تعلیم

یونیورسٹیز میں طالبات کو ہراساں کرنے والے لوگوں کو الٹا لٹکانا چاہیئے، جسٹس روح الامین

 

عثمان دانش 

پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس روح الامین نے اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جو لوگ طلباء کو ہراساں کررہے ہیں, ایسے لوگوں کو مسجد میں بھی بٹھا دیں تو یہ نہیں سدھریں گے۔

انہوں نے کہا ہے کہ یونیورسٹیز میں طالبات کو ہراساں کرنے والے لوگوں کو الٹا لٹکانا چاہیئے, وی سی صاحب گورنر اور سنڈیکیٹ جو فیصلے کررہے ہیں اس سے لگتا ہے آپ ایسے لوگوں کو سپیس دے رہے ہیں کہ طلباء کو ہراساں کریں۔

خیبرپختونخوا کے تاریخی کالج اسلامیہ کالج یونیورسٹی پشاور میں طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف دائر درخواستوں پر سماعت شروع ہوئی تو یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر گل ماجد خان اور درخواست گزار وکیل محمد عیسی خان ایڈوکیٹ عدالت کے روبرو پیش ہوئے, جسٹس روح الامین نے ریمارکس دیئے کہ وی سی صاحب یونیورسٹیز سے جو شکایات آرہی ہے ہم اس کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گے طلباء کو ہراساں کرنے والے لوگوں کو الٹا لٹکانا چاہیئے,کالجز, یونیورسٹیز میں موجود ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا ہوگا جسٹس روح الامین نے کہا کہ گورنر اور یونیورسٹی سنڈیکیٹ جو فیصلے کررہے ہیں اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ آپ ایسےلوگوں کو سپیس دے رہے ہیں کہ طالبات کو ہراساں کریں, ایسے لوگ ہمارے معاشرے کے لئے کالی بھیڑے ہیں ان کے ساتھ کوئی نرمی نہیں یونی چاہیئے, ایسے لوگوں کو اگر مسجد میں بھی بٹھا دیں تو یہ نہیں سدھریں گے۔

وائس چانسلر اسلامیہ کالج یونیورسٹی نے عدالت کو بتایا کہ جب سے چارج لیا ہے اس وقت سے اب تک یونیورسٹی میں ایسا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا, ہم نے آگاہی سیشن شروع کئے ہیں۔ اس جسٹس روح الامین نے کہا کہ اس عمر میں آگاہی کی ضرورت نہیں ہے, آپ کہتے ہیں کہ جب سے آیا ہوں اس وقت سے کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا لیکن جو پہلے رپورٹ ہوا ہے اس کے لئے کیا کیا ہے ایسا لگ رہا ہے اس کو بچانے کی کوشش ہورہی ہے, وی سی صاحب یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ طالبات کی زندگی یونیورسٹی میں محفوظ بنائے آپ ہمیں یہ رپورٹ دیں کہ آپ نے اب تک ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں۔

درخواست گزار وکیل عیسی خان ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی محتسب نے الزامات ثابت ہونے پر چیئرمین کو فارغ کرنے کا حکم دیا چیئرمین پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ پروفیسر امیراللہ نے صوبائی محتسب فیصلے کے خلاف گورنر کو اپیل کی, گورنر نے ان کو دوبارہ بحال کیا, الزامات ثابت ہونے کے باوجود اس کو دوبارہ چیئرمین ڈیپارٹمنٹ بنایا گیا حالانکہ ان کا ٹینور ختم ہوچکا تھا لیکن ایکسٹیشن دی گئی۔

اس پر جسٹس شکیل احمد نے ریمارکس دیئے کہ یہ طاقتور لوگ ہوتے ہیں انکوائری آفیسر ہو یا جو بھی یہ ان کو کنٹرول کرتے ہیں, ایسے کیسز میں تو شواہد کی بھی ضرورت نہیں ہوتی۔

