وزیرستان کی ڈرپوک لقمانہ نے کلاشنکوف سے اپنی جان لے لی؟
بشریٰ محسود
لقمانہ کا تعلق وزیرستان سے تھا پر ساری زندگی کراچی میں گزاری تھی۔ وٹہ سٹہ میں لقمانہ کی شادی کم عمری میں ہی کر دی گئی؛ ایک طرف کم عمری کی شادی دوسری طرف سسرال کے نامناسب رویہ نے شادی کے ڈیڑھ سال بعد ہی لقمانہ کو خودکشی کرنے پر مجبور کر دیا۔
لقمانہ کی خودکشی کی خبر نے نہ صرف لقمانہ کے گھر والوں بلکہ پورے علاقے کے لوگوں کو حیرت میں ڈال دیا تھا کیونکہ لقمانہ بہت معصوم اور ڈرپوک لڑکی تھی، ہر کوئی یہ سوال کر رہا تھا کہ اس میں اتنی ہمت کہاں سے آ گئی تھی کہ اس نے کلاشنکوف سے اپنی جان لے لی؟
لقمانہ کی والدہ کا بھی یہی اصرار تھا کہ ”میری بیٹی بہت معصوم تھی، وہ کبھی ایسا کام نہیں کرتی کہ جس سے اللہ اور رسول ناراض ہو، میرا دل نہیں مانتا کہ میری بیٹی خودکشی کر سکتی ہے بلکہ میری بیٹی کو اس کے سسرال والوں نے قتل کر کے خودکشی کا رنگ دے دیا ہے۔”
لیکن لقمانہ ایک کی کزن کا کہنا تھا کہ لقمانہ نے اسے ایک مہینہ پہلے بتایا تھا کہ اس کے سسرال والوں کا رویہ اس کے ساتھ ٹھیک نہیں لیکن وہ اپنے والدین کو اس لیے نہیں بتاتی کہ اس سے دو خاندان تباہ ہو جائیں گے، ”ایک دو مرتبہ اس نے خودکشی کے بارے میں بھی پوچھا تھا کہ کیا یہ حرام ہے؟ اگر کوئی بہت مجبور ہو اور خودکشی کرے تو کیا تب بھی اللہ معاف نہیں کرتا؟”
اک سوال: خودکشی کیوں کی؟
بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق خیبر پختونخوا میں 2021 میں سب سے زیادہ خودکشی کے واقعات ضلع صوابی میں پیش آئے، خودکشی کرنے والوں کی عمر بھی زیادہ تر 16 سے 45 سال کے درمیان ہوتی ہے۔ خودکشی کرنے والوں میں اکثریت نوجوانوں کی ہوتی ہے اور زیادہ تعداد خواتین کی، نوجوانوں کی خودکشی کی تعداد کے حوالے سے بھارت دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر 40 سیکنڈ میں ایک انسان خودکشی کر کے اپنی جان لے لیتا ہے، خودکشی صحت عامہ کا ایک اہم مسئلہ ہے جس پر اکثر معاشرے میں لوگ بات کرنے سے کتراتے ہیں۔
لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں؟ اس سوال کا ہر شخص کو زندگی میں سامنا رہتا ہے کہ خودکشی کرنے والے اکثر مر جاتے ہیں اور ایک بنیادی سوال چھوڑ جاتے ہیں کہ آخر اس نے خودکشی کیوں کی؟
اسی سوال کا بناء وزیر کے والد کو بھی سامنا ہے، بقول ان کے: ”میرا کوئی بیٹا نہیں چار بیٹیاں ہیں؛ میں نے اپنی بیٹی کو بیٹا بنا کر رکھا تھا اور میری خواہش تھی کہ میری بیٹی اعلی تعلیم حاصل کر کے اپنے علاقے کی خدمت کرے، اپنی بیٹی کو اعلی تعلیم دلوانے کے لیے میں نے اپنے علاقے سے دور دوسرے شہر اسے بھیج دیا تھا، وہ ایم فل کی سٹوڈنٹ تھی، شروع شروع میں تو ٹھیک تھی لیکن آخر میں وہ مجھے بہت پریشان دکھائی دیتی، میں اکثر پوچھتا بھی کہ کوئی مسئلہ تو نہیں ہے، وہ مسکرا کر کہتی کہ نہیں کوئی مسئلہ نہیں، واپس جانے کے ایک ہفتے بعد مجھے اطلاع ملی کہ میری بیٹی نے ہاسٹل میں خودکشی کر لی ہے، قانونی کاروائی ہونے کے بعد میری بیٹی کی لاش میرے حوالے کر دی گئی، میں نے اپنی بیٹی کو تو اپنے ہاتھوں سے دفنا دیا لیکن ابھی تک میرے ذہن میں ایک ہی سوال گونج رہا ہے کہ آخر اس نے خودکشی کیوں کی؟”
خودکشی کی وجوہات
ایک سروے کے مطابق خودکشی کرنے والا آسانی سے اس کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ وہ شدید تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا میں تقریبا تیس کروڑ افراد ڈپریشن کا شکار ہیں، خودکشی کرنے والوں کی ذہنی صحت متاثر ہوتی ہے، خودکشی کی بڑی وجوہات میں معاشی سماجی اور نفسیاتی مسائل شامل ہیں۔
خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن ہر سال 10 ستمبر کو منایا جاتا ہے، اس کا مقصد لوگوں میں خودکشی کے حوالے سے آگاہی اجاگر کرنا ہے، کونسلنگ کے ذریعے لوگوں میں حوصلہ اور برداشت پیدا کیا جا سکتا ہے، ہر ضلع اور ہر ادارے میں کونسلنگ سینٹر بنانے چاہئیں جہاں پر لوگ آسانی سے جا کر اپنے مسائل بیان کر سکیں اور خود کو اکیلا محسوس نہ کریں۔
خودکشی، اسلام اور آئین پاکستان
خودکشی کرنا اسلام میں حرام قرار دیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے کہ یہ فعل حرام ہے، اس کا مرتکب اللہ تعالیٰ کا نافرمان اور جہنمی ہے۔
جبکہ پاکستان کے قانون میں اس کو جرم مانا جاتا ہے؛ اگر کوئی شخص خودکشی کرتا ہے اور وہ اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتا ہے تو پھر یہ قابل گرفت جرم نہیں رہتا۔ لیکن اگر کوئی شخص خودکشی کی کوشش کر لیتا ہے اور وہ بچ جاتا ہے تو پھر اسے پاکستان کے تعزیرات کے سیکشن 325 کے تحت ایک سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی جاتی ہے؛
اور خودکشی کرنے والے فرد کے ساتھ اس کے اہل خانہ کو بھی پولیس اور عدالتی کارروائیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو نہ صرف اس کے لیے بلکہ تمام خاندان کے لیے مشکلات پیدا کر دیتا ہے۔