ایدھی و مدر ٹریسا: ایسے ہی بے لوث انسانوں کے دم سے دنیا قائم ہے
حمیرا علیم
نیلے بارڈر والی سفید سوتی ساڑھی میں ملبوس جھریوں بھرا پرنور اور مسکراتا چہرہ مدرٹریسا کا ہے جنہوں نے بیسویں صدی میں اپنی زندگی انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی۔ انہوں نے پچاس برس بلاتخصیص رنگ و نسل اور مذہب انسانیت کی خدمت کی۔ ان کی خدمات کا اعتراف عالمی سطح پر کیا گیا، پوپ روم نے انہیں بابرکت قرار دیا۔ "مشنیریز آف چیریٹی” کی بانی کو 1997 میں امن کا نوبل پرائز دیا گیا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے 2012 میں 5 ستمبر کو بطور مدر ٹریسا کے یوم وفات منانے کی قرارداد منظور کی۔ اور 2013 سے یہ دن منایا جا رہا ہے۔
ایگنس 26 اگست 1910 کو مقدونیہ کے قصبے سکوپئے میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین اپنے بچوں کو غریبوں کی مدد کرنے کی تحریک دیتے تھے۔ 1918 میں والد کی وفات کے بعد والدہ گھر کی کفیل بنیں۔ وہ ایگنس کو اکثر بیمار اور بوڑھے لوگوں سے ملانے لے جاتیں اور سمجھاتیں: "جب تم کوئی نیک کام کرو تو صلے کی امید نہ رکھو یوں سمجھو تم سمندر میں کنکر پھینک رہی ہو۔” ان باتوں نے ننھی ایگنس کو خاموش طبع اور عبادت گزار بنا دیا۔ بارہ برس کی عمر میں اس نے نن بننے کی خواہش ظاہر کی اور راہباؤں کے گروپ میں شمولیت اختیار کر لی جو لوریٹو کلکتہ میں کام کر رہا تھا۔ انہوں نے انگریزی، ہندی اور بنگال سیکھی اور چرچ کے اسکول میں یورپی اور ہندوستانی لڑکیوں کو تعلیم دینے لگیں۔
1931 میں انہوں نے سینٹ تھریسے کی نسبت سے ٹریسا نام اپنایا۔ وہ چرچ کے ساتھ رہنے والے غریبوں کی مدد کرنا چاہتی تھیں مگر قواعد و ضوابط اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ 1946 کے ہندو مسلم فسادات کے دوران قتل و غارت دیکھ کر ان کا جذبہ مہمیز ہوا۔انہوں نے چرچ چھوڑ کر انسانیت کی خدمت کا فیصلہ کیا۔ جس پہ 1947 میں چرچ نے انہیں نن رہتے ہوئے اس بات کی اجازت دے دی کہ وہ غریبوں کی مدد کریں۔ دسمبر 148 میں انہوں نے پٹنہ میں میڈیکل مشنری سینٹر سے تین ماہ کی ٹریننگ لی اور کلکتہ میں "لٹل سسٹرز آف دی پورز” کے ساتھ کام کیا جو بوڑھوں کو سہارا دیتی تھی۔ ساتھ ساتھ 40 بچوں کو ایک میدان میں پڑھانے بھی لگیں۔
1949 میں انہوں نے ہندوستانی شہریت اختیار کر لی۔ اور مائیکل نامی استاد کے گھر میں 1950 میں ‘مشنیریز آف چیریٹی’ کی بنیاد رکھی۔ جب امداد ملنی شروع ہوئی تو ‘ہوم فار ڈائنگ’ کے نام سے مردوں کو دفنانے کا ادارہ بنا لیا۔ پھر ‘نرمل ہرائیڈے’ بنایا جہاں قریب المرگ لوگوں کی دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ مسلمانوں کو مرنے سے پہلے قرآن پڑھایا جاتا تھا اور ہندوؤں کو گنگا جل دیا جاتا تھا۔ 12 راہباؤں سے شروع ہونے والا ادارہ 450 تک اور دائرہ کار 137 ممالک تک جا پہنچا۔
