سُنبل ذوالفقار علی
میں ایک چھوٹے سے قصبے میں رہنے والی عام سی لڑکی۔۔۔ دل میں پڑھنے کی چاہت تھی، کچھ بننے کی، آگے بڑھنے کی لگن تھی، لیکن ان خیالات کا اظہار جب لوگوں سے کرتی تو مجھے ٹوکا جاتا، مجھے روکا جاتا یہ کہہ کر کہ آخر پڑھ لکھ کر کرنا کیا ہے تم نے، گھر بچے ہی تو سنھبالنے ہیں، لڑکیوں کی یہی زندگی ہوتی ہے بس خاموش رہو اور سہو! آج بھی وہ تلخ باتیں مجھے یاد ہیں وہ چھپ چھپ کے رونا، وہ لوگوں سے لڑنا، پھر رفتہ رفتہ میں نے تسلیم کر لیا ان باتوں پر رونا کیسا!
پھر اِک دن میں نے ٹھان لی؛ پڑھنا ہے، بڑھنا ہے کچھ کر کے دِکھانا ہے، نام کمانا ہے اور اپنے جیسی عام سی لڑکیوں کے لئے مشعل راہ بننا ہے۔
مجھے سائنس پڑھنے کا بہت شوق تھا لیکن میرے تعلیمی سفر کے دوران لوگوں کی باتوں سے دل برداشتہ ہو کر میں نے میٹرک میں آرٹس گروپ کو منتخب کیا۔ بقول لوگوں کے لڑکی ہو اتنی مشکل تعلیم حاصل کر کے کیا کرو گی۔ دباؤ میں آ کر میٹرک آرٹس میں کر لیا پھر اپنے کچھ کرنے کے جنون کو پورا کرنے کیلئے پختہ عزم کر لیا کہ میں نے کچھ کر کے دکھانا ہے اور لوگوں کی باتوں کو ذہن پر سوار نہیں کرنا لہذا میں نے اپنی مرضی سے دوبارہ انٹر سائنس (ایف ایس سی) حساب کے مضمون کا انتخاب کیا۔ مجھے میری اساتذہ کرام بہت اچھی ملیں جنہوں نے ہمیں بہت محنت و لگن سے پڑھایا اور جہاں مجھے ضرورت پڑی انہوں نے میری باقاعدہ خاص رہنمائی کی۔
کبھی کبھار میں اضافی کلاس میں بھی پڑھنے جایا کر تی تو انہوں نے میری محنت و لگن دیکھ کر مجھے کبھی نہیں ٹوکا اس طرح بہت محنت و مشقت سے بی کام کر لیا اور اُس کے بعد میں نے ایم کام میں داخلہ لے لیا اور دو سال میں ڈگری بھی حاصل کر لی۔
بی کام، ایم کام سے مجھے بہت فائدہ ہوا۔ نئے نئے خیالات آئے پھر میں نے دنیا کو ہر زاویے سے دیکھنا شروع کیا۔ تب میں کسی بھی بزنس کا بنیادی ڈھانچہ بنانے کا ہنر سمجھ گئی۔ اپنے والدین کا بھروسہ و اعتماد پا کر اُن کو بتایا کہ میں ایک ایسا ادارہ کھولنا چاہتی ہوں جس میں بچوں کو علم کی روشنی سے آراستہ کیا جائے اور اُن کو معاشر ے کا کارآمد شہری بنایا جائے، جہاں غریب اور لاچار لوگوں کے بچے بھی تعلیم سے مستفید ہو سکیں۔
11 مئی 2020 کو میں نے ایک سکول کی بنیاد رکھی۔ اس میں بہت سے طلبہ تعلیم حاصل کرنے لگے اور آج میں اُن لوگوں کے بچوں کو بھی پڑھاتی ہوں جنہوں نے ہمیشہ میری نفی کی اور ہمیشہ میرا حوصلہ پست کیا۔
الحمدللہ دو سال سے میں ایک کامیاب ادارہ چلا رہی ہوں اور اپنے قصبے کی بہت سی بچیوں کے روشن مستقبل کی راہ بن گئی ہوں۔
میرے سکول میں طلباء فی سبیل للہ پڑھتے ہیں۔ اور میں رضاکارانہ طور پر کام کر رہی ہوں۔ اس میں میرے والد کا بہت بڑا کردار ہے۔ میرے والد نے میری بہت ہمت بندھائی۔
تعلیم کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی ماں جی سے سلائی کا ہنر بھی سیکھا تھا اور یہی ہنر میرا شوق بن گیا پھر اس طرح سے میں نے سول پروپرائیٹر بزنس کا آ غاز کیا۔ خود بھی کپڑے اور بیڈ شیٹ سینے لگی اور دوسروں کو بھی فنی ہنر دینے لگی، اس طرح سے وسیع پیمانے پر ہنرمندوں کی ایک ٹیم تیار ہوئی اور وہ خواتین جو تعلیم کی روشنی سے قاصر ہیں انہوں نے اس ہنر سے استفادہ حاصل کیا۔ اور برسرِ روزگار ہو گئیں۔ اب وہی خواتین میرے ساتھ کام کے ساتھ ساتھ ذاتی طور پر بھی سلے ہوئے کپڑے اور بیڈ شیٹ بازار میں بیچ کر منافع کمانے لگی ہیں۔
ربّ ذوالجلال کے کرم سے آج میں اپنے پاؤں پر کھڑی ہوں اور دوسروں کا بھی مضبوط سہارا بنی ہوئی ہوں؛ اپنی انتھک محنت اور والدین کی حوصلہ افزائی کی بدولت میں آج ایک کامیاب بزنس چلا رہی ہوں اور میں شکریہ ادا کرتی ہوں اُن لوگوں کا بھی جنہوں نے مجھے ٹوکا، مجھے روکا اور مجھے تلخ باتیں سنائیں کیونکہ انہی کی باتوں کو غلط ثابت کرنے اور آگے بڑھنے کے عزم نے مجھے کچھ بن کے دکھانے کا موقع دیا۔
کچھ دن پہلے میری ایک سہیلی نے مجھے ٹی این این سے متعارف کروایا۔ ان کے بارے مزید جاننے کیلئے میں نے نیٹ سے تفصیلات حاصل کیں۔
ٹی این این ایک ایسا نیٹ ورک ہے جہاں ہر قسم کے کھیلوں، تعلیم، گھریلو، سیاسی، معاشی سرگرمیوں کا احاطہ کیا جاتا ہے، انہیں کوریج دی جاتی ہے۔ یہ نیٹ ورک ملک کے ہر شہری کی آواز دنیا کے گوشے گو شے تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج میں بھی ٹی این این کے ساتھ منسلک ہو گئی ہوں۔