لائف سٹائلکالم

آج مزدور اس قابل ہے کہ پانچ چھ بندوں کا کنبہ پال سکے؟

محمد سہیل مونس

دال مسور 380 روپے، دال ماش 400 روپے اور غریبوں کی سب سے مرغوب غذا لوبیہ جب 320 روپے کلو تک جا پہنچے تو غریب کے پاس محض سبزیاں ہی رہ جاتی ہیں جن میں سے 80 روپے کلو سے کم میں کوئی چیز دستیاب ہی نہیں۔ اس وقت پیاز 100 روپے کلو کے اردگرد گھوم گھوم رہے ہیں، اسی طرح ٹماٹر کے نرخ آسمان سے باتیں کر رہے ہیں اور تو اور سبز مرچ جو سودا سلف کے ساتھ ”چونگے” میں ملا کرتی تھی وہ بھی 20، 20 روپے کی پونڑیوں میں بیچی جا رہی ہے۔ وہ میری پشتو کی ایک مزاحیہ غزل کے چند اشعار اس موقع پہ اچانک یاد آ گئے ہیں کہ:

ھر زئے مورچہ ھر زئے پیکٹ خکاری

جوند می میلمہ د یو منٹ خکاری

بس د غربت اندازہ دے نہ کوہ

پہ ھر دوکان ساشے، پیکٹ خکاری

خزے بہ نور سومرہ حقوق غواڑی

د ھر خاوند پہ سر ہلمٹ خکاری

دومرہ گرانئی بے حالہ کڑے یمہ

نان د تنور راتہ بسکٹ خکاری

زانگم د فکر پہ ٹال تل مونسہ

تشہ تیارہ، ڈیوہ، ڈیوٹ خکاری

اس کا مطلب سمجھنے کے لئے اپنے کسی پشتون بھائی سے ضرور کہیں کیونکہ اگر ہم انگریزی سیکھنے اور بولنے کی جدوجہد کرتے نہیں تھکتے تو اپنی علاقائی زبانیں سیکھنے و سمجھنے میں بھی عار محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

خیر میں تو درجہ بالا اشیاء میں سے دودھ جو کھلا اب تقریباً 130 روپے سے 150 روپے فی کلو، آٹا 20 کلو خیبرپختونخوا میں تقریباً 2300 روپے اور گھی جو ناقص ترین قسم کا دستیاب ہے وہ بھی فی کلو 450 روپے سے کم نہیں۔ اس تفصیل کا مقصد یہ ہے کہ ہم ذرا خود بھی جائزہ لیں اور حکومت کو بھی یہ بتانے کی ایک بار پھر کوشش کریں کہ جنتا زندہ کیسی ہے؟

یہ بات اپنی جگہ کہ سیلاب نے رہی سہی کسر بھی نکال دی ہے لیکن ہم نے منصوبہ بندی نام کی کوئی چیز اپنی زندگی میں دیکھی ہو تو بات بنے۔ ہم نے 75 برس میں ترقی کیا کرنی تھی اچھے خاصے ملک کو تباہی کے دہانے پہ لا کھڑا کر دیا۔ ہم اگر موازنہ کرنے بیٹھیں تو دوسری اقوام کے ساتھ پَر کیپٹا انکم والی کوئی صورت باقی رہی ہی نہیں تو موازنہ کس بات کا، جو لوگ قرض لے لے کر اسے ری شیڈول کرنے کو کامیابی سمجھے تو اس قوم کا کچھ بھی نہیں بنتا ماسوائے قبرستان کے یا میدان جنگ کے اور اس کے آثار دکھائی بھی دے رہے ہیں۔

