ماحولیاتی تبدیلی کے عفریت کے شکنجے میں پھنسا سیلاب زدہ پاکستان
ایمن زیب
انسان نے جب بھی کائنات کے قدرتی نظام اور اس کے توازن کو چھیڑنے کی کوشش کی تو اس کو منفی اثرات بھگتنے پڑے ہیں۔ ایسا ہی ایک توازن، جس کائنات میں ہم رہتے ہیں، اس کی ساخت میں موجود ہے مگر بڑھتی ہوئی انسانی سرگرمیوں بالخصوص صنعتی دھوئیں اور فضائی آلود گی بڑھنے کی وجہ سے توازن بگڑ رہا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کا سبب بننے والی گرین ہاؤس گیسز کا فضا میں بے دریغ اخراج ہو رہا ہے۔
گرین ہاؤس عمل کیا بلا ہے بھلا ؟
یہ دراصل اس قدرتی اثر کو کہا جاتا ہے جس کی مدد سے زمین سورج کی شعاعوں سے حاصل ہونے والی توانائی کو جمع کرتی ہے۔ زمین کے گرد تنا اوزون کا ہالہ سورج کی حرارت کو براہ راست زمین تک پہنچنے سے پہلے گویا چھان لیتا ہے۔ یعنی سطح زمین تک اتنی ہی حدت پہنچتی ہے جتنی انسانوں، جانوروں اور نباتات کو ضرورت ہے۔
اب انسان جو اشرف المخلوقات ہے، اس کے کرتوت ملاحظ ہوں؛ تیل اور کوئلے سے چلنے والی صنعتوں کی بھرمار کر دی۔ مال تو خوب بنایا مگر ان صنعتوں سے نکلنے والی گرمی نے اوزون کی تہہ کو چھلنی کر دیا۔ سورج کے قدرتی فلٹر کو نقصان پہنچا۔ یوں سورج کی الٹرا وائلٹ شعاعیں براہ راست زمین سے ٹکرانے لگیں۔
ماحولیاتی تبدیلی بھی ایک اور بلا کا نام ہے
قدرت گرین ہاؤس عمل کو بگاڑنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھا اور بڑے بڑے گلیشیئرز پگھلنے شروع ہو گئے، جس سے پانی کی مقدار اِس قدر زیادہ ہو گئی ہے کہ دُنیا بھر میں سطح سمندر، دریا ندی نالوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ سمندر کی سالانہ تین ملی میٹر بلند ہو رہی ہے کیونکہ پانی گرم ہو کر پھیل جاتا ہے۔ سمندری طوفان کی آمد کے دورانیے میں بھی غیرمعمولی کمی ہوئی ہے۔
تو جناب! ہم نے کارخانوں اور زراعت کے ذریعے قدرتی گرین ہاؤس عمل کو بڑھایا جس سے درجۂ حرارت بڑھ رہا ہے۔ بس اسی عمل کو گلوبل وارمنگ یا ماحولیاتی تبدیلی کہا جاتا ہے۔ اسی ماحولیاتی تبدیلی کے شکنجے میں پھنسا پاکستان آج کل تباہ کن سیلاب کی زد میں ہے۔
مگر پاکستان کیوں؟
میں بی بی سی اردو پر حال ہی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ پڑھ رہی تھی۔
اس رپورٹ میں سائنسدانوں نے پاکستان کو دو موسمی نظاموں کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے مزید تباہ کن سیلابوں کا شکار ہونے کی پیش گوئی کی ہے۔
تازہ ترین سیلاب کے بارے میں لکھا تھا کہ ”پاکستان دنیا کے ایک ایسے مقام پر واقع ہے جہاں دو بڑے موسمی نظاموں کے اثرات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایک نظام زیادہ درجہ حرارت اور خشک سالی جیسے مارچ میں گرمی کی لہر کا سبب بن سکتا ہے اور دوسرا مون سون کی بارشیں لے کر آتا ہے۔
جبکہ دوسری طرف، گرین ہاؤس عمل میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ ہماری ماحولیاتی تبدیلی وفاقی وزیر شیری رحمان نے تو پاکستان کو گلوبل وارمنگ کا گراؤنڈ زیرو قرار دے دیا ہے۔ کہتی ہیں کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو کاربن اثرات میں بہت کم حصہ ڈالتے ہیں مگر نقصان زیادہ اور تلافی کم ہی ہوتی ہے۔ وہ اس حوالے سے اہداف کو دوبارہ مرتب کرنے کے لئے سخت دباؤ کے حق میں ہیں۔
پاکستان بے قصور مگر سزا سخت
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس پاکستان کے سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ کہے بغیر نہ رہ سکے کہ پاکستان ہے تو بے قصور مگر سزا اسے سخت مل رہی ہے۔ یعنی دوسروں کے کئے کی سزا پا رہا ہے۔ کہا فطرت نے ہم پر پلٹ کے وار کیا ہے کل پاکستان کی جگہ کوئی اور ملک بھی ہو سکتا ہے۔
سیلاب کیوں، اتنی زیادہ تباہی کیوں؟
موسمیاتی ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کا جغرافیائی محل وقوع، تیزی سے پگھلتے گلیشیئرز، بغیر منصوبہ بندی کے پھیلتے ہوئے شہر اور شہروں کی طرف آبادی کی نقل مکانی میں اضافہ ان وجوہات میں شامل ہے۔
پانی کی گزرگاہوں میں رکاوٹوں کے علاوہ کئی دیگر مقامی عوامل ہیں جو آب و ہوا کی عالمی تبدیلیوں کے اثرات کو پاکستان کے لیے شدید تر اور خطرناک بنا رہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق پاکستان میں 2010 کا سیلاب دریاؤں میں طغیانی کی وجہ سے آیا تھا جبکہ اس بار زیادہ ترسیلابی کیفیت بارشوں کا نتیجہ تھی خاص طور پر سندھ اور بلوچستان میں۔
شہری علاقوں میں فلیش فلڈ آئے۔ پانی کی پرانی گزرگاہوں پر تجاوزات تعمیر ہیں۔ ان کے بقول پاکستان میں دریاؤں کے کنارے پانی کی گزرگاہوں کے راستوں پر تجاوزات کی تعمیر نہ کرنے کے قوانین موجود ہیں، لیکن ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا جس کے نتائج پھر خطرناک رونما ہوتے ہیں۔
سرکاری اعدادو شمار کا مطابق حالیہ سیلاب نے سنہ 2010 میں آنے والے سیلاب سے زیادہ تباہی مچائی ہے۔ تین کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ متاثرہ علاقوں میں پانی سے جنم لینے والی بیماریوں کے پھیلاؤ اور صحت کے دیگر چیلنجز کا سامنا ہے۔
آپ بتائیے، بھلا موسمیاتی تبدیلیوں کی ذمہ دار عالمی برادری کے سامنے پاکستان کا مقدمہ کون پیش کرے گا؟
شمائلہ آفریدی نے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کیا ہے۔ سوشل ایکٹوسٹ اور سٹیزن جرنلسٹ ہونے کے ساتھ مختلف موضوعات پر بلاگز لکھتی ہیں۔