کیا اقوام متحدہ سیلاب متاثرین کی امیدیں پوری کر سکتی ہے؟
محمد فہیم
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس میں پاکستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے عالمی دنیا سے مدد کی اپیل کی ہے جبکہ اس سے قبل امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی پاکستان میں ہونے والی تباہ کاریوں میں اس ملک کر تنہا نہ چھوڑنے کا اعلان کرتے ہوئے دنیا بھر سے مدد کی درخواست کی تھی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر میں امریکی صدر جوبائیڈن نے پاکستان میں سیلاب اور دنیا کی مدد کی ضرورت پر زور دیا، انہوں نے کہا کہ پاکستان کا بڑا حصہ سیلاب کے باعث زیرِ آب ہے اور پاکستان کو اس وقت دنیا کی مدد کی ضرورت ہے، ماحولیات کی تبدیلی کی قیمت انسانیت کو چکانی پڑ رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس کا کہنا تھا کہ پاکستان ڈوبا ہوا ہے، دنیا ابھی تک فعال نہیں ہوئی، پاکستان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں جو ایک تہائی ڈوبا ہوا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اقوامِ عالم غیرفعالیت کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہیں اور انسانیت کے مستقبل کو درپیش اہم خطرات سے نہ نمٹنا چاہتی ہیں نہ اس کے لیے تیار ہیں۔
جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس سے خطاب میں شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو سیلاب سے تباہی کا سامنا ہے؛ 3 کروڑ 30 لاکھ لوگ متاثر ہوئے ہیں، 40 دن اور 40 راتیں ایسا سیلاب آیا جیسا دنیا نے کبھی نہیں دیکھا، یہاں سب کو بتانے آیا ہوں کہ پاکستان کن حالات سے گزر رہا ہے، پاکستان کا گلوبل وارمنگ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے لیکن عالمی درجہ حرارت نے پورے پورے خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر دیا ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں سیلاب متاثرہ پاکستان کیلئے آواز بلند کرنے اور دنیا سے مدد کی اپیل پر ماہر بین الاقوامی امور ڈاکٹر منظور آفریدی کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ بین الاقوامی مسئلہ ہے اگر اسے بروقت حل نہ کیا گیا تو یہ پھیلتا جائے گا اور پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آئے گی، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس پر بات کرنا اور جو بائیڈن کا پاکستان کیلئے آواز بلند کرنا بہت بڑی پیش رفت ہے، اس سے دنیا کی آنکھیں کھل جائیں گی اور وہ دیکھ سکیں گے کہ پاکستان کو کتنا بڑا اور سنگین مسئلہ درپیش ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس پر بات کرنا اس مسئلہ کو مشترکہ مسئلہ بنا دیتا ہے اس وقت 196 ممالک ہیں ان سب کے مشترکہ اجلاس میں یہ گفتگو کرنا اس مسئلہ کو ان سب کا مسئلہ بنا دیتا ہے اور جب مسئلہ سب کا مشترکہ ہے تو اس کا تدارک بھی سب پر لازم ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونیوالے مسائل کے حل میں سب کا ایک ساتھ ہونا انتہائی ضروری ہے۔
ڈاکٹر منظور آفریدی کے مطابق کسی بھی ملک کو اپنے پاﺅں پر کھڑے ہونے کیلئے امداد کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری اور تجارت کی ضرورت ہوتی ہے، پاکستان کو جہاں ایک جانب امداد کی ضرورت ہے وہیں ان ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستانی مصنوعات کو اپنی منڈیوں تک رسائی دینے میں نرمی لائیں تاکہ پاکستان مستقبل میں بھی خود کفیل ہو سکے۔
سیلاب کے مسئلہ پر ماہر بین الاقوامی امور پروفیسر ڈاکٹر اعجاز خان کا کہنا ہے کہ اس وقت سیاست سے بالاتر ہو کر اس مسئلہ کو دیکھنا ہو گا، پاکستان اقتصادی طور پر انتہائی مشکل میں گھرا ہوا ہے ایسے میں سیلاب نے تباہی پھیلا دی ہے اور سیلاب کی تباہی کو ہمیں موجودہ تباہی سے دیکھنا نہیں چاہئے بلکہ اس کا اثر آئندہ برس بھی محسوس ہو گا، اس وقت ہماری زیر کاشت اراضی سیلاب سے متاثرہ ہے اور اس کی بحالی ممکن نہیں ہو سکی ہے جس کا اثر آئندہ برس پر بھی پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کیلئے مسائل بہت زیادہ ہیں لیکن یہ ایک بہترین موقع بھی لے کر آیا ہے؛ دنیا کی توجہ اب پاکستان پر مرکوز ہے ایسے میں پاکستان کو نہیں چاہیے کہ وہ امداد کا انتظار کرے بلکہ دنیا کے ساتھ اقتصادی تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرے، دنیا نے یہ مان لیا کہ پاکستان کو مشکل ہے اب اس مشکل سے نکلنے کیلئے ہم بطور قوم کون سا راستہ اپناتے ہیں یہی اہم ہے، ”ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مشکل کی گھڑی میں تجارت اور اقتصاد کا راستہ اپنایا جائے اور ان ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات استوار کئے جائیں جن ممالک کا حصہ موسمیاتی تبدیلی میں بہت زیادہ ہے ان کی اب اخلاقی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی مدد کرے اور اس ضمن میں پاکستان نے ان کے ساتھ تعلق بنانا ہے۔”
ڈاکٹر اعجاز خان نے کہا کہ حکومت کی مدد کیلئے پوری دنیا نے وعدے کئے ہیں لیکن یہ وعدے اس وقت کام نہیں کریں گے دنیا کو فوری ردعمل دکھانا ہو گا، فرانس نے سال کے آخر میں کانفرنس کرنی ہے لیکن اس وقت جو لوگ کھلے آسمان کے نیچے ہیں ان کیلئے فوری امداد فراہم کی جائے، جو امداد ہفتے بعد آنی ہے وہ کل آنی چاہئے اور جو امداد کل آنی ہے وہ فوری طور پر آج ہی فراہم کی جائے تاکہ متاثرین کی بحالی پر کام کیا جائے۔