بنوں کی روایتی خوراک موٹھ کی دال
غلام اکبر مروت
بنوں میں لکی گیٹ کے باہر مین بازار میں سڑک کنارے 10 روپے کی موٹھ دال ایک دیہاڑی دار مزدور کو مل جائے تو اس کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ لکی گیٹ کے باہر اس بازار میں آٹھ سے دس جگہوں پر موٹھ دال کی چھابڑیاں موجود ہیں اور ہر چھابڑی والے کے پاس چار پانچ افراد موٹھ کھانے یا خریدنے کیلئے موجود ہیں۔ کسی کو کھٹا موٹھ اور کسی کو مصالحہ دار چاہیئے، دونوں ملتے ہیں۔
موٹھ اور مونگ کی دال ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں لیکن کھانے اور پکانے میں معمولی فرق ضرور ہے۔ مونگ کی دال کا چھلکا اکثر اتارا جاتا ہےجبکہ موٹھ کی دال چھلکے سمیت پکائی جاتی ہے۔موٹھ کی دال جس طرح بنوں میں کھائی جاتی ہے شاید ہی کسی اورجگہ ایسے پکائی اور کھائی جاتی ہو۔
بنوں میں لکی گیٹ کے باہر موٹھ بیچنے والے 30 سالہ سلیمان خان کا تعلق گڑھی شیراحمدخان سے ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے خاندان کو موٹھ بیچتے ہوئے 40 سال ہوگئے ہیں مجھ سے پہلے میرے والد موٹھ بیچتے تھے پہلے یہاں مقامی لوگ موٹھ کاشت کرتے تھے لیکن اب یہاں زرعی زمینیں کم ہوگئی ہیں اس لئے بہت کم رقبے پر موٹھ کاشت ہوتی ہےجس سے بنوں کی مقامی ضرورت پوری نہیں ہوتی، اس لئے ہم یہ پنجاب بالخصوص فیصل آباد سے درآمد کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ موٹھ کی فی کلو قیمت اس وقت مارکیٹ میں 150 روپے فی کلو ہے لیکن ہمیں وہاں سے 110 روپے فی کلو کے حساب سے ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موٹھ کو ہم دن بھرپانی میں بھگو کر رکھتے ہیں اور پھر انہیں ہلکی آنچ پر پکاتے ہیں۔ اس میں مزید کچھ نہیں ڈالنا پڑتا۔ پکاتے ہوئے ساراپانی خشک کرلیتے ہیں اور جب یہ انتہائی گاڑھا یعنی تقریبا خشک ہوجائے تو مزری سے بنی مخصوص ٹوکریوں میں ڈال لیتے ہیں جس سے اس میں موجود نمی بھی رس کر نکل جاتی ہے اور موٹھ حلوے کی طرح ٹھوس شکل میں کھانے کیلئے تیار ہوجاتی ہے جنہیں سرخ مرچ، کھٹائی اورمصالحہ لگا کرلوگ شوق سے کھاتے ہیں۔ موٹھ کی قیمت کے بارے میں سلمان خان کا کہنا ہے کہ چونکہ غریب لوگوں کی قوت خرید کم ہے اس لئے ہم 110 روپے فی کلو لینے والی موٹھ کو 100 روپے فی کلو میں مرچ مصالحہ لگا کر بیچتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پکانے کے بعد موٹھ کا وزن بھی چاول کی طرح دوگنا بڑھ جاتاہے۔ موٹھ کو ہم اتنا سستا بیچتے ہیں کہ چھوٹے سے چھوٹا بچہ اور غریب سے غریب شخص بھی موٹھ کھا سکتا ہے۔ ہم کم سے کم 10 روپے تک کا موٹھ دیتے ہیں۔
جس وقت ہم سلمان خان سے بات کررہے تھے اس وقت ان کے پاس بوڑھے، بچے جوان اور خواتین بھی موٹھ خریدنے کیلئے آتے رہے۔
یاسرجان نامی ایک نوجوان نے بتایا کہ وہ گزشتہ پانچ سال سے روزانہ موٹھ کھانے کیلئے بازارآتے ہیں اور موٹھ کے ساتھ ساتھ قہوہ بھی پیتے ہیں۔ یہ صرف میری ہی نہیں بلکہ بنوں کے ہر فرد کی پسندیدہ خوراک ہے۔
بازاراحمدخان سے تعلق رکھنے والے 55 سالہ نظرعلی شاہ نے بتایا کہ جومہنگائی اورغربت اس وقت ملک میں ہے غریب کیلئے جینامشکل ہے۔ موٹھ ایک ایسی خوراک ہے جو میں یہاں10 روپے میں کھا سکتا ہوں اور 20 روپے کا خرید کرگھر لے جاتا ہوں۔ اس پکی پکائی موٹھ کو گھر میں تڑکا (فرائی) لگاتے ہیں جس سے میرے گھر میں دو وقت کا سالن آسانی سے بن جاتا ہے۔ ورنہ آج کل کی مہنگائی میں تو ایک وقت کا سالن 100 روپے میں بنانا بھی مشکل ہے۔
