کیا سیلاب بھی صنف دیکھتا ہے یا یہ بھی مرد نکلا؟
نوشین فاطمہ
سیلاب ایک قدرتی آفت ہے۔ اس کی تباہ کاریوں پر تبصرے کرنے کے لیے عمر پڑی ہے جو ہماری قوم کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔ ہم عملی طور پر کسی کی مدد تو کرتے نہیں لیکن اس پر تبصرے کرنا اور سوشل میڈیا پر بحث کر کے اپنے آپ کو فلسفی سمجھنا عام سی بات ہے۔
جب سے امدادی کاروائیاں شروع ہوئی ہیں تب سے جو کچھ بھی قومی میڈیا اور سوشل میڈیا پر دیکھ یا پڑھ رہی ہوں، اس نے میرے دھیان کا رخ ایک اور ہی اہم مسئلے کی طرف کر دیا۔ وہ مسئلہ کیا ہے؟
آئیے، بتاتی ہوں آپ کو!
کیا کہیں خواتین نظر آئیں؟
چاہے سیلاب متاثرین ہوں یا یا پھر اس سے جڑی امدادی کاروائیاں کرتے امدادی کارکن، خواتین خال خال ہی دِکھیں۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی اسی بارے میں ایک ایسی خبر پڑھی کہ دل ہی تھام لیا۔ لکھا تھا کہ جنوبی پنجاب میں واقع راجن پور کی تحصیل روجھان کے ایک گاؤں کے سیلاب متاثرہ ”غیرت مند مردوں” نے کیمپوں میں سرے سے جانے سے ہی انکار کر دیا۔ وجہ ان کی ابلتی ہوئی غیرت تھی کہ سیلاب میں ڈوب مریں گے مگر غیرمردوں والے امدادی کیمپ میں عورتوں کو لے کر نہیں جائیں گے۔ ان مردوں نے عورتوں کی قیمتی زندگیوں کا تبادلہ اپنی نام نہاد غیرت سے کیا۔
میں نے سوچا، یا میرے خدا! تو نے ان مردوں کو اتنی غیرت کیوں دے دی کہ خود ان سے سنبھلی نہیں جا رہی؟ تھوڑی سی عقل اور احساس سے بھی نواز دیتا۔
امدادی کاروائیوں میں بھی زیادہ تر مرد ہی مصروف دکھے جن کی وجہ سے خواتین کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ کیا جن علاقوں میں سیلاب آیا وہاں خواتین تھیں ہی نہیں صرف مرد حضرات ہی تھے کیا؟ امدادی ٹیموں میں خواتین کو شامل کیوں نہیں کیا جا رہا؟
میں سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ان علاقوں میں جہاں روایات کے نام پر خواتین کو صرف اس لئے قتل کر دیا جاتا ہے کہ انہیں کسی غیرمرد نے دیکھ لیا تھا، مردانہ امدادی ٹیم ان تک رسائی کیسے حاصل کرتی ہو گی؟ کیا مرد امدادی کارکن ان کی ضروریات کو سمجھ سکتے ہیں یا یہ خواتین ان کو اپنے مسائل بیان کر پائیں گی؟
ایسا ہی کچھ خیبر پختونخوا کے علاقے دیر بالا میں ہوا۔ یہاں الخدمت سے جڑے مقامی رضا کار فرمان اللہ ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں بے قابو سیلابی ریلے نے تباہی مچا دی تھی۔ فرمان نے بتایا کہ وہ میت والی چارپائی کے زریعے لوگوں کو پانی کے اوپر سے گذار کر بچاتے رہے، مگر جیسے ہی خاتون کی باری آئی تو مردوں کی اپنے ریسکیو کے وقت سوئی ہوئی غیرت اچانک جاگ آٹھی۔ اڑ گئے کہ خاتون تو بالکل اس چارپائی میں نہیں بیٹھے گی۔ بڑی مشکل سے ان کی جاگی ہوئی غیرت کو انتظامیہ کی مقدمے کی دھمکی سے سلایا گیا اور یوں خاتون کی جان بچ گئی۔
اب اگر کسی کے گھر میں مرد نہیں رہا تو اس گھر کی خواتین ان امدادی ٹیموں تک رسائی کیسے کریں گی؟
کیا خواتین ڈاکٹرز کو بھی سیلاب بہا کر لے گیا؟
کالام میں پانچ بھائیوں کے بعد ایک حاملہ خاتون بھی ہیلی کاپٹر کے انتظار میں دم توڑ گئی۔
