سکنے والی عورت نے کہا دانے نہیں اور پھوٹ کر رونے لگی جبکہ سیلاب زدہ لڑکیوں نے ایمان ظاہر کیا کہ ان کا اللہ وارث ہے۔ ایسے میں معصوم لڑکی مریم کو ڈر ہے کہ سیلاب ان بچوں کو ڈبو دے گا۔
بیٹ کے علاقے میں رہنے پر مجبور کچھ خواتین کے کسی بھی وقت لہروں کی نذر ہونے کا ڈر ہے جبکہ کچھ لوگوں نے سپر پر پناہ لے رکھی ہے لیکن ابھی تک کسی کو خیمے نہیں ملے چھوٹے چھوٹے بچے کہاں لے کر جائیں؟ فیضاں بی بی کو یہ خوف کھائے جا رہا ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت امداد کرے، سر چھپانے کی جگہ راشن فراہم کیا جائے، امداد نہیں ملی یہ بچیاں اورخواتین سیلاب اترنے اور کسی معجزے کا انتظار کر رہی ہیں کہ اپنے گھروں کو جائیں زمینیں پھر سے غلہ اگائیں اور یہ دانے پکا کر اپنے بچوں کو کھلائیں۔
سیلاب سے متاثرہ بابا غلام رسول بتاتے ہیں کہ ہمارا اللہ کے سوا کوئی آسرا نہیں چھوٹے چھوٹے بچے لے کر سپر کنارے بیٹھے ہیں غریب لوگ کہاں جائیں، گھر گر گئے ہیں، جانور مر گئے ہیں۔ بابا کا کہنا ہے کہ پاکستان بننے سے اب تک جتنے بھی سیلاب دیکھے ہیں متاثرین کے نام پر امداد وڈیروں کو ہی کھاتے دیکھا ہے، ہمارا کوئی والی وارث نہیں سوائے اللہ کے، جوان بیٹیاں بہوئیں بچے لے کر بیٹھے ہیں کسی بھی وقت کوئی بڑا حادثہ ہو سکتا ہے، ہمیں سر چھپانے کی جگہ فراہم کی جائے۔
حقوق کا سفر اپنے اختتام کی جانب بڑھ رہا تھا کہ جس نلکے سے پانی پیتے ہیں اس میں سیلاب کا آلودہ پانی آتا ہے؛ چھوٹے چھوٹے بچے الرجی، عورتیں معدے و دیگر امراض و بیماریوں کا شکار ہو رہی ہیں۔ سیلاب کے پانی کی غلاظت نے بیماریوں میں مبتلا کر دیا۔
ہماری ٹیم کو دیکھ کر چند خواتین سیم سیلاب کے درمیان کی جھگیوں سے باہر آ گئیں ہیں اور بیماریوں خاص طور پر زچگی و تولیدی مسائل بتاتے ہوئے حکمرانوں سے مطالبہ کرنے لگی ہیں کہ ان پر اور ان کے بچوں پر رحم کیا جائے؛ کڑکتی بجلی سر چڑھتا پانی ڈرا رہا ہے، سر چھپانے کی کوئی پکی جگہ نہیں، ہمیں کسی نے کیمپ نہیں دیا نہ ہی سرکاری پناہ گاہ ملی ہے۔
متاثرہ خاتون بتا رہی ہیں کہ ان کا مکان طوفانی بارش میں گر گیا۔ مشکل سے بچوں کی جان بچی بچوں کو نکال کر سپر کے کنارے لے آئے ہیں۔
ان کا مؤقف تھا کہ جب ہنگامی حالت میں 15 پر کال کی تو پولیس والے آ کر لڑنے لگے کہ یہاں کوئی قتل تو نہیں ہوا ایسے ہی آئندہ ہمیں نہ بلانا، یہ ہمارا کام نہیں۔
متاثرہ خاتون بتاتی ہیں کہ آنے والے پولیس اہلکاروں نے انہیں سیلاب سے متعلق معاملات والوں کی ہیلپ لائین نمبر دیا لیکن انہوں نے کال نہیں کی، وہ دلبرداشتہ تھیں۔