موٹھ بیچنے والے سلمان خان نے مزید بتایاکہ یہ بنوں کےلوگوں کی انتہائی پسندیدہ خوراک ہے اور جہاں تک ہمیں معلوم ہے موٹھ اس طرح صرف بنوں میں کھایا جاتا ہے۔ کہیں اورتو اس طرح نہیں کھائی جاتی بلکہ بنوں کے پڑوسی اضلاع میں بھی لوگ موٹھ نہ اس طرح پکاتے ہیں اورنہ اتنے شوق سے کھاتے ہیں۔ البتہ دیگراضلاع سے روزمرہ طور پر بنوں آنے والے لوگ موٹھ ضرور کھاتے ہیں۔
موٹھ کی فصل
ڈسٹرکٹ ایگریکلچرآفیسرشعبہ توسیع لکی مروت عبدالقیوم خان نے ٹی این این کو بتایا کہ موٹھ اورمونگ، دالوں کے ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔البتہ سائز، پکانے کے طریقے اور استعمال میں فرق ضرور ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ یہ جنوبی اضلاع میں کاشت کی جاتی تھی لیکن اب اس کی کاشت کم ہے۔ ہمارے اکثرلوگ اس کو مویشیوں کیلئے بطور چارہ استعمال کرتے تھے اور جب پھلی لگتی تھی تو اس کو بطور دال استعمال کرتے تھے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ مردان اور چارسدہ کے لوگ اس کومئی کے نام سے پکارتے ہیں اور وہاں کی مرغوب غذا چاول (غٹے وریجے) میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھڑی پکانے میں موٹھ کافی زیادہ استعمال ہوتی ہے۔
موٹھ کی غذآئیت
موٹھ کی دال میں وٹامنز اور منرلز کافی مقدارمیں پائی جاتی ہے، یہ غذائیت سے بھرپورہے۔ 100گرام موٹھ میں تقریباً 106 کیلوریز، 0.4 گرام چکنائی، 7گرام پروٹین، 7.7گرام فائبر، 19.35گرام کاربس میگنیز، میگنیشیم، وٹامن بی 1، فاسفورس، آئرن، کاپر، پوٹاشیم، زنک اور کئی وٹامنز پائے جاتے ہیں۔
جرنل ہیومن اینڈ ایکسپیریمنٹل ٹاکسی کولوجی میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں بتایاگیاہے کہ لوبیا اور ہرقسم کی دالیں ایل ڈی ایل کولیسٹرول گھٹاتی ہیں چونکہ موٹھ کی دال میں اینٹی آکسیڈنٹس پائے جاتے ہیں اس لئے اس کے اثرات پورے جسم پر مرتب ہوتے ہیں۔
میگنیشیئم کی مناسب مقدار جسم میں موجود ہونے کی وجہ سے دل کے دورے اور فالج سے بچا جا سکتاہے اور موٹھ کی دال میں میگنیشیئم کی کافی مقدارپائی جاتی ہے۔
میگنیشیئم سے متعلق کئے گئے ایک مطالعہ میں 40سے 79 برس کے 58ہزار افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جس سے معلوم ہوا کہ میگنیشیئم کی مناسب مقدار دل اور فالج کے دورے کے خطرات کو51 فیصد تک کم کرسکتی ہے۔
اگرانسان کے جسم میں کولیسٹرول کی مقدارایک خاص حد سے بڑھ جائے تو انسان بہت سی دائمی بیماریوں بالخصوص دل کی بیماری کو پیدا کرنے کا سبب بنتاہے۔ اورموٹھ کی دال جسم کے بُرے کولیسٹرول کوکم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
موٹھ کی دالوں میں 25فی صد سے زیادہ پروٹین ہوتی ہے جو غذائی طور پر گوشت کا بہترین نعم البدل ہے۔ اس میں آئرن کی خاص مقدار اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق موٹھ ایک صحت بخش غذا ہے۔ موٹھ کی دال جس طرح بنوں میں کھائی جاتی ہے خیبر پختونخوا کے دوسرے علاقوں میں اس طرح نہیں کھائی جاتی۔