عمران خان پر فرد جرم: سینئر وکلاء کیا کہتے ہیں؟
محمد فہیم
چیئرمین تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی جانب سے ایڈیشنل سیشن جج زیبا چوہدری کیخلاف استعمال کئے گئے الفاظ معاملہ سنگینی کی جانب لے گئے؛ عمران خان آئی جی اور ڈی آئی جی سمیت پولیس، انتظامیہ اور سیاسی مخالفین کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دیتے رہے ہیں تاہم پہلی مرتبہ انہوں نے عدلیہ کو ہدف تنقید بنایا اور معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں توہین عدالت تک جا پہنچا۔ چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ کی سربراہی میں قائم بنچ نے عمران خان کو اس ضمن میں اپنا جواب جمع کرانے کا وقت دیا تاہم وہ جواب غیرتسلی بخش تھا جس کے بعد ایک ہفتے کا مزید وقت دیا گیا اور 8 ستمبر کو عمران خان کے دوسرے جواب پر عدالتی کارروائی ہوئی تاہم اس بار بھی عمران خان کا جواب تسلی بخش نہیں رہا اور عمران خان کیخلاف فرد جرم عائد کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 22 ستمبر کی تاریخ مقرر کی گئی۔
بنچ اب 22 ستمبر کو سہہ پہر اڑھائی بجے عمران خان پر فرد جرم عائد کرے گا جس کے بعد باقاعدہ کارروائی کا آغاز کر دیا جائے گا۔ عمران خان کیخلاف فرد جرم عائد کرنے کا عمل کیا ہو گا اور یہ کیس کس حد تک آگے بڑھ سکتا ہے اس حوالے سے پشاور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء اور قانونی و آئینی ماہرین کی رائے مختلف ہے۔
سینئر قانون دان ملک اجمل ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ تین مختلف اقسام کی توہین عدالت ہوتی ہے؛ ایک سول، دوسری جوڈیشل اور تیسری کریمینل نوعیت کی ہوتی ہے، کسی بھی جج کو دھمکی دینا کریمینل توہین عدالت ہے، یوسف رضا گیلانی سب سے اعلیٰ عہدے پر توہین عدالت کے مرتکب ہونے پر نااہل قرار دیئے گئے۔
ملک اجمل ایڈوکیٹ کہتے ہیں کہ عدالت کی جانب سے اپنی رہنمائی کیلئے معاونین مقرر کئے گئے تھے اور وہ یہ معاملہ صلح کی جانب سے لے جانے کی کوشش کرتے رہے جو ممکن نہ ہو سکا۔ انہوں نے کہا کہ قانون ہر کسی کیلئے ایک جیسا ہوتا ہے، قانون کی بالادستی انتہائی ضروری ہے، قانون صرف ثبوت اور دلائل دیکھتا ہے کسی کے ٹوئٹر فالورز اور جلسے نہیں دیکھتا، اس توہین عدالت کی پیروی اس لئے ہے کہ عدالت کو مضبوط کیا جائے لیکن اگر اس معاملہ میں فرق کیا جائے گا تو عوام کا عدلیہ پر اعتماد کم ہو گا، جس طرح عمران خان نے جواب جمع کرایا انہیں ایک اور موقع دیا گیا جس کے بعد دو ہفتے کا وقفہ دے کر اب فرد جرم عائد کی جائے گی، میرے ذاتی خیال سے ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا، ماضی میں توہین عدالت کے کیسز جس طرح چلے ہیں اسی طرح یہ کیس بھی چلنا چاہئے تھا۔
سینئر قانون دان طارق افغان کہتے ہیں کہ فرد جرم میں دراصل توہین عدالت کے قانون کے مطابق جو الزام عائد کئے گئے ہیں وہ تحریری صورت میں سامنے لائے جائیں گے اور یہ تحریری الزامات عمرن خان کو دیئے جائیں گے جس کے بعد اس پر عمران خان کیخلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے گا۔
