محمد سہیل مونس
ہمارے ملک کا تعلیم کے لئے مختص بجٹ ہی ملاحظہ کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے کرتا دھرتا اس قوم کے مستقبل کی بہتری کے لئے اور معماران وطن کی اعلیٰ تعلیم کے لئے کتنے فکرمند اور سنجیدہ ہیں۔ اب ذرہ ان سے نیچے کی مسندوں پر براجمان زمینی خداؤں پر نظر ڈالیں تو کیا کچھ نہیں ہوتا، اس ضمن میں، میں بلوچستان کے اس مردہ ضمیر پروفیسر کی جانب اشارہ بھی کرتا چلوں گا جس کا اسکینڈل ہر خاص و عام نے ملاحظہ کیا تھا۔
اس طرح کی کہانیاں سندھ کی درسگاہوں سے لے کر خیبر کی درسگاہوں تک گاہے بہ گاہے ملتی ہیں جنہیں سن کر باضمیر افراد کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں؛ طالبات کو ہراساں کرنا، ان کو اچھے نمبروں میں پاس کرنے کا لالچ دے کر بہلا پھسلا کر گناہوں کی دلدل میں دھکیلنا شامل ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی غیراخلاقی اور غیرقانونی کام ہوتے رہتے ہیں مثلاً درسگاہوں میں فیورٹ ازم کا رواج ہونا، اساتذہ کے منظور نظر افراد کا اچھے نمبرز آنا اور قابل لیکن سیدھے طلباء کے منبروں میں کمی بیشی کرنا۔ اس طرح کی کئی غلاظتوں سے پُر اس تعلیمی نظام میں قابل ترین افراد کا آگے بڑھنا اور بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرنا ایک مشکل ترین عمل ہے جس سے ہر طالب علم گزرتا ہے۔
میں اگر اس تحریر کے توسط سے اپنے ہی فرزند کا ذکر کرتا چلوں تو ان کی بیماری کی وجہ سے ان کے جامعہ پشاور کے انٹرنل امتحان کا ایک پرچہ غیرحاضری کی نذر ہو گیا لیکن جب اس امتحان کا نتیجہ آیا تو ان کے اس پرچہ میں 27 نمبرز تھے اور وہ اس پرچہ میں فیل قرار دیئے گئے تھے، میں اگر چاہوں تو ان کے میڈیکل رپورٹس لے کر ان کے خلاف آج بھی قانونی چارہ جوئی کر سکتا ہوں لیکن اس ملک کی کون سی چیز صحیح سلامت ہے کہ رہا تعلیمی نظام!
اب چند دن پیشتر ایک عزیز کی بیٹی کا مسئلہ سنا جو شہید بینظیر بھٹو وومن یونیورسٹی پشاور میں زیرتعلیم تھیں۔ بقول ان کے فائنل امتحانات کے بعد یہ قضیہ اٹھ کھڑا کیا گیا ہے کہ چھٹے سمسٹر میں ان کی پولیٹیکل سائنس کے پیپر میں ایک یا دو نمبرز کم تھے لہذا اب ان کو نہ سنا جا رہا ہے اور نہ ان کا مسئلہ حل کیا جا رہا ہے۔
اس جامعہ کے سٹاف بارے یہ بھی مشہور ہے کہ طالبات کو یہ تک کہا جاتا ہے کہ آپ نے پڑھ کر کون سا تیر مار لینا ہے، شادیاں کرو اور بچے پیدا کرو۔ اب آخری حل کئی ماہ کی درخواستوں اور عرضیوں کے بعد یہ نکلا ہے کہ جامعہ ان سے دوبارہ اس سمسٹر کا امتحان لے گی ورنہ ڈگری ایشو نہیں کرے گی۔ اس قصے میں اب نیا موڑ یہ آیا ہے کہ طالبہ کے والد نے جامعہ کو لیگل نوٹس بھجوا دیا ہے دیکھتے ہیں کہ کیا ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ ایک عدد مزید واقعہ ایڈوڈز کالج میں ایچ این ڈی پڑھنے والوں کے ایک بیچ کا بھی ہے جس کے ساتھ اس ڈیپارٹمنٹ کے ایچ او ڈی صاحب نے ایسا رویہ روا رکھا کہ اس تمام کے تمام بیچ میں گنتی کے چند طلباء ہی اپنی ڈگری لے سکے، یہ قصہ بھی اسی طالبہ کے قصے سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس بیچ کے کئی بچے فائنل سمسٹر تک تو گئے لیکن ان کے پچھلے سمسٹرز کے اسائنمنٹس ابھی تک نامکمل تھے۔ اس غیرذمہ داری کے مرتکب افراد میں سے اگر ایک جانب طلباء کو کھڑا کیا جا سکتا ہے تو دوسری جانب متعلقہ ڈیپارٹمنٹ کا سارا عملہ بھی سزا کا مستحق ہے کیونکہ ان بچوں کا مستقبل تو داؤ پر لگ گیا اور وہی لوگ دیگر تمام اساتذہ کی طرح مزے سے تنخواہیں اور مراعات لے رہے ہیں۔
اب اگر ایک ملک کے تعلیمی اداروں کی سنجیدگی کاعالم یہ ہو تو اس ملک کے مستقبل کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں، ہمیں بحیثیت قوم یا والدین اس طرح کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے اپنی اولاد کو اس درندگی سے بچانا ہو گا۔ اس تحریر کے توسط سے میں محکمہ تعلیم اور ہائر ایجوکیشن کمیشن سے مطالبہ کروں گا کہ وہ ان چیزوں کا نوٹس لیتے ہوئے تعلیمی اداروں کی ساکھ خراب کرنے والے افراد اور انتظامیہ کے خلاف بھرپور قسم کا ایکشن لیں اور ان کالی بھیڑوں کو اس نظام میں سے نکال باہر کریں جو معماران وطن کی راہ میں روڑے اٹکانے کی سعی کرتے ہیں۔
ہم نے اگر درخشاں مستقبل کے صرف خواب ہی اپنی آنکھوں میں سجانے ہیں اور اس طرح کے واقعات پہ آنکھیں بند رکھنے کا وطیرہ ہی اپنائے رکھنا ہے تو ہم کسی خوش فہمی میں پڑے ہیں کیونکہ زندگی یہ نہیں کہ کما لیا اور کما کر بچوں کو نام کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں صبح سویرے چھوڑ دیا، نہ تو پڑھائی کے سولہ سال ان سے کچھ پوچھا نہ کوئی بات کی کہ بچے آپ کی درسگاہ میں ہو کیا رہا ہے، آپ کی پڑھائی کیسے چل رہی ہے؟
ہم تو کولہو کے بیل کی طرح صبح سے شام تک ایک ہی مدار میں گھوم رہے ہوتے ہیں، صبح ہوئی، ناشتہ کیا اور پھر کام پر پہنچنا، وہاں سے شام ڈھلے گھر آنا اور کھانا کھا کر نئے دور کے گیجٹس میں گم ہو جانا اور پھر اگلی صبح یہی گردان، اگرچہ یہ زندگی نہیں بقاء کی جنگ ہے لیکن جنگ کے دوران اور بھی کئی ایک کام کرنا پڑتے ہیں جن کو ہم بھول بیٹھے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اپنے بچوں پر صرف خرچ نہ کرو ان کے لئے تھوڑا سا وقت نکال کر ان سے باخبر رہنے کی بھی کوشش کرو۔ ہماری نسلیں کیوں زندگی سے بے زار ہو رہی ہیں، اگر ایک جانب کوئی راہنمائی کرنے والا نہیں تو دوسری جانب ہماری درسگاہوں میں طوطے کی طرح رٹی رٹائی چیزیں پڑھا کر ان کو آئنسٹائن بنانے کی لاحاصل کوششیں ہوتی ہیں اور وہ اس عمل سے بددل ہو کر طرح طرح کے جھمیلوں میں پھنس جاتے ہیں۔
آخر میں صرف اتنا ہی کہ استاد والدین کا روپ ہوتے ہیں، خدارا! قوم کے بچوں کو اپنے بچے سمجھ کر ان کی راہنمائی کریں، کیا خبر کون سا شاگرد کس وقت کسی آڑے وقت آپ کے کام آئے۔