ان کے تعلقات امریکی، روسی، جرمن اور فلسطینی سربراہان کے ساتھ ساتھ اندرا گاندھی، بنگالی وزیراعلٰی جیوتی بسو کے ساتھ بھی تھے۔ اس کے باوجود وہ نہایت سادہ زندگی گزارتی تھیں۔ ان کی ساتھی سیتا کماری بتاتی ہیں: "ان کے پاس صرف تین ہی ساڑھیاں تھیں جنہیں وہ زندگی کے آخری دنوں تک خود دھوتی رہیں۔ غریبوں کے واش روم خود دھوتی تھیں۔ کھانے میں کھچڑی، دال اور دس بیس دن میں ایک بار مچھلی کھاتیں۔ لیکن ادارے سے باہر وہ کسی سے پانی کا گلاس بھی قبول نہیں کرتی تھیں۔
انہوں نے نوبل انعام کی تقریب کے بعد اپنے لیے منعقدہ ضیافت کو منسوخ کر کے پیسے کلکتہ کے غریبوں کی فلاح و بہبود کے لیے دینے کا کہا۔ چار پانچ گھنٹے کی نیند ان کے لیے کافی ہوتی تھی۔ اگر رات 12 بجے بھی فون آتا تو وہ خود اٹھاتیں۔ کسی معاون کی مدد نہ لیتی تھیں۔ صبح ساڑھے پانچ بجے بیدار ہو کر رات گئے تھے کاموں میں مشغول رہتیں۔
بلا کی بذلہ سنج تھیں، سنجیدہ کاموں کے دوران بھی ہنستی مسکراتیں اور لطیفے سناتی رہتی تھیں، وہ کہتی تھیں: "میں اداس چہرے کے ساتھ غریبوں کے پاس نہیں جا سکتی مجھے ان کے پاس خوش چہرے کے ساتھ جانا ہوتا ہے۔”
میں 35 سال ان کے ساتھ رہی مگر کبھی کسی کو ڈانٹتے یا اس پہ چیختے نہیں سنا۔ ان کا کہنا تھا: "گناہ سے نفرت کرو گناہ گار سے نہیں۔ 5 ستمبر رات ساڑھے نو بجے ان کا انتقال ہوا۔”
انہیں ہندوستان کی عبدالستار ایدھی کہا جائے تو کچھ غلط نہ ہو گا۔ ایدھی صاحب کی والدہ نے انہیں بچپن سے ہی دوسروں کی۔مدد اور ان کے ساتھ چیزیں شیئر کرنے کا درس دیا۔ انہوں نے بھی ایک چھوٹے سے کمرے سے ایدھی فاونڈیشن کی ابتداء کی اور دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس بنا دی۔ ایدھی فاونڈیشن کی شاخیں تمام دنیا میں پھیلی ہیں۔ ہسپتال اور ایمبولینس سروس کے علاوہ کلینکس، زچہ بچہ سینٹرز، یتیم خانے، نرسنگ ہومز، اولڈ ہاوسز، کورسز سینٹرز اور لاوارث لاشوں کو دفنانے کا کام بھی کیا جاتا ہے۔
ایدھی صاحب نہ صرف یتیم بچوں کو اپنا نام دیتے تھے بلکہ اپنے بچوں کی طرح ان کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے۔ لاوارث تعفن زدہ لاشوں کو خود غسل دیتے تھے۔ نہایت سادہ مزاج شخص تھے، ساری زندگی کھدر کے خاکی لباس میں گزار دی۔ انہیں دنیا بھر سے ایوارڈ اور اعزازت سے نوازا گیا۔ دنیا بھر میں جہاں کہیں ضرورت ہوتی ایدھی فاونڈیشن وہاں پائی جاتی ہے۔ ایسے ہی بے لوث اور بے غرض انسانوں کے دم سے دنیا قائم ہے۔