طارق افغان کے مطابق اس کیس میں اگر عمران خان انکار کریں گے تو اس کا ٹرائل ہائی کورٹ میں چلے گا، ایڈوکیٹ جنرل اس کا پراسیکیوٹر ہو گا اور ملزم کو پورا موقع دیا جائے گا کہ اپنی صفائی اور دفاع میں ثبوت پیش کرے، اس ثبوت کی بنیاد پر عدالت نے جو کیس بنایا ہے اس پر فیصلہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ عمومی طور پر توہین عدالت کیس کا معاملہ ایک ہی روز میں مکمل کر لیا جاتا ہے اور تاریخیں نہیں دی جاتیں، جو دفاع میں اپنا بیان دیا جانا ہوتا ہے وہ اور اس پر جرح بھی اسی روز کی جاتی ہے اور عدالت اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے، اس میں مزید تاریخیں بھی دی جا سکتی ہیں جس کیلئے ملزم کو ضمانت پر چھوڑا جاتا ہے۔
طارق افغان توہین عدالت کیس میں سزا سے متعلق کہتے ہیں کہ توہین عدالت کے کیسز میں جتنا بڑا لیڈر ہوتا ہے اس کی سزا اتنی کم ہوتی ہے؛ یوسف رضا گیلانی کو عدالت کی برخاستگی تک سزا دی گئی، نہال ہاشمی کو ایک منٹ کی سزا سنائی گئی تھی، جتتا بھی لیڈر بڑا ہو گا اتنی ہی کم سزا دی جائے گی تاہم سزا کے بعد یوسف رضا گیلانی وزارت عظمی کے عہدے سے فارغ اور 5 سال کیلئے الیکشن لڑنے سے محروم ہو گئے، عوامی عہدہ بھی وہ نہیں رکھ سکتے تھے۔ طارق افغان کے مطابق عدالت نے عمران خان کو ایک موقع دیا جس کو ہٹ دھرمی میں ضائع کر دیا گیا اب عدالت کو انصاف کرنا ہو گا، قانون کے مطابق سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہئے۔
سپریم کورٹ کے سینئر وکیل اور انصاف لائرز فورم کے مرکزی جنرل سیکرٹری شاہ فیصل الیاس اس کیس کو انتہائی کمزور قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ عدالت نے تین غیرجانبدار معاونین مقرر کئے تھے جن میں منیر اے ملک، مخدوم علی خان اور اختر حسین مقرر کئے گئے تھے اور ان سے رائے لی گئی کہ آیا عمران خان کا یہ اقدام توہین کے زمرے میں آتا ہے کہ نہیں؟ ان معاونین کی جانب سے بھی یہ عدالت کو بتایا گیا کہ توہین نہیں بنتی اور عمران خان اس پر ندامت بھی ظاہر کر چکے ہیں، اسی طرح کسی بھی ایک جرم کیلئے کسی کو دو مرتبہ سزا نہیں دی جاتی، اس تقریر کے حوالے سے عمران خان کیخلاف ایف آئی آر درج کرائی گئی ہے لہٰذا ایف آئی آر بھی درج کرنا اور اسی الزام میں توہین کا کیس چلانا دوہرا عمل ہے۔
شاہ فیصل الیاس کے مطابق یہ انتہائی کمزور کیس ہے کیونکہ معاونین کی رائے عمران خان کے حق میں ہے، عمران خان کا بیان اگر لیگل فریم ورک میں دیکھا جائے تو یہ کریمینل توہین نہیں بنتی، امید ہے کہ ججز خود یہ نوٹس واپس لے لیں گے۔
فردم جرم عائد کرنے کے حوالے سے شاہ فیصل الیاس نے بتایا کہ 22 ستمبر کو جس طرح معمول کے تحت کارروائی ہوتی ہے ویسے ہی یہ کیس بھی چلے گا، چارج لگایا جائے گا پھر پراسیکیوشن کے ثبوت پھر اس پر جرح ہو گی پھر دفا کے ثبوت اور گواہ ہوں گے جس کے بعد ان پر جرح ہو گی، یہ ایک روز میں نمٹانا ممکن نہیں ہے، یہ کئی روز تک جاری رہ سکتا ہے، مہینہ بھی لگ سکتا ہے، دو ہفتے بھی لگ سکتے ہیں لیکن امید ہے یہ ختم کر دیا جائے گا تاہم اگر یہ فیصلہ عمران خان کیخلاف بھی آ گیا تو سپریم کورٹ سے رجوع کیا جا سکے گا۔
انہوں نے بتایا کہ اگر عمران خان نے 22 ستمبر سے قبل غیرمشروط معافی مانگ لی تب بھی امید ہے یہ معاملہ ختم کر دیا جائے گا۔