لائف سٹائل
پشاور: فضائی آلودگی کے باعث 11031 افراد دمہ اور پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا
لائبہ حسن
پشاور میں ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کے باعث لوگ پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں سے دوچار ہیں۔ یہ کہنا ہے پلمونری بیماریوں کے ماہر ڈاکٹر سید حامد حسین بنوری کا جو پچھلے 6 سال سے پھیپھڑوں کے مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس سال پشاور میں پھیپھڑوں کے مختلف امراض میں کافی حد تک اضافہ ہوا ہے جس کی بنیادی وجہ گندی ہوا میں سانس لینا اور گندا پانی پینا ہے۔ فضائی آلودگی میں سانس لینے سے ایئر ویز میں جلن ہو سکتی ہے اور سانس کی قلت، کھانسی، گھرگھراہٹ، دمہ کی اقساط اور سینے میں درد ہو سکتا ہے۔ فضائی آلودگی پھیپھڑوں کے کینسر، دل کے دورے، فالج اور انتہائی صورتوں میں قبل از وقت موت کے خطرے میں ڈال دیتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فضائی آلودگی پھیپھڑوں کی صحت کے لیے خطرہ ہے خاص طور پر اُن بچے بچیوں کیلئے جن کی عام سانسیں بڑی عمر کے بچوں اور بڑوں سے زیادہ تیز ہوتی ہیں، ان بوڑھے افراد کیلئے جن کی سانس کی شرح زیادہ ہو سکتی ہے، وہ لوگ جو کام کرتے ہیں یا باہر وقت گزارتے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ پہلے سے ہی دل یا پھیپھڑوں کی بیماریوں سے متاثرہ لوگوں کیلئے۔
خیبر پختونخوا آرٹی آئی ایکٹ 2013 کے تحت موصول ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق پشاور کی آبادی 23 لاکھ 43 ہزار لوگوں پر مشتمل ہے جس میں پیدائش سے دمہ کی بیماری میں مبتلا لوگوں کی تعداد 349 ہے جبکہ 298 ایسے مریض ہیں جو بعد میں دمہ کی بیماری میں مبتلا ہوئے۔ جبکہ 11031 افراد پھیپڑوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔
پشاور زرعی یونیورسٹی کے ماہر موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر محمد ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ”ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) کے مطابق ہوا کا معیار 25 ملی گرام (mg) فی مکعب میٹر ہونا چاہیے۔ لیکن پشاور میں صنعتی سرگرمیوں کی وجہ سے، حالیہ ایئر کوالٹی انڈیکس (AQI) ریڈنگ 90 اور 110 mg کے درمیان ہے۔، اگر فضا میں دھول، دھواں اور زیولائٹ مواد کی مقدار ڈبلیو ایچ او کی حد سے زیادہ ہو تو یہ انسانی صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پشاور جغرافیائی اور موسمی لحاظ سے خشک شہر تھا اور ناکافی بارشوں کی وجہ سے گندگی اور گردوغبار کے ذرات ہوا میں بڑی مقدار میں جمع ہوتے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی میں اضافہ کرتے ہیں، شہر میں صرف انڈسٹریل اسٹیٹ ہی آلودگی کا باعث نہیں ہے، پرائیویٹ اور مسافر گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں بھی خراب ہوا کے معیار میں اضافہ کرتا ہے، خیبر پختونخوا کا دارالحکومت پرانی بسوں، شور مچانے والے رکشوں، اور 22 پہیوں والے ٹرکوں سے بھرا پڑا ہے، یہ سب زہریلا سیاہ دھواں خارج کرتے ہیں، جو پشاور کے رہائشیوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔
دوسری جانب ماحولیاتی تحفظ ایجنسی کا دعویٰ ہے کہ پارٹیکیولیٹ میٹر (PM2.5) کی سطح، جو عمر کے لحاظ سے اموات کے خطرے کو بڑھاتی ہے، دراصل یہ باریک ذرات (PM2.5) ایک فضائی آلودگی ہے جو لوگوں کی صحت کے لیے تشویش کا باعث ہے جب ہوا میں سطح زیادہ ہوتی ہے، PM2.5 ہوا میں چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں جو مرئیت کو کم کر دیتے ہیں اور سطح بلند ہونے پر ہوا کو دھندلا دیتے ہیں۔ دوسری جانب یہ پشاور میں نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈ (NEQS) کے رہنما اصولوں کی خلاف ورزی بھی ہے۔ (NEQS) ماحولیاتی معیار کا ایک قسم کا قانونی طور پر پابند پالیسی آلہ ہے جو پھیلے ہوئے اخراج کے ذرائع، جیسے سڑک ٹریفک اور زراعت کے ماحولیاتی اثرات کے تدارک کے لیے نافذ کیا گیا ہے۔
پشاور میں نمونے لینے کے تمام مقامات پر پارٹیکیولیٹ میٹر (PM2.5) نیشنل انوائرنمنٹل کوالٹی اسٹینڈرڈ (NEQS) کی حدود سے زیادہ ہے، صحت عامہ پر ذرات کی فضائی آلودگی کا سب سے بڑا اثر PM2.5 (10-15 سال) کی طویل مدتی نمائش سے سمجھا جاتا ہے، جو عمر کے لیے مخصوص اموات کے خطرے کو بڑھاتا ہے،” EPA کے نتائج بتاتے ہیں۔
فی الحال، پشاور کی ہوا میں PM2.5 کی کم از کم سطح 40 اور زیادہ سے زیادہ 90 ہے، جب کہ NEQS تجویز کرتا ہے کہ ہوا میں چھوٹے ذرات کی سطح 15 مائیکرو گرام فی مکعب میٹر سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔ ہوا میں پی ایم 2.5 کا بڑھنا انسانی صحت کے لیے خطرناک ہو جاتا ہے اور بینائی کو بھی کم کر دیتا ہے۔
ای پی اے نے صوبائی دارالحکومت میں 28 مختلف مقامات پر ہوا کے نمونوں کا تجربہ کیا۔ مطالعہ کے مطابق کاربن مونو آکسائیڈ کی سطح NEQS کی حدود میں ہے۔ ہوا میں نائٹرک آکسائیڈ (NO) کا فیصد بھی NEQS کی حدود میں ہے سوائے دو علاقوں کے تمام جگہوں پر؛ کوہاٹ روڈ اور رنگ روڈ پر گاڑیوں کی آمدورفت زیادہ ہے۔ تمام 28 پوائنٹس پر نائٹروجن ڈائی آکسائیڈ (NO2) کی مقدار NEQS کی حد سے تجاوز کر گئی ہے۔ NO2 کا زیادہ فیصد پھیپھڑوں میں جلن کا سبب بن سکتا ہے، اور سانس کے انفیکشن کے خلاف جسم کے دفاع کو کمزور کر سکتا ہے۔ تاہم صوبائی دارالحکومت میں سلفر ڈائی آکسائیڈ (SO2) کا ارتکاز حد کے اندر ہے۔
پشاور لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں محمد عمران جو کہ دمہ کی بیماری میں مبتلا ہیں، ان کا کہنا تھا کہ پچھلے چند سالوں سے انہیں سانس کی تکلیف ہوتی تھی، ”مجھے لگا یہ معمولی سی الرجی ہے اور میں گھر پر ہی الرجی کی دوا کھاتا تھا ایک رات جب میری طبیعت بہت خراب ہوئی تو والدہ مجھے ہسپتال لے آئی رپورٹ آنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ مجھے دمہ کی بیماری ہے ہمارے گھر پر نا صرف میں بلکہ میرے ساتھ میرے بھائی کو بھی یہی مسئلہ اور تکلیف ہے، ہمارا گھر ایک ماربل فیکٹری سے تھوڑا دور ہے لیکن اس فیکٹری کے ساتھ ایک بہت بڑا میدان ہے جہاں پر اکثر نوجوان لڑکے کھیلنے آتے ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹر حامد نے کہا کہ پشاور ایک گنجان آباد شہر ہے اور لوگ بھی مہنگائی اور غربت کی وجہ سے بیماریوں کے علاج اور ٹیسٹ کی رقوم ادا نہیں کر پاتے لیکن وہ مختلف احتیاتی تدابیر اپنا کر خود کو آلودگی سے لگنے والی مختلف بیماریوں کے خطرات کو کم کر سکتے ہیں، سفر کیلئے فلٹرنگ فیس ماسک آپ کا بہترین دوست ہو سکتا ہے، اگرچہ آپ کو زیادہ تر شہروں میں فارمیسیوں میں ڈسپوزایبل ماسک مل سکتے ہیں، لیکن طبی پیشہ ور افراد کی طرف سے تجویز کردہ ماسک کی قسم ادویات کی دکانوں یا ڈیپارٹمنٹل اسٹورز میں شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے، آپ کے کپڑوں، آپ کی جلد یا آپ کے بالوں میں آلودگی کے چھوٹے چھوٹے ذرات جمع ہو سکتے ہیں اس لئے جب کام سے فارغ ہو کر اپ اپنے گھر پہنچیں تو جتنا جلدی ہو سکے شاور لیں، سن اسکرین اور موئسچرائزر لگائیں، اور یہی طریقہ کار گھر سے نکلنے سے پہلے بھی اپنائیں کیونکہ یہ طریقہ لمبی مدت کیلئے آپ کو سورج کی خطرناک شعاؤں اور آلودگی کے ذرات کو جسم میں داخل ہونے سے بچاتا ہے۔