آفات میں امدادی اشیاء کی تقسیم کیسے کی جائے؟
امجد قمر
اکتوبر 2005 کے زلزلے کی کوریج کے دوران بشام کے علاقے بٹیرہ میں زلزلہ زدگان کے ایک کیمپ میں جانا ہوا۔ انٹرویوز کے دوران ایک جگہ مجھے ٹین کے ڈبوں کا ڈھیر نظر آیا۔ قریب جا کر دیکھا تو ان ڈبوں میں امپورٹڈ جیم، مربے اور مختلف قسم کا شہد تھا۔ میں نے مقامی کیمپ انچارج سے پوچھا کہ یہ ڈھیر کیوں لگا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہاں کے لوگ یہ استعمال نہیں کرتے اور یہاں لا کر پھینک دیتے ہیں۔ اسی بات سے مجھے خیال آیا کہ امدادی اشیا پر ایک فیچر سٹوری بنا لوں۔
تحقیق پر معلوم ہوا کہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ چونکہ یہ چیزیں باہر کے ملک سے آئی ہیں اس لیے یہ حرام ہیں۔ جب کہ کیمپ میں موجود خواتین نے کہا کہ ہم صرف سالن، روٹی اور چاول کھاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ان ڈبوں کو کھول کر کیسے استعمال کرنا ہے۔ کھوج کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ خواتین بچوں کو ٹوتھ پیسٹ آئس کریم کے طور پر کھلا رہی تھیں۔ اور مرد منرل واٹر کو وضو کے لیے استعمال کر رہے تھے۔
اسی طرح سن دو ہزار دس سندھ میں ایک کیمپ کے دورے کے دوران میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ وہ بچے کو چمچ سے ڈیٹول پلا رہی تھی۔ میں نے اس کو فوراً روکا اور کہا کہ آپ اس کو یہ کیوں پلا رہی ہیں۔ اس نے جواب دیا کہ سامان تقسیم کرنے والوں نے بتایا تھا کہ یہ دوائی ہے۔ بچے کے پیٹ میں درد تھا اس لیے پلا رہی تھی۔ اسی کیمپ میں، میں نے سینٹڑی پیڈز کے ڈھیر دیکھے۔ خواتین پیکٹ کھول کر دیکھ رہی تھیں اور انہیں ایک ناکارہ چیز سمجھ کر پھینک رہی تھیں۔
آپ شاید یہ پڑھ کر مجھے باولا سمجھ رہے ہوں گے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بڑے انسانی حادثات میں امدادی اشیاء کو جمع کرتے اور تقسیم کرتے ہوئے مقامی حالات اور ضروریات کا خیال نہیں رکھا جاتا۔
انسانی سانحات میں اشیاء کی تقسیم کا مرکزی انتظام کرنا انتہائی اہم ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر تنظیم اور حکومتی مشینری یہ چاہتی ہے کہ ان کا زیادہ سے زیادہ کام نظر آئے۔ اس لیے عمومی طور پر ایسے علاقوں کو فوکس کیا جاتا ہے جو ایکسس میں ہوں یا جہاں تک امدادی سامان پہنچانا آسان ہو۔ اس افراتفری میں کچھ لوگوں کو ہر طرح کا سامان مل جاتا ہے لیکن کئی علاقے ایسے ہوتے ہیں جہاں تک کوئی نہیں پہنچ پاتا۔
سال دو ہزار پانچ کے زلزلے کے بعد بالاکوٹ اور مظفر آباد امداد کے سینٹر بن گئے تھے۔ لیکن اس کا نقصان یہ ہوا کہ کپڑوں سے بھرے ٹرک ان دو شہروں میں کھڑے رہتے اور کوئی لینے والا نہیں تھا۔ اسی طرح کسی علاقے میں ادویات کا ڈھیر لگ گیا لیکن کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے ایک کلسٹر سسٹم متعارف کروایا گیا جس میں ہر شعبے سے متعلقہ افراد کو ذمہ داری دی گئی کہ اپنے اپنے شعبوں میں امدادی انتظامات کو منیج کریں جیسے کہ ہیلتھ کلسٹر، ایجوکیشن کلسٹر وغیرہ۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ امدادی اداروں کے کوآرڈینیشن میں اضافہ ہوا اور امداد ہر ایک تک پہنچنے لگی۔
کلