قدرتی آفات، حکومت پر تنقید اور ذخیرہ اندوزی
حمیرا علیم
پاکستانی من حیث القوم اپنی غلطیوں کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہرانے اور ہر وقت حکومت کو کوسنے کے اتنے عادی ہو چکے ہیں کہ اپنے گریبانوں میں جھانکنے اور آئینہ دیکھنے کی فرصت ہی نہیں ملتی۔ ہر گروپ، اخبار، چینل اور ڈرائنگ روم ڈسکشن کا ہاٹ ٹاپک حکومت کا متاثرین سیلاب کو مدد نہ پہنچانا اور احتیاطی تدابیر نہ کرنا ہے۔
ہم زبانی کلامی تو یہ اعتراف کر لیتے ہیں کہ قدرتی آفات ہمارے گناہوں کا نتیجہ ہیں مگر اپنے آپ کو نہ تو گناہگار مانتے ہیں نہ ہی اپنے گناہوں کا احساس کرتے ہیں نہ ہی ان پہ توبہ کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ سے معافی مانگتے ہیں۔
کسی بھی قدرتی آفت یا وبا کے دوران ہمارا رویہ اس کا واضح ثبوت ہے جونہی کرونا پھیلا، زلزلہ آیا، سیلاب آیا سب سے پہلے تمام تاجروں نے ہر چیز کے نرخ کئی گنا بڑھا دئیے۔ چیزیں ذخیرہ کر کے مارکیٹ میں مصنوعی قلت پیدا کی گئی تاکہ مہنگی بیچی جا سکیں۔ سندھ میں پلاسٹک کی 12 روپے فٹ والی شیٹ 60 سے 80، بلوچستان میں 250 سے 300 میٹر ہو چکی ہے۔ شیلٹر ٹینٹ جو 4000 کا تھا اب 15000 کا بک رہا ہے۔گیس جو 220 کلو تھی 700 روپے کلو ہو چکی ہے، ٹیکسیز، کوچز، رکشوں کے کرایوں میں اضافہ ہو چکا ہے۔پانی کا ٹینکر جو عام دنوں میں 1500 سے 2000 کا ملتا تھا اب اول تو مل نہیں رہا کہ سیلاب کے باعث کھمبے گر چکے ہیں اور بجلی منقطع ہے دن میں اور رات میں آدھے گھنٹے کے لیے آتی ہے تو ٹیوب ویل چلانا ممکن نہیں دریا اور ڈیم سیلابی پانی سے بھرے ہیں اگر خوش قسمتی سے مل بھی جائے تو 3000 سے 4000 کا ہے۔
گیس اور بجلی کی عدم دستیابی کے باعث جب لوگ لکڑیوں کے ٹال کا رخ کرتے ہیں تو جو لکڑی سیلاب سے پہلے 3000 کی پانچ من تھی اب 3000 کی دو من مل رہی ہے۔ 300 کا 5 کلو پیاز 1200 کا ہو گیا ہے۔ نان جو پورا 25 روپے کا تھا اب آدھا 40 کا ہے۔ سالن بھی مہنگا ہو چکا ہے۔ بلوچستان کے باشندوں کے خاندان کم از کم 15 سے 36 افراد پہ مشتمل ہیں۔اگر ایک وقت کے نان ہی بازار سے منگوائے جائیں تو گزارا کیسے ہو گا؟ اس پہ مستزاد یہ کہ بیشتر ہوٹلز اور تندور بند ہیں کہ رستے بند ہیں اور گیس نہیں آ رہی تو ہوٹلز کیسے چلیں گے۔گیس ایجنسیز کا بھی یہی حال ہے۔
اور چھوڑیے کچھ علاقوں میں جب سیلابی ریلا آیا تو بجائے اس کے کہ لوگ توبہ استغفار کرتے اور محفوظ مقام پہ پہنچنے کی کوشش کرتے وہ مچھلیاں پکڑنے اور لکڑی چننے کے لیے وہاں پہنچ گئے۔ یہ خبر پڑھتے ہوئے مجھے اہل سبت کی یاد آ گئی۔بعض علاقوں میں ایسے افراد بھی تھے جنہوں نے خطرہ دیکھنے کے باوجود گھر نہیں چھوڑا اور جب سیلابی پانی چڑھ گیا تو دوسروں کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالا۔
انہیں بچانے کے لیے لوگ پہنچے تو انہوں نے جانے سے انکار کر دیا۔بمشکل سمجھا بجھا کر جب مردوں کو منتقل کیا گیا تو وہ اڑ گئے کہ ان کی خاتون اس میت گاڑی میں نہیں بیٹھے گی۔ان کے اس عمل سے مجھے لگا جیسے وہ خاتون کو بچانا ہی نہیں چاہتے تھے ورنہ سب سے پہلے انہیں ہی بھیجتے ۔ جس میت گاڑی میں بیٹھ کر وہ خود محفوظ مقام تک پہنچے تھے اسی میں خاتون نہیں بیٹھ سکتی اس کی کوئی لوجک نہیں تھی۔بہرحال یہاں بھی ڈنڈا پیر کام آیا اور انتظامیہ کے دھمکانے پر کہ اگر خاتون کو نقصان پہنچا تو اہل خانہ پہ مقدمہ کردیا جائے گا وہ مان گئے اور یوں خاتون کی زندگی بھی بچا لی گئی۔
ایک آدھ جگہ پہ ایسے بے فکرے بھی تھے جن کے کمرے سیلابی پانی سے بھر رہے تھے مگر وہ ٹی وی پہ فلم دیکھنے میں مگن تھے۔شاید ایسے ہی لوگوں کے لیے فرمان ربی ہے کہ:” متاثرین سیلاب کے لیے بھیجی جانے والی امداد امراء اور صاحب حیثیت لوگ لے جاتے ہیں اورمستحقین بے چارے بے یارومددگار ہیں۔کچھ این جی اوز اور فلاحی اداروں کے علاوہ سب مال ہڑپ کر جاتے ہیں اور کوئی پرسان حال نہیں۔بڑے بڑے نامور لوگ بھی اس کرپشن میں ملوث ہیں۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ان سب کو حکومت نے فورس کیا ہے کہ آپ نرخ بڑھا دیں اور یہ کرپشن کریں؟؟؟؟ دوسروں کے کندھے پہ رکھ کر بندوق چلانے کی بجائے اپنے اعمال کی ذمہ داری لینا سیکھیں اور جان لیں کہ سب قدرتی آفات ہمارے اپنے اعمال کی سزا ہیں۔زیارت کے باشندے بے حد امیر کبیر ہیں پھلوں کے باغات ، پہاڑوں اور کانوں کے مالک ہیں مگر جب رمضان آتا ہے یا زکوۃ کی ادائیگی کا وقت ہوتا ہے تو یہ ایک دوسرے کو کروڑوں کا قرض دے کر بہانہ بنا لیتے ہیں کہ ہم پہ تو قرض ہے ہم زکوۃ کی ادائیگی کے مکلف نہیں۔
راولپنڈی کی قدیم اور بہت بڑی مارکیٹ راجہ بازار میں ہر چند سالوں کے بعد آگ لگ جاتی ہے اور ہر چیز جل کر تباہ و برباد ہو جاتی ہے۔وجہ یہاں بھی زکوۃ اور ٹیکسز کی عدم ادائیگی اور ناجائز منافع خوری ہے کراچی میں تو ذرا سی بارش ہی سیلاب کا سماں پیدا کر دیتی ہے اور پورا شہر ڈوب جاتا ہے۔وجہ ہمارا دریاوں، نہروں اور ندی نالوں کے اندر گھر اور مارکیٹس بنا لینا کچرہ گھر سے اٹھا کر باہر نالی میں پھینک دینا ہے۔اس سب کا نتیجہ بھی پھر ہم ہی بھگتتے ہیں جب دریا ، نہریں، ندی نالے پانی سے بھرتے ہیں اور رستہ نہ پا کر ہمارے گھروں میں گھس آتے ہیں۔
تمام سرکاری محکموں میں کام کرنے والا عملہ عوام میں سے ہی ہے مگر جہاں جس کا داو چل جائے وہ کام دکھا جاتا ہے۔ اے جی آفس میں بوڑھے غریب پینشنرزاور بیوائیں دھکے کھاتے نظر آتے ہیں کہ کلرک اور آفیسر صاحبان کی ڈیمانڈ یا تو ہاف پیمنٹ ہے یا پھر کوئی تگڑی سفارش جس کی وجہ سے یہ رشوت دو تین لاکھ تک کم ہو سکے۔ٹرینز کے گارڈزاور پولیس ٹکٹس بیچ کر رقم اپنی جیب میں ڈال لیتے ہیں آفیسرز ریلوے کی زمین کرائے پہ دے کر لاکھوں کماتے ہیں سلیپرز تک بیچ دئیے جاتے ہیں۔
سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کے پی اے یا ریسپشن پہ بیٹھے کلرک خدا بنے ہوئے ہوتے ہیں۔ درد سے بے حال مریضوں کو کسی جانور کی طرح دھتکارتے ہیں ۔ڈاکٹرز 10 بجے ہاسپٹل آ کر گیارہ بجے تک چائے نوش فرماتے ہیں پھر ایک راؤنڈ وارڈ کا لگا کر 12 ایک بجے اپنے کلینک چلے جاتے ہیں۔جہاں وہی مریض 2 سے پانچ ہزار فی میں نمٹاتے ہیں جن پہ سرکاری ہاسپٹل میں ایک نگاہ غلط ڈالنا بھی گناہ سمجھتے ہیں۔ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے تو کلرک بھی بابو کہلاتے ہیں۔ہر محکمے میں کلرک بادشاہ ہے اسے راضی رکھیں تو آپ کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا ہے اس سے دشمنی آپ کی زندگی تباہ کر سکتی ہے۔
ناجائز منافع خوری، ہر شعبے میں کرپشن، حرام کی بہتات اور گناہ کا احساس نہ ہونا اپنی غلطی کی معافی نہ مانگنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے لیکن موردالزام ہم چیز کے لیے حکومت کو ٹھہراتے ہیں۔کیا یہ رویہ مسلمان قوم کے لیے مناسب ہے؟؟؟کیا ان سب کبیرہ گناہوں کے بعد بھی ہمیں یہ زیب دیتا ہے کہ صرف حکومت پہ طنز کر کے اطمینان سے بیٹھ جائیں؟؟؟ آج اگر سب لوگ اپنا احتساب کرتے ہوئے اپنے گزشتہ گناہوں کی معافی مانگ کر آنے والے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے آپ کو سدھار لیں۔تقوی اختیار کرتے ہوئے صدقہ کی نیت سے نرخ کم کرلیں تو یقین مانیے سب آفات ٹل جائیں گی بس کوشش شرط ہے۔