صرف لکڑی کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانا کہاں کی عقل مندی ہے؟
ارشد علی خان
حالیہ سیلابوں نے جہاں خیبر پختونخوا سمیت ملک کے دیگر علاقوں کو نیست نابود کر دیا وہیں بطور قوم سیلابوں اور قدرتی آفات کے دوران ہمارے رویے بھی آشکارہ کر دیئے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک سمیت خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع بھی سیلاب کی لپیٹ میں ہیں تاہم وہاں ہمیں وہ رویہ نظر نہیں آیا جو سوات، کالام اور بحرین کے سیلابوں کے دوران مشاہدے میں آیا۔
سوشل میڈیا پر درجنوں کے حساب سے ایسی ویڈیوز زیرگردش ہیں جن میں سینکڑوں لوگ سیلابی ریلے کا تماشہ دیکھنے یا تو پلوں پر کھڑے ہیں یا دریا کے انتہائی کنارے پر چلے گئے ہیں۔ شاید سیلابی ریلہ دیکھنے میں بھی کوئی لطف یا خوشی ہو جو ہمارے جوان اور بوڑھے سب ہی یہ لطف یا خوشی حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگیاں داؤ پر لگانے کے لیے تیار نظر آئے۔
سال 2006 میں سیلاب کے دوران مردان کا کلپانی پل ٹوٹنے سے کم سے کم 100 افراد پانی میں بہہ گئے تھے جن میں 30 سے زائد افراد اپنی جان کی بازی ہار گئے تھے۔
تقریباً تمام اضلاع کی انتظامیہ نے دریا میں نہانے یا دریا کنارے جانے پر دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے اور بعض مقامات پر انتظامیہ کو باقاعدہ لوگوں پر سختی کرنی پڑی تاکہ وہ دریا کنارے جانے سے گریز کریں تاہم پھر بھی انتظامیہ ناکام نظر آئی اور لوگ تفریح طبع کے لیے پلوں او دریاؤں کے کناروں پر کھڑے سیلابی ریلوں کے ساتھ ٹک ٹاک اور ویڈیوز بنانے کی کوشش کرتے رہے۔
بعض علاقوں میں انتظامیہ کی جانب سے ہایی الرٹ جاری ہونے کے باوجود لوگ اپنے گھر بار چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہو رہے تھے، اپنی اور اپنے اہل و عیال کی زندگیاں خطرے سے دوچار کر رہے تھے، سوشل میڈیا پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر نوشہرہ قراۃ العین وزیر جو مس وزیر کے نام سے جانی جاتی ہیں، ان کی درجنوں ویڈیوز وائرل ہیں جن میں وہ ڈنڈا ہاتھ میں لیے دریائے کابل کے کنارے آباد گھروں کو خالی کروا رہی ہیں۔
سوات، کالام اور بحرین سمیت دیگر بالائی علاقوں میں سیلابی ریلے کے دوران ایک اور رویہ بھی دیکھنے میں آیا کہ لوگ اپنی زندگی کی پرواہ کیے بغیر لکڑیاں جمع کرنے کی کوشش رہے ہیں۔
سوات، کالام اور بحرين سے آنے والے سیلابی ریلے اپنے ساتھ اچھی خاصی مقدار میں لکڑی او دیگر قیمتی سامان بھی بہا لائے جس کو پکڑنے کے لیے لوگ اپنی زندگیوں کی پراوہ کیے بغیر دریاؤں میں کودنے لگے۔ دیگر قیمتی سامان تو ایک طرف صرف لکڑی پکڑنے کے لیے اپنی زندگی داؤ پر لگانا کہاں کی عقل مندی ہے؟ ایسی درجنوں ویڈیوز نظر سے گزریں جن میں ایک ہی خاندان کے کئی افراد گروپ کی صورت میں لکڑیاں پکڑتے نظر آئے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں جب ایسے ہی ایک ایڈونچر کرنے والے صاحب سے پوچھا جاتا ہے کہ بھائی کیوں اپنی زندگی داؤ پر لگا رہے ہو تو موصوف فرماتے ہیں ایسا دن کبھی کبھی آتا ہے۔ یعنی کہ سیلاب نہ ہوا رمضان کا مہینہ ہوا جو سال میں صرف ایک بار آتا ہے اور اگر اس مہینے میں ناجائز منافع خوری نہ کی تو رمضان المبارک کی برکات سے محروم ہو کر سارا سال بھوکا رہنا ہو گا۔
میرے خیال میں سیلاب سے بپھرے ہوئے دریا میں لکڑی پکڑنے والے ضروریات زندگی پورا کرنے اور اپنی غربت ختم کرنے سے زیادہ اس کام کو بہادری سمجھتے ہیں اس لیے بے دھڑک سیلابی ریلے سے غراتے دریا میں چھلانگ لگا لیتے ہیں۔ کیونکہ اگر اپنی غربت ختم کرنے اور اپنے خاندان کو اچھی زندگی دینے کی فکر ہوتی تو سب سے پہلے وہ اپنی زندگی کی فکر کرتے نہ کہ اس طرح چند لکڑیوں کے لیے اپنی قیمتی زندگی داؤ پر لگاتے۔
بحیثیت قوم پتہ نہیں ہم کب اتنے میچور ہوں گے کہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو ایک اثاثہ سمجھ سکیں، ہماری اسی خامی کو مقتدر طبقے اور لوگ جب اور جہاں چاہیں استعمال کر لیتے ہیں پھر وہ چاہے کشمیر ہو یا افغانستان، سوات ہو یا وزیرستان!
یہ رویہ صرف ہمارے ہاں ہی کیوں نظر آتا ہے کہ ہر خطرناک کام کے لیے ہم باآسانی مان جاتے ہیں، سیلاب نے تو سندھ، پنجاب اور خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر بے وقوفی کی حد تک بہادری وہاں کا کوئی باشندہ دکھا رہا ہے نہ ہی کوئی پلوں پر کھڑے ہو کر تماشہ دیکھ رہا ہے اور نہ ہی کوئی لکڑی جمع کرنے کے لیے مرنے پر تیار بیٹھا ہے۔
بات کہیں اور نکل گئی، آج کے موضوع پر قلم اٹھانے کا مقصد صرف اور صرف یہ ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کی دی ہوئی قیمتی زندگی کو اثاثہ سمجھیں اور بے وقوفی کے کام کرنے سے گریز کریں۔ شکریہ!