پروفیسر امیر اللہ کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ نیشنل اور انٹرنینشل میڈیا ہمیں کال کرکے پوچھتے ہیں یہ کیا کیس ہے, یہ ایک سیاسی کیس ہے چیئرمین پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کو خراب کرنے کے لئے یہ کیس بنایا گیا اس میں ہم اپنا جواب جمع کریں گے۔
اس پر جسٹس روح الامین نے کہا کہ اگر الزامات غلط ہے تو پھر آج تک چیئرمین ڈیپارٹمنٹ نے اس کے خلاف کوئی درخواست کیوں دائر نہیں کی کہ یہ غلط کیس ہے۔
جسٹس روح الامین نے کہا کہ اس کو سزا ہوئی یہ اب بھی یونیورسٹی میں ملازمت کررہے ہیں, یہ داغ اب زندگی بھر رہے گا, اسلئے لوگ آپ سے پوچھ رہے ہیں۔

جسٹس روح الامین کا کہنا تھا کہ معاشرتی طور پر ہمارے صوبے کو لوگ بڑی قدر سے دیکھتے ہیں اور ہمیں اس پر فخر ہے, یہاں پر ایسے کیسز نہیں تھے, یونیورسٹی میں کوئی ایسے کام کرے,اور ٹیچرز کی کمیٹی یہ فیصلہ کرے کہ ایک کا جانا سب کے جانے کے مترادف ہوگا تو پھر یہ افسوسناک ہے, ہم چاہتے ہیں ایسے لوگ سارے بھی جائے تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
یہاں پر ایک طالبہ کا کیس آیاتھا اس کے تمام پیپرز میں ٹاپ مارکس تھے ایک پیپر میں فیل کیا تھا ری چیکنگ ہوئی تو اس نے پھر ٹاپ کیا اور گولڈ حاصل کیا, اس کیس کو ہم نے لاٹ لیا لیکن اب ایسے کیسز آرہے ہیں۔ وی سی صاحب آپ ہمیں رپورٹ دیں کہ اب تک ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے کیا اقدامات کئے گئے ہیں,رجسٹرار یونیورسٹی تفیصلی رپورٹ پیش کریں۔

اب یونیورسٹی کی حالت کیا ہے

یونیورسٹی کی اب حالت کیا ہے اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہم نے یونیورسٹی میں ہراسمنٹ واقعے کے خلاف واک کو لیڈ کرنے والے جابر خان ایڈوکیٹ سے بات کی, جابر خان نے اسلامیہ کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ہے اور اس وقت پشاور ہائیکورٹ میں پریکٹس کررہے ہیں۔
جابر خان ایڈوکیٹ نے بتایا کہ جب یہ واقعہ پیش آیا تو اس وقت ہم نے طالبات کے ساتھ مل کر ہراسانی واقعات میں اضافے کے خلاف واک کیا, اس وقت میڈیا میں اس کو بہت زیادہ کوریج ملی لیکن اس کے باوجود یونیورسٹی اور اساتذہ اس پروفیسر کو سپورٹ کررہے ہیں جن پر الزام ہے, انتظامیہ اس کو بچانے میں لگی ہے۔ جابر خان نے بتایا کہ جن طلبہ و طالبات نے اس واک میں حصہ لیا تھا اس کو اب مختلف طریقوں سے تنگ کیا جارہا ہے۔جابر خان نے بتایا کہ وہ خود وہاں سٹوڈنٹ تھے میرے ساتھ خود بھی ایسا ہوا, کچھ سٹوڈنٹس کے ڈگری میں مسائل پیدا کئے گئے,اب ہم طلبہ سے رابطے کررہے ہیں کہ ہراسانی واقعات کے خلاف یونیورسٹیز کالج میں آگاہی مہم شروع کرے تاکہ طلبہ و طالبات کے ساتھ ایسے واقعات رونما نہ ہوں۔۔
ہم نے یونیورسٹی کے طالبات سے بات کرنے کی کوشش کی لیکن کوئی طالبہ بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئی طالبات کا کہنا ہے کہ اگر ان کا نام آگیا تو پھر یونیورسٹی انتظامیہ ان کے لئے مسائل کھڑے کریں گی۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button