اس بات کی سمجھ نہیں آ رہی کہ ایک پاکستانی مزدور جو کسی گھر یا بلڈنگ کی تعمیر میں دن بھر اینٹیں اٹھا کر دن کے زیادہ سے زیادہ ہزار روپے کماتا ہے اس کا روزانہ کا بجٹ اس قابل ہے کہ وہ پانچ چھ بندوں کا کنبہ پال سکے؟ میرے خیال میں نہیں کیونکہ اگر صبح کے ناشتے میں وہ ایک سوکھی روٹی اور ایک کپ چائے بھی لیتے ہیں تو پانچ روٹیاں سو روپے کی، چائے، چینی اور دودھ کا کم از کم خرچ بمع گیس کے اخراجات کے سو روپے پڑتا ہے جس کا سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ دو سو روپے کا ناشتہ روز کا پڑتا ہے۔ اب اگر دوپہر کے کھانے کا تخمینہ لگا لیں تو گھی، مصالحہ جات، ٹماٹر اور پیاز کے علاوہ ہم صرف سبزی پر ہی اکتفا کر لیں تو کم از کم ڈیڑھ سو روپے کی ہانڈی بنتی ہے جس کے ساتھ ڈیڑھ روٹی بھی ایک بندہ زہر مار کر لے تو پانچ بندوں کی روٹی صرف ڈیڑھ سو روپے کی آتی ہے یعنی دوپہر کے کھانے پر کل خرچہ تین سو روپے بنتا ہے۔ اب اگر شام کی چائے نصیب ہو تو کم از کم سو روپے کی تو پڑتی ہی پڑتی ہے جبکہ رات کے کھانے کا خرچ بھی دوپہر کے خرچ کے لگ بھگ ہو تو سارے دن کے صرف کھانے کا خرچ 800 روپے بنتا ہے۔

اب ان حالات میں جب گیس اور بجلی کے بل کے علاوہ گھر کا کرایہ بھی سر پر آ جائے تو بندہ کیا کرے گا ماسوائے قرضہ لینے اور کوئی غلط راہ اختیار کرنے کے کیونکہ بندہ مرے یا جئے اخراجات کا میٹر مسلسل چلتا رہتا ہے۔

اس دوران خاندان میں اگر خدانخواستہ کوئی بیمار پڑ جائے یا دوسری کوئی ایمرجنسی پیش آجائے تو اس کے لئے بھی در در پھرنا پڑتا ہے جبکہ اس دور میں ہر بندہ انپے اپنے پسینے میں نتھنوں ڈوبا ہوتا ہے تو کسی سے قرض کی توقع رکھنا یا پھر خیر کی امید یہ سب عبث باتیں ہیں۔

ان حالات میں ہم اگر ریاست کی جانب دیکھیں تو ہمیں بس اک سراب سا نظر آتا ہے جس کا کام ہمارے ٹیکسز پہ پلنا، آفات کے دنوں میں ملنے والی امداد پہ گلچھڑے اڑانا اور اپنی دنیا میں مست رہنا ہے۔

حکومتیں آتی ہیں چلی جاتی ہیں کوئی ایسا زیرک سیاستدان یا راہنماء میسر نہیں جو پاکستان کو ترقی کی راہ پر ڈال سکے یا اتنا تو کر سکے کہ عوام کو کھانے پینے، ذرائع آمدرفت کی سہولتیں، رہائشی منصوبے اور روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں ذرا سا دماغ استعمال کر کے عوام کو انگنت مسائل سے نکال سکے۔

ہم تو اتنے بدقسمت ہیں کہ 35 برس کی آمرانہ حکومتوں میں بھی ہمیں ایسا آمر میسر نہیں آیا جو عوام کی فلاح و بہبود کا کام کر سکے، اگر ہم نے مزید بھی 75 برس اسی کسمپرسی میں گزارنے ہیں تو ایسی زندگی کا حاصل وصول کیا ہے ہم تو غلاموں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے پہ مجبور ہیں۔

ہم نے اگر اپنی حالت خود نہیں بدلی تو دوسرے سیارے سے اڑن طشتریوں میں کوئی غیبی مخلوق نہیں آئے گی کہ جو ہمارے دیرینہ مسائل کا حل نکال سکے۔

یہ وقت ایسا وقت ہے جس میں ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا پڑے گا اور اقتدار سے چمٹے طفیلیوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرنا ہو گی۔

monis
محمد مونس سہیل بنیادی طور پر ایک شاعر و ادیب ہیں، ڈرامہ و افسانہ نگاری کے علاوہ گزشتہ پچیس سال سے مختلف اخبارات میں سیاسی و سماجی مسائل پر کالم بھی لکھتے ہیں۔
Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button