ہمیں اب پاکستان میں مکمل امن چاہیے!
ارم رحمان
پختہ یقین، نیا عزم، امید کی کرن چاہیے
ہمیں پاکستان میں اب مکمل امن چاہیے
بہت جھیل لیے قوم نے جھوٹے دعوے وعدے
اب کوئی سچا مخلص، راست سخن چاہیے
نہیں ہے کوئی اس وطن میں بھروسہ مند حکمران
شمشیر وسناں اول، اقبال کا مرد آہن چاہیے
نہ دیکھے کبھی وطن پاک کو دشمن ٹیڑھی آنکھ سے
ایسا رعب و دبدبہ ایسا چال و چلن چاہیے
بابائے قوم جیسا کوئی زیرک، روایت شکن چاہیے
ہمیں اب پاکستان میں مکمل امن چاہیے
21 ستمبر 2002 سے امن کا عالمی دن باقاعدگی سے منایا جا رہا ہے۔ یہ دن بھی عام دنوں کی طرح بڑے اور طاقتور ممالک کی اختراع ہے؛ اس کا خیال اقوام متحدہ کو ہی آیا اور 1982 میں پہلی بار منایا گیا۔ 2001 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد نمبر 52 کے تحت اس دن کو منانے کا فیصلہ کیا گیا اور پھر ساری دنیا اس کی لپیٹ میں آ گئی اور 2002 میں پوری دنیا میں منایا گیا۔
اس دن کو عالمی سطح پر منانے کا مقصد ممالک اور اقوام میں امن کے فوائد اجاگر کرنا ہے کہ نفرتوں کو ختم کر کے محبت اور خلوص کو فروغ دینا چاہیے تاکہ صرف کچھ ممالک نہیں بلکہ ساری دنیا ہی امن کا گہوارہ بن جائے، عدم تشدد اور عدم برداشت کے گلے سڑے نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے، ہر طرح کے فرق و تفریط سے نکل کر باہمی اخوت اور بھائی چارے کو فروغ دیا جائے، انسانیت اور اخلاقی اقدار کو روا رکھا جائے۔
اس دن ان سماجی رہنماؤں کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے جنھوں نے امن کے لیے کوششیں کیں، امن واک، ریلیاں اور پرامن مظاہرے کیے اور بین الاقوامی مذاہب میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کی، اگرچہ ان کی کاوشیں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکیں مگر وہ بارش کے پہلے قطرے کی طرح جنھوں نے امن و امان کی صورتحال کو بہتر کرنے کے سلسلے میں آواز اٹھائی۔
کسی بھی معاشرے اور قوم میں امن و امان کا نہ ہونا اس کی تنزلی اور بربادی کی اہم وجہ ہو سکتی ہے؛ کسی بھی ریاست میں اگر رعایا خود کو غیرمحفوظ متصور کرے تو کبھی بھی وہ ذہنی صلاحیتوں کا بھرپور فائدہ نہیں اٹھا پائے گی اور ملک و قوم کے لیے قابل فخر کارنامے سرانجام دینے سے قاصر رہے گی۔
بدامنی صرف ہتھیاروں کے استعمال یا دہشت گردی سے ہی نہیں پھیلتی بلکہ غربت اور ناانصافی بھی بے چینی اور بدامنی پھیلانے کی بنیادی وجوہات میں سے ایک ہیں؛ جس قوم کے لوگ بھوک افلاس کے مارے، بیمار لاچار اور بے بس ہوں گے، جس قوم کو انصاف نہیں ملے گا، جہاں امیر اور غریب کا فرق بدتر سے بدترین رکھا جائے، جہاں قوانین امراء کے لیے اور، اور غرباء کے لیے اور ہوں وہ لوگ پرامن اور پرسکون کیسے رہ سکتے ہیں۔
ایک اچھے صحتمند جسم میں ہی اچھا ذہن پرورش پاتا ہے، بڑھتے ہوئے جرائم، جہاں جان مال عزت و آبرو سب غیرمحفوظ ہو، پل پل عزت نفس مجروح کی جاتی ہو وہاں پرامن معاشرہ تشکیل کیسے پا سکتا ہے؟ ناانصافی سے بڑا تشدد کوئی نہیں! اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں بھی انصاف نہیں ملتا تو اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے اور سچ پوچھیے تو سب سے بڑی دہشت گردی ہتھیاروں سے نہیں ناانصافیوں سے جنم لیتی ہے؛ پرامن معاشرے میں قوم عدم تحفظ اور عدم اعتماد کا شکار ہو، ریاست کے قوانین اور اداروں پہ اعتماد نہ رہے، جہاں بدعنوانیوں اور غیرانسانی روئے رائج ہوں، بدسلیقگی، جھوٹ، بددیانتی، بے ایمانی، ظلم جبر جیسی جونکیں عوام کا خون چوس رہی ہوں تو کسی بیرونی دشمن کی ضرورت کیا رہ جاتی ہے۔ بدامنی پھیلانے کے لیے اور جب خانہ جنگی اور چھینا جھپٹی کا عالم ہو تو بیرونی دشمن کو بھی اپنے مذموم اور ناپاک ارادے پورے کرنے کا موقع مل جاتا ہے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر ساری دنیا میں ہی امن و امان چاہیے تو کیا بڑے ممالک چھوٹے ممالک پہ حملہ آور نہیں ہوتے؟ آج تک جتنے مظالم کمزور ممالک پہ توڑے گئے ہیں کیا وہ بڑے طاقتور ممالک نہیں تھے؟ کیا آج بھی ساری دنیا میں بدامنی کی وجہ امیر اور طاقتور ممالک نہیں جو کسی نہ کسی طریقے سے غریب اور ترقی پذیر ممالک پہ قبضہ کرنے ان کو تباہی کے دہانے کی طرف نہیں لے جا رہے؟ کیا امیر اور طاقتور ممالک پہ امن کا عالمی دن اثر انداز نہیں ہو سکتا؟ سارے سبق اور اصول ترقی پذیر چھوٹے اور غریب ممالک کے لیے ہیں؟
پاکستان کے حکمرانوں، سیاستدانوں اور قوانین بنانے اور نافذ کرنے والے اداروں کو بہت خلوص نیت سے مل جل کر کام کرنا ہو گا، اپنے سیاسی اور عارضی مفادات کو پیچھے رکھ کر پیارے وطن کی سالمیت اور بقا کے لیے شدید جدوجہد کرنی ہو گی، اپنی عوام کو ان کی بنیادی ضروریات ہر حال میں مہیا کرنی ہوں گی، سرحدوں پہ ہی نہیں بلکہ اندورن ملک بھی ذہنی انتشار اور خلفشار کو ختم کرنا ہو گا۔ غربت کا خاتمہ، پورا اور خالص انصاف اور سارے قوانین امراء صباء شرفاء رؤسا، حکمران اور سیاستدان پہ یکساں لاگو ہونے کو یقینی بنایا جائے۔
ملک میں غدار اور منافق طبقہ جو عوام کا محنت سے کمایا پیسہ اپنی جیبوں میں بھر کر باہر ممالک میں عیش کرتے ہیں ایسے تمام عناصر جو ملک کے استحکام میں روڑے اٹکاتے ہیں اور وطن پاک کی جڑوں کو کھوکھلا کرتے ہیں ان سے نجات پائے بغیر ہم کبھی پرامن قوم اور ہمارا ملک امن و امان کا گہوارہ نہیں بن سکتا۔ اور صرف ایک دن کو منانے کی بجائے ہر لمحہ ہر لحظہ امن و امان رکھنے کی کوشش رکھی جائے۔
پاکستان کو ضرورت ہے سچے مخلص رہنماوں کی، ان سورماؤں کی جنھیں اپنی ہر خوشی سے زیادہ وطن عزیز اور اس میں بسنے والے عوام کی پرواہ ہے اور وہ عہد کر لیں کہ ملک کے کے ہر فرد کو خواہ گاؤں، دیہات یا شہر میں رہے اسے بنیادی ضروریات زندگی مہیا کی جائیں گی؛ اچھی خوراک، اچھی صحت، علاج معالجہ اور سب سے بڑھ کر ایسی تعلیم جو امیروں غریبوں کے فرق کو مٹا دے، صرف قابلیت اور اہلیت کی بنیاد پہ فیصلے کیے جاسکیں، حقدار کو حق ملے اور ناحق، زور زبردستی کرنے والوں سے نپٹنے کے لیے طاقتور قوانین بنائے جائیں اور ان پہ سختی سے عمل درآمد کیا جائے تو بیرونی دشمنوں سے ہی نہیں، اندورنی دشمنوں سے بھی تحفظ دلایا جا سکے گا۔
اگر یہ سب ممکن ہو گیا تو صرف ایک دن امن کے نام پر واک کرنے، ریلیاں نکالنے اور پلے کارڈ پہ لکھے نعرے لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