سیلاب زدگان: فراڈیوں کی سمجھو عید ہو گئی
رانی عندلیب
گرمی کے مہینوں میں اگست کا مہینہ کچھ زیادہ ہی گرم ہوتا ہے۔ لوگ گرمی سے نڈھال ہو کر بارش کی دعا مانگتے ہیں یہ سوچے بنا کہ اس میں ہمارے لیے خیر ہو گی بھی یا نہیں۔ اور بعض اوقات ایسا ہو بھی جاتا ہے کہ دعا قبول ہو جاتی ہے لیکن بارش اپنے ساتھ سیلاب کی شکل میں ایک بڑی مصیبت لے آتی ہے۔ ایسی بارشیں رحمت نہیں بلکہ زحمت بن جاتی ہیں، خاص کر غریب عوام کے لیے۔
حالیہ بارشوں سے جو سیلاب آیا اس سے پورا ملک متاثر ہوا۔ لیکن جو تباہی دیہاتی علاقوں میں ہوئی، ہمارے اور اڑوس پڑوس، عزیز اور رشتہ داروں کا جو مالی نقصان ہوا اس کا ازالہ ائندہ پانچ دس سالوں میں بھی شاید ممکن نہ ہو
دوسری طرف فراڈ کرنے والوں کی تو سمجھو عید ہو گئی۔ بعض لوگوں نے ان سیلاب زدگان کی مدد کے نام پر فنڈ جمع کیے تو کسی نے مالی امداد بٹوری، کچھ لوگ تو گلی گلی، گھر گھر جا کر چندہ اکٹھا کرتے رہے جبکہ جعلی اکاؤنٹ تو ہر کسی نے بنائے ہیں۔ ہماری گلی کے چند بے روزگار نوجوان بھی اس ”کارِخیر” میں پیش پیش رہے، جنہوں نے سیلاب کے نام پر پیسے جمع کر کے ہڑپ لیے۔
ان لوگوں کو اللہ کا خوف بھی نہیں۔ اگر ہم خود سیلاب زدگان کی مدد نہیں کر سکتے تو ان کا حق کیسے کھا سکتے ہیں۔ یہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جن کا ضمیر مر چکا ہو۔
ایسے لوگ سیلاب کو مال غنیمت اور لوٹ مار کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ حکومتی سطح پر اور متعلقہ جتنے بھی ادارے ہیں سب کی جانب سے سیلاب زدہ علاقوں میں لوگوں کو امداد پہنچانے کا سلسلہ ہنوز جاری ہے، حکومت ان فراڈیوں کے خلاف بھی اگر کوئی کارروائی کر لے تو میرے خیال میں یہ بھی سیلاب زدگان کیلئے ایک ریلیف، ایک بڑی امداد قرار دی جا سکتی ہے۔
کیونکہ چہار سو سیلاب متاثرین کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ جاری ہے، ڈاکو امدادی کارکنان کے بھیس میں متحرک ہو گئے ہیں جو سیلاب زدگان کے نام پر پیسہ اور اشیا اکٹھی کر رہے ہیں۔ ہر جگہ سے یہ شکایات مل رہی ہیں کہ تمام امداد جو پیسوں اور اشیاء کی صورت میں ہیں، وہ متاثرین تک نہیں پہنچ پا رہی، لوگ صحیح اور فراڈیوں میں پہچان نہیں کر پا رہے کہ اپنی زکوۃ اور صدقات کس کو دیں۔
لوگ غریبوں کی مدد کرنے کی بجائے خود سیلاب زدگان کے نام سے فنڈ اکٹھا کر کے پھولے نہیں سما رہے۔ یہ کتنے دکھ کی بات ہے۔ افسوس بھی اسی بات کا ہے کہ جب اپنے ملک کے لوگ اپنے ہی مستحق بھائیوں کا حق مزے سے کھا رہے ہیں تو کسی اور سے کیا شکوہ!