حمیرا علیم
10 ستمبر کو خودکشی سے بچاؤ کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق خودکشی ایک ایسا عالمی مسئلہ ہے جس سے ہر عمر، جنس اور ہر خطے کے لوگ متاثر ہیں۔ اور عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق ہر سال تقریباً آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں۔ ہر چالیس سیکنڈز بعد ایک شخص خودکشی کر لیتا ہے؛ زہر کھانا، لٹک جانا یا گولی مارنا عام طریقے ہیں۔ خودکشی سے مرنے والوں کی تعداد جنگوں میں مرنے والوں یا ملیریا اور کینسر سے مرنے والوں سے بھی زیادہ ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروس ایڈہنیڈم کہتے ہیں کہ "خودکشی کو روکا جا سکتا ہے، ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ قومی صحت اور تعلیم کے پروگراموں میں خودکشی سے بچاؤ کی حکمت عملی کو شامل کریں۔اس سلسلے میں سب سے اہم چیز زہریلی ادویات تک عام لوگوں کی رسائی محدود کرنا ہے۔ صرف سری لنکا میں اس پابندی سے خودکشی میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔”
2016 سے 2019 تک خودکشی کے واقعات میں چھ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں، جاپان میں خودکشی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ پاکستان میں بھی بڑی تعداد میں لوگ ذہنی دباؤ کا شکار ہیں؛ ماہرین کے مطابق 25 فیصد افراد ڈپریشن اور سٹریس یا کسی اور دماغی بیماری کا شکار ہیں۔
کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے اس کی وجہ جاننا ضروری ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، وقت کی کمی کی وجہ سے سماجی فاصلے، میل جول میں کمی اور بیماریوں کی وجہ سے لوگ ڈپریشن اور سٹریس کا شکار ہو جاتے ہیں۔
مناہل بلوچ نجی یونیورسٹی میں فلم سازی کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں؛ وہ اپنی زندگی کا تلخ تجربہ بیان کرتی ہیں کہ گذشتہ برس انہوں نے خودکشی کی کوشش کی تھی جس کا نشان آج بھی ان کے گلے پر موجود ہے۔
وہ کہتی ہیں: "سوشل میڈیا نے نوجوان نسل کو یہ سوچنے پہ مجبور کر دیا ہے کہ ان کی زندگیاں بہتر سے بہتر ہونی چاہئیں، یہی سوچ انہیں ڈپریشن اور ذہنی دباؤ کا مریض بنا دیتی ہے، ایسا معاشرہ جہاں ذہنی صحت کے بارے میں بات کرنا ٹھیک نہیں سمجھا جاتا وہاں شاید ہی کوئی آپ کی مدد کو آئے۔ آپ کو اپنے خاندان والوں سے بھی مدد کی امید نہیں رکھنی چاہیے، ہوش آنے پر میں نے خود کو سمجھایا کہ میں ڈپریشن کو جیتنے نہیں دوں گی، میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ میں دوبارہ ایسی کوشش نہیں کروں گی، مجھے اسکول کے زمانے سے ہی لوگ لڑکیوں جیسا برتاؤ نہ کرنے پہ تنگ کرتے تھے۔ مجھے لگتا ہے میری زندگی میں ہمیشہ ڈپریشن رہا ہے۔ میں نے کم عمری میں ہی مختلف پریشانیوں کی وجہ سے غیرنصابی سرگرمیوں میں حصہ لینا چھوڑ دیا تھا۔”
اب وہ سوشل میڈیا پہ آگاہی پھیلانے کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کے مطابق معاشرے میں شعور اور آگاہی پھیلانے اور ذہنی دباؤ کے مسئلے کو تسلیم کر کے ہی اس کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، پاکستانی معاشرے میں ڈپریشن کو ذہنی صحت کے مسئلے کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، ”مجھے میرے خاندان والے کہتے تھے کہ لوگوں کو مت بتاؤ کہ آپ ایک تھراپسٹ کے پاس جاتی ہو، اب تو مختلف شہروں میں ایسے وسائل ہیں کہ رابطہ کر کے مدد لی جا سکتی ہے، مختلف ہیلپ لائنز دستیاب ہیں، لوگوں کو کبھی یہ احساس نہیں دلانا چاہیے کہ ان کی زندگی اوروں سے بہتر ہے اس لیے انہیں ذہنی دباؤ کا شکار نہیں ہونا چاہیے، ایسا کہنے سے ان کا افسردہ دل کبھی خوش نہیں ہو گا، ذہنی صحت کے بارے میں تعلیم کو فروغ دینا چاہیے، اسکول سے ہی بچوں کی تربیت کرنی چاہیے، دوسروں کے غم و خوشی میں شریک ہو کر ذہنی دباؤ سے بچا جا سکتا ہے۔”
میں سمجھتی ہوں کہ بحیثیت مسلمان جب بھی کوئی مشکل یا آزمائش درپیش ہو تو اس ذات سے رجوع کریں جو مشکل کشا ہے۔ جس کے قبضہ قدرت میں ہر چیز ہے کیونکہ وہ شہ رگ سے زیادہ نزدیک یے اور ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہے جب بھی وہ اسے پکارے۔ اس لیے مایوس مت ہونا، کیسے بھی حالات ہوں ہمت مت ہارنا۔ اس پہ توکل کرنا اور صبر کرنا۔ اپنی جان اپنے ہاتھوں سے لے کر اللہ کے غضب کو نہ مول لینا کیونکہ فرمان ربی ہے:
"اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔ا ور صاحب احسان بنو۔” البقرہ 195
"اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو۔ بیشک اللہ تم پر مہربان ہے اور جو کوئی ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے آگ میں ڈال دیں گے۔” النسآء 29-30
حدیث نبوی ہے:
نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: "جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر قتل کیا تو وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ کے لیے گرتا رہے گا۔ جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ زہر پیتا رہے گا۔ اور جس نے لوہے کے ہتھیار سے اپنے آپ کو قتل کیا تو وہ ہتھیار اس کے ہاتھ میں ہو گا اور وہ اسے ہمیشہ اپنے پیٹ میں مارتا رہے گا۔” (بخاری 2179- 5442، مسلم 103-109)
حالات کیسے ہی مشکل کیوں نہ ہوں امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ کسی قسم کے ڈپریشن سے نجات کے لیے خاندان اور دوستوں سے بات کریں۔ کسی اچھے سائیکاٹرسٹ سے رجوع کریں۔ کوئی مسئلہ، شخص یا بیماری ایسی نہیں جس کی وجہ سے آپ اپنی جان لے لیں۔
یاد رکھیے زندگی آپ کے پاس اللہ تعالٰی کی امانت ہے، اس کی حفاظت آپ کی ذمہ داری ہے۔ اسے اپنے ہاتھوں سے گنوا کر آپ نہ صرف اللہ تعالٰی کی خوشنودی سے محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ابدی جہنم مول لے لیتے ہیں۔
اگر کوئی ڈپریشن کا شکار ہے تو درج ذیل نمبرز پہ مدد لی جا سکتی ہے۔
روزن: 0304-111-1741
امنگ: 03117786264
تسکین: 03081046279