متاثرہ خواتین کا کہنا ہے کہ وہ پہلے محنت مزدوری کر کے بچوں کا پیٹ پالتی تھیں کیوںکہ ان کے خاوند اور گھر کے متعدد مرد مختلف دائمی بیماریوں کا شکار ہیں جبکہ یہاں پولیو کے قطرے و نومولود بچوں کو قطرے پلانے ہیلتھ ورکرز آتی ہیں تاہم ہماری جو خواتین حاملہ ہیں ان کو ایمرجنسی ہو سکتی ہے جبکہ ماہواری کے ایام بہت مشکل ہو رہے ہیں، سیلاب نے چھت سے بے چھت گھر سے بے گھر کر دیا پردے کی باتیں نہیں بتا سکتے؛ جواں سال بیٹیاں سیلاب کے بیچوں بیچ بیٹ کے علاقے میں رکھنے پر مجبور ہیں جہاں چاروں طرف پانی، آلودگی اور گندگی ہے، پہلے ہی گھر کے افراد گردوں، ہیپاٹائٹس معدہ کے امراض کا شکار ہیں اب مزید بیماریاں بڑھ رہی ہیں، بھوک نے بے حال کر دیا ہے، بچوں کے ساتھ ساتھ رونے لگتے ہیں، اب نوبت فاقوں پر آگئی ہے جو پہلے مدد کرتے تھے اب وہ بھی نہیں کرتے۔
سیلاب متاثرہ خواتین اپنے دکھ بتا رہی تھیں اور ان کے معصوم بچوں جو پاؤں کے جوتوں سے محروم تھے وہ ہمارے جوتوں کو چھو کر اس کے ڈیزائن کو شائد ہاتھوں سے پرکھ رہے تھے۔ اس چونکا دینے والے منظر کو ہماری ساتھی مائرہ عمران صاحبہ نے محسوس کرتے ہوئے یہاں بچوں کی جانب اشارہ کیا اور ان سے ان کے نام پوچھے جنہیں صرف اپنی ماؤں کی جانب دیکھ کر شرمانا ہی آتا تھا۔ یہ بچے اسکول کی نعمت سے محروم ہیں۔ اس وقت اپنے والدین سے کوئی فرمائش بھی نہیں کرتے کیونکہ انہیں ڈر ہے کہ ان کے والدین کہیں دور نہ چلے جائیں اور سیلاب انہیں (خدانخواستہ) نقصان نہ پہنچا دے۔ سیلاب متاثرہ خواتین نے بتایا کہ 50 سے 60 افراد 6 سے 7 جھگیوں میں سر چھپائے ہوئے ہیں کسی بھی وقت ہنگامی صورتحال ہو سکتی ہے، کوئی پرسان حال نہیں۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے مدد کی اپیل کی۔
سیم سیلاب سے متاثرہ یہ خواتین اپنے مسائل بتا کر اپنی اپنی جھگیوں میں چلی گئیں یہ آس لئے کہ ہم ان کے مسائل اجاگر کریں گے تو ان کی مدد کو کوئی آئے گا۔
حقوق کا سفر تھا اور واپسی تھی کہ ہمیں یہ سپر کنارے بچی نظر آئی جس کی والدہ کو پکارتے ہوئے اس کی دادی تک رسائی کی اور کہا کہ اپنے بچوں کا خیال کرو تو اس نے ہر جا پانی پانی ہے اساں کتے ونجوں کہ دیا اور اک حوصلے کے ساتھ ہنس دی۔ ویسے تو ہم نے ایک ماں کو اس کے فرائض باور کروائے تھے لیکن وطن عزیر پاکستان کی ریاست بھی تو ہماری ماں ہے؛ ہماری سیلاب زدہ ماں تو بے بس ہے لیکن ریاست تو بے بس نہیں۔ ریاست یہ نہیں کہہ سکتی کہ ہم اپنے شہریوں کو لے کر کہاں چلے جائیں، یہاں پانی ہی پانی ہے بلکہ ریاست تو دریا کنارے ایک جانور کی بھوک کی بھی جواب دہ ہے، یہاں تو دریاؤں کنارے بے بس انسان بیٹھے اپنی ماں اپنی ریاست کی توجہ کے منتظر ہیں۔
جہاں حالیہ سیلاب کے حوالے سے بتایا جا رہا ہے کہ پاکستان بھر میں 1500 سے افراد جاں بحق ہوئے، تین اعشاریہ چھ ملین متاثر ہوئے وہاں ہماری یہ ننھی سی بچی اپنیی ماں اپنی ریاست کا ضمیر جنجھورنے کے لئے ایک خاموش آواز ہے جو سپر دریاکنارے ایک کروٹ میں موت دوسری میں زندگی جانے دن میں کتنی بار دیکھتی ہو گی اور اسے معلوم بھی نہ ہو گا۔
ویسے بات شروع ہوئی تھی جنوبی سوڈان کے ایک بچے کی تصویر سے جو نیویارک ٹائمز میں شائع ہوئی؛ کیون کارٹنر فوٹو گرافر کو اپنی موت کا فیصلہ خود کرنا پڑا تاہم اس بچے جس کی تصویر کے بارے میں 2011 میں یورپی اخبار میں اس بچے کے والد کا بیان سامنے آیا کہ 1993 میں وہ بچہ اقوام متحدہ کے غذائی مرکز تک جانے میں کامیاب ہوا لیکن 2007 میں شدید بخار کی وجہ سے چل بسا۔ یہ کہانی تو مکمل ہوئی لیکن ہمارے سیلاب متاثرین جو غلہ اگاتے ہیں ان کا نہ صرف وطن عزیر بلکہ دنیا بھر کے لئے اجناس پھل غلہ اگاتے ہیں آج بھوک کا شکار ہیں۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا حالیہ دورہ اس حوالے سے پُرامید ہے کہ وہ دنیا بھر میں پاکستان کے سیلاب متاثرین کی آواز بن گئے ہیں جنہوں نے وزیر اعظم میاں شہباز شریف پاکستان کے ساتھ سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ انہیں بھی کسی دریا کسی سِپر کنارے کوئی بچی ایسی نظر آئی ہو گی تبھی تو انہوں نے پاکستان میں سیلاب متاثرین کی حالت زار دیکھ کر افسردگی کا اظہار کیا۔
حقوق کے سفر میں سیلاب زدگان کے حوالے سے انتظامیہ کی جانب سے اقدامات اور موقف بھی جاننا تھا لہذا ہم اب ڈی سی مظفر گڑھ علی عنان قمر کے آفس میں تھے جہاں انہوں نے بتایا کہ جو لوگ جن کے گھروں میں پانی آ جاتا ہے ہم نے ان کے لئے فلڈ ریلیف کیمپ بنائے ہوتے ہیں؛ کچھ لوگ آتے ہین کچھ نہیں آتے۔ اگر ان علاقوں میں ایسے لوگ ہیں تو میں اپنی ٹیم بھیج دیتا ہوں، وہ شیلٹر میں چلے جائیں، لائیوسٹاک کے رہنے کا بھی بندوبست تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ہمارے علاقوں میں سندھ کی جانب سے آنے والے سیلاب میں پتھر بھی آتے ہیں، نقصان زیادہ ہوتا ہے، ابھی اور بارشوں کی وارننگ ہیں۔ ڈی سی مظفر گرھ نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ڈسٹرکٹ مظفر گڑھ میں 33 ریلیف کیمپ مقرر ہیں تاہم کسی کیمپ میں بھی کوئی سیلاب متاثرین ابھی تک نہیں آئے۔
ایک بار پھر وہ بچی ہمارے ذہن میں آئی جس کی ماں بے پرواہ ہو کر کہہ رہی تھی کہ یہاں تو ہر جگہ پانی ہی پانی ہے ہم کہاں جائیں، جائیں کہاں؟