حمیرا علیم
ہر سال 29 ستمبر کو دل کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس میں دل کی بیماری کے اور اس سے بچاؤ کےبارے میں آگاہی بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ہارٹ ڈے دل کی بیماری اور فالج سے بچاؤ کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے ایک بین الاقوامی مہم کا حصہ ہے۔ تمباکو نوشی چھوڑنے، ورزش کرنے اور صحت مند کھانا شروع کرنے کے لیے یہ بہترین دن ہے۔
دل کی بیماری دنیا میں موت کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق ہر سال تقریباً 18 ملین افراد دل کے مسائل سے مر جاتے ہیں، ان میں سے ٪85 اموات ہارٹ اٹیک اور فالج کی وجہ سے ہوتی ہیں جو کہ کینسر، ایچ ایم وی اور ایڈز اور ملیریا کے متاثرین سے زیادہ ہے۔
دل کے دورے اور فالج دماغ یا دل میں خون کو بہنے سے روکنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ رکاوٹ کی سب سے عام اقسام میں سے ایک خون کی نالیوں میں چربی کا جمع ہونا ہے جس کی وجہ دل کا دورہ یا فالج، تمباکو کا استعمال، غیرصحت بخش خوراک، موٹاپا، جسمانی غیرفعالیت، ہائی بلڈ پریشر اور ہائی شوگر اور الکحل کا استعمال ہو سکتی ہے۔ اس لیے ہارٹ ڈے پر، اس میں شامل ہوں، اپنے پھل اور سبزیاں کھائیں اور باہر نکلیں۔
پاکستانی ڈاکٹرز، انجینئرز، طلباء اور دوسرے شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کسی سے کم نہیں ہیں اور دن رات اس جدوجہد میں مصروف ہیں کہ وہ پاکستانی عوام کی خدمت کر سکیں اور اپنے ملک کا نام روشن کر سکیں۔ ایسا ہی کارنامہ کوئٹہ کے سینڈیمن پرونشل ہاسپٹل کے ڈاکٹرز کی ٹیم نے اوپن ہارٹ سرجری کے دو کامیاب آپریشن کر کے سرانجام دیا ہے۔ یہ نہ صرف ان ڈاکٹرز کے لیے ایک سنگ میل ہے جو بغیر کسی سہولت اور پیرا میڈیکل اسٹاف اور آلات کی کمی کے باوجود کام کر رہے ہیں بلکہ صوبہ بلوچستان میں موجود دل کے سینکڑوں مریضوں کے لیے بھی ایک ریلیف ہے۔
ہاسپٹلز کی انتظامیہ اور محکمہ صحت کے مطابق ان کے پاس کوئی ایسا ڈیٹا بیس نہیں ہے جو کہ مریضوں کا ریکارڈ رکھ سکے تاہم ہر سال بلوچستان میں ہزاروں لوگ دل کے مرض کا شکار ہو کر زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ 2019 کے ڈبلیو ایچ او کے شائع شدہ ڈیٹا کے مطابق 251220 میں سے ٪20۔28 اموات دل کے امراض کی وجہ سے ہوتی ہیں۔پاکستان دنیا بھر میں ریی ہومیٹک والولر ہارٹ ڈزیز کے حوالے سے تیسرے نمبر پہ ہے۔ اور بلوچستان کی عوام دوسرے صوبوں سے زیادہ اس مرض کا شکار ہیں۔
پہلے ان مریضوں کو علاج کے لیے لاہور یا کراچی جانا پڑتا تھا جہاں علاج کے علاوہ قیام طعام پہ بھی لاکھوں کا خرچہ ہوتا تھا۔ نوشکی سے لائے گئے ایک دل کے مریض شخص کے بیٹے کا کہنا ہے: "ہم اپنے والد کو علاج کی غرض سے لاہور، راولپنڈی، کراچی اور سکھر لے جاتے رہے ہیں۔ علاج کے علاوہ قیام طعام اور سفر کے اخراجات پہ لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود مرض بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ بائی پاس سرجری کے بعد میرے والد تیزی سے روبصحت ہیں۔”
دل کے سرجن ڈاکٹر عصمت اللہ اچکزئی جنہوں نے یہ بائی پاس سرجری کی ہے بتاتے ہیں: "ہم نے جس مریض کی سرجری کی ہے وہ علاج کے لیے بہت سے شہروں میں جاتا رہا ہے اور ہر سفر پہ اس کا تقریباً ساڑھے تین لاکھ خرچہ ہوا ہے۔ کچھ دن پہلے جب وہ ہاسپٹل میں آئے تو ان کی حالت تشویشناک تھی لہذا ہم نے بائی پاس سرجری تجویز کی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اب ہمارے ہاسپٹل میں یہ سہولت موجود ہے تو اس نے واپس گھر جانے سے انکار کر دیا ور اصرار کیا کہ اسے ایڈمٹ کر کے جلد از جلد سرجری کر دی جائے۔”
ایک مقامی رہائشی نصیر اللہ خان کا کہنا تھا: "ہمیں ان ڈاکٹرز پہ فخر ہے جنہوں نے صوبے کے غریب عوام کے لیے صوبے کے اندر بہترین اور مفت علاج کی سہولت ممکن بنائی ہے۔”
جس ٹیم نے یہ سرجریز کی ہیں اس کی رہنمائی ڈاکٹر عارف الرحمن، ڈاکٹر سید داؤد، ڈاکٹر آفتاب احمد کھتری، ڈاکٹر اصغر احمد، سرجن ڈاکٹر عصمت اچکزئی، ڈاکٹر عبدالواسع، ڈاکٹر عقیل اور دوسرے ڈاکٹرز نے کی۔ ڈاکٹر آمین اللہ خان کا کہنا ہے: "دل کا علاج وسائل کی دستیابی پہ منحصر ہے۔ اب ہمارے پاس تربیت یافتہ ڈاکٹرز اور پیرامیڈیک اسٹاف موجود ہے۔ اگرچہ ہمارے ہاسپٹل میں نرسنگ اسٹاف اور دوسرے وسائل کی کمی ہے۔” انہیں خدشہ ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو مالی وسائل اور نرسنگ اسٹاف کی کمی اس عظیم مقصد کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ ایک مریض کے لیے استعمال ہونے والے ڈسپوز ایبل آلات پہ تقریباً ایک لاکھ تیس ہزار لاگت آتی ہے، "ہمیں حکومت، ڈونرز اور انتظامی خودمختاری کی مستقل امداد کی ضرورت ہے۔”
دل کے سرجن ڈاکٹر عبدالواسع کے مطابق: "ہمارے صوبے میں دل کی سرجری کی سہولت کی کمی تھی، جب میں ایم بی بی ایس کے بعد ہاوس جاب کر رہا تھا تو ہم بہت سے مریضوں کو اوپن ہارٹ سرجری کے لیے کراچی اور دیگر شہروں میں بھیج دیتے تھے، بہت سے ہمارے ہاتھوں میں دم توڑ گئے کیونکہ وہ دوسرے شہروں میں جا کر علاج کروانے کی استطاعت نہیں رکھتے تھے، اس بات نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس شعبے میں اسپیشلائزیشن کروں تاکہ اپنے صوبے کے لوگوں کی خدمت کر سکوں۔”
ڈاکٹر عصمت اچکزئی بتاتے ہیں کہ مختلف ہاسپٹلز میں بائی پاس کے مختلف ریٹس ہیں جو پانچ لاکھ سے آٹھ لاکھ تک ہو سکتے ہیں جبکہ ہم اس ہاسپٹل میں جدید ترین علاج بالکل مفت مہیا کر رہے ہیں لیکن ڈسپوزایبلز مہنگے ہوتے ہیں اس لیے اس کا خرچہ مریض کو برداشت کرنا پڑتا ہے، ”اگر ہمیں مالی امداد مل جائے اور باقاعدگی سے ڈسپوز ایبلز اور دوسری رسد مل جائیں تو ایسے 90 فیصد مریض جنہیں ہارٹ سرجری کی ضرورت ہے انہیں اگر دوسرے صوبوں سے بہتر نہیں تو کم از کم اپنے ہی صوبے میں بہترین سہولیات مل سکتی ہیں، ہمیں امید ہے کہ گورنمنٹ بلوچستان کے غریب عوام کے لیے وسائل کی فراہمی کے ساتھ ساتھ مفت علاج کی سہولت کو بھی جاری رکھے گی۔”
ڈاکٹر واسع کے مطابق ابتداء میں ان کے پاس تربیت یافتہ عملے اور اینستھزیسٹس اور سرجنز کی کمی تھی، جب سے ہم سب اسپیشلائزیشن کر کے لوٹے ہیں ہم نے سرگرم ڈاکٹرز کی ایک ٹیم بنائی جو انہیں تربیت کے لیے این آئی سی وی ڈی کراچی لے گئی جس کے بعد ایسی سرجریز ممکن ہو پائیں، ابتدائی طور پر ہمیں تین مریضوں کے لیے وسائل مہیا کیے گئے تھے جو کہ ہم کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا: "اگرچہ ہمارے پاس تربیت یافتہ ڈاکٹرز کی ٹیم ہے مگر بلوچستان میں دل کے مریضوں کی بڑی تعداد کے علاج کے لیے یہ کافی نہیں ہے، ہزاروں لوگوں کو کراچی لاہور اور دیگر شہروں میں جانا پڑتا ہے۔”
اب تک ہاسپٹل کے پاس اوپن ہارٹ سرجری کے 72 مریضوں کی فہرست موجود ہے جن کی سرجریز آنے والے دنوں میں ہوں گی تاہم ہاسپٹل کو لوگوں کو اس جدید ترین علاج کی سہولت کے بارے میں عوام کو بتانے کے لیے بڑی سطح کی تشہیر کی ضرورت ہے، جو اس بارے میں نہیں جانتے اور علاج کے لیے دوسرے شہروں کا رخ کر رہے ہیں، "اوپن ہارٹ سرجری کے پروگرام کے آغاز کے لیے تو ہمارے پاس بنیادی ضروریات موجود ہیں لیکن صوبے میں موجود دل کے مریضوں کی بڑی تعداد کے علاج اور مشکل سرجریز کے لیے ہمیں حکام کی امداد کی ضرورت ہے۔”
بلوچستان سیکرٹری ہیلتھ صالح محمد خان کا کہنا تھا کہ ہاسپٹل میں ان سرجریز کو جاری رکھنے کے لیے محکمہ صحت وسائل کی فراہمی کے لیے پوری کوشش کرے گا اس کام کے لیے نہ صرف محکمے نے 30 ملین کے فنڈز مختص کیے ہیں بلکہ وسائل میں اضافے کے لیے ڈونرز سے بھی بات چیت جاری ہے۔ انہوں نے بلوچستان ہیلتھ سیکٹر کی تاریخ میں اس کامیابی کو سنگ میل قرار دیا اور بتایا کہ میڈیکل اسٹاف کی ٹیم کو بھی اعزاز اور کیش پرائز سے نوازا جائے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک سول ہاسپٹل کوئٹہ میں سات سرجریز کی جا چکی ہیں اور یہ عمل جاری ہے، ایک سرجری کے لیے چار لاکھ کی سرمایہ کاری ہوتی ہے اور دو لاکھ سیونگ کے طور پہ رکھے جاتے ہیں تاکہ اگر آپریشن کے بعد کوئی مسئلہ یا پیچیدگی ہو جائے تو مریض کی زندگی بچائی جا سکے، انہوں نے مزید بتایا کہ گورنمنٹ نے ہیلتھ سیکٹر میں ترقی کے لیے 46 بلین مختص کرنے کا فیصلہ کیا ہے جن میں سے تیس ملین سول ہاسپٹل کے کارڈیک ڈیپارٹمنٹ کو دئیے جائیں گے، ”این آئی وی ڈی کراچی سے تربیت یافتہ ڈاکٹرز کا ایک گروپ ان کے آفس آیا اور اوپن ہارٹ سرجری فنانس کرنے کے بارے میں بات کی اور سرجری پہ آنے والی لاگت کی تفصیلات بتائیں، جو کہ انہیں کچھ ہی دن میں مہیا کر دی گئی۔”
1935 کے زلزلے کے بعد 1939 میں جناح روڈ کوئٹہ پر پچاس ہزار آبادی کے لیے پچاس بیڈ والا سینڈیمن ہاسپٹل بنایا گیا۔38 ایکڑ زمین میں سے 268234 اسکوئر فیٹ کورڈ ایریا تھا۔ 1973 میں سینڈیمن ہاسپٹل کوئٹہ نے بولان میڈیکل کالج کوئٹہ سے بطور ٹیچنگ ہاسپٹل الحاق کیا۔ 2001 میں بولان میڈیکل کمپلیکس کی تکمیل کے بعد سینڈیمن ہاسپٹل کے تمام شعبے وہاں منتقل کر دیے گئے مگر جلد ہی یہ احساس ہوا کہ صرف بولان میڈیکل کمپلیکس پورے بلوچستان کے مریضوں کی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد ہر شعبے کی اسپیشیلٹی کے پچاس فیصد یونٹس اور کچھ مائنر اسپیشیلٹیز اور ٹیچنگ اسٹاف کو سینڈیمن میں منتقل کر دیا گیا۔ آج کل گورنمنٹ کارڈیک یونٹ کو بھی کہیں اور شفٹ کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہے۔
ہاسپٹل کی انتظامیہ اور ڈاکٹرز کو خدشہ ہے کہ اس آپریشن یونٹ کی کہیں اور منتقلی سے نہ صرف اس عظیم مقصد کو نقصان پہنچے گا بلکہ اس سے ہاسپٹل میں میڈیکل اور پیرا میڈیکل اسٹاف میں بھی کمی واقع ہو گی۔ شہر کے وسط میں ہونے کی وجہ سے عوام کے لیے سینڈیمن ہاسپٹل آسانی سے قابل رسائی ہے۔
2003 میں سینڈیمن ہاسپٹل کے ساتھ الحاق میں مختلف میڈیکل ڈپلومہ کورسز کے لیے پوسٹ گریجویٹ میڈیکل انسٹیٹیوٹ کوئٹہ قائم کیا گیا۔ اس میں کلینکل سیکشن آف ڈینٹل کالج بھی ہے۔ یہ ہاسپٹل 850 بیڈ کے ساتھ اٹھارہ علاقوں کو طبی سہولیات فراہم کر رہا ہے۔