کچھ دن پہلے دیکھا کہ ایک نجی تنظیم ہیلی کاپٹر کے ذریعے سیلاب متاثرہ علاقوں میں پہنچی اور امدادی کیمپ لگایا۔ یقین مانیں بہت خوشی ہوئی۔ مگر جلد ہی یہ خوشی افسوس میں بدل گئی کیونکہ وہ اپنے ساتھ کسی خاتون ڈاکٹر کو تو لے کر ہی نہیں گئے۔ سوچا کیا تمام لیڈی ڈاکٹرز کو بھی سیلاب بہا کے لے گیا تھا؟
میڈیکل کیمپ میں مرد ڈاکٹر خواتین کا معائنہ کر رہا تھا۔ کیا یہ خواتین ایک مرد ڈاکٹر کے ساتھ زچگی، ماہواری یا دوسرے امراض کے بارے میں کھل کر بات کر سکتی ہیں؟ آپ دل پر ہاتھ رکھ کر اس معاملے کو اوپر دی گئی نام نہاد مردانہ غیرت کی دو خوفناک مثالوں کے تناظر میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔
امدادی ٹیموں میں خواتین کی ضرورت
امدادی ٹیموں میں خواتین کی اشد ضرورت ہے۔ ایک تو ہم اپنے علاقوں کی روایات سے واقف ہیں۔ اور ساتھ میں ان حالات میں غربت بھی کسی بلا سے کم نہیں۔ ہمارے معاشرے میں خواتین اور ان کے مسائل کو کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ ایسے میں اگر آپ مرد، خواتین کے بغیر پورے پورے ٹرک بھی لے جائیں تو اس طرح مدد کا مقصد پورا نہیں ہو گا جب تک زیادہ تعداد میں خواتین کو اس ٹیم کا حصہ نہ بنایا جائے۔
سیلاب متاثرہ علاقوں میں خواتین تک ماہواری میں استعمال ہونے والے سینیٹری نیپکن اور زچگی کی خصوصی کٹس تو پہنچائی جا رہی ہیں مگر بیشتر کو اس کا استعمال ہی نہیں آتا۔ تو کیا اس کا طریقہ کار ان خواتین کو مرد سکھائیں گے؟ اگر آپ ان خواتین کو نظرانداز کر کے بیماریوں کا شکار ہونے کے لئے چھوڑ دیں تو وہ تو بیمار ہوں گی ہی، ساتھ بچے بھی بیمار ہوں گے۔
میں نے جتنی بھی حکومتی یا نجی امدادی تنظیموں سے اس بارے میں پوچھا تو یا تو کچھ کے پاس آٹے میں نمک برابر تھیں یا پھر سرے سے تھیں ہی نہیں۔
سیلاب خودداری تو بہا کے نہیں لے گیا
سیلاب جان اور مال، سب کچھ ہی تو بہا لے گیا۔ مگر میں جو بات کہنا چاہ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ امدادی سامان کی تقسیم کے وقت گویا قیامت کا سماں ہوتا ہے، بھوک اور بیماری سے نڈھال ہر شخص اپنا حصہ لینے کے لئے جیسے ایک دوسرے پر پل پڑ رہا ہوتا ہے۔ مگر یہاں بھی مردوں کا قبضہ ہوتا ہے۔ کیا کسی عورت کو دیکھا یا عورتوں کے غول امدادی سامان کے لئے لڑ رہے ہوں، آپ کو نظر آئے؟
خواتین امدادی کارکنوں کا سیلاب متاثرہ خواتین تک پہنچنا، تمام مسائل کو کم کرنے کے ساتھ ان کے نفسیاتی سکون کیلیے بھی ضروری ہے۔ ان کا بات کرنا، اپنا مسئلہ بےجھجھک بیان کرنا، اپنی تکلیف شیئر کرنا خواتین کی جسمانی اور نفسیاتی، دونوں طرح کی صحت کے لئے ضروری ہے۔
میں تمام حکومتی اور نجی امدادی تنظیموں سے اپیل کرتی ہوں کہ خدارا وہ اپنی ٹیموں میں خواتین کو شامل کریں اور ان کی تعداد کو بڑھائیں تاکہ مدد کرنے کا اصل مقصد پورا ہو۔ اسکول، کالج اور یونیورسٹیوں کی سطح پر بھی لڑکیوں کی تربیت کی جائے تاکہ ایسے کٹھن وقت میں اگر وہ رضاکارانہ کام کرنا چاہیں تو تربیتۃ یافتہ ہوں۔
کیا کہتے ہیں، ہونا چاہیے نا؟
نوشین فاطمہ ایک سماجی کارکن اور بلاگر ہیں۔
(نوٹ: سیلاب کی صورتحال پر ٹی این این کی خصوصی بلاگ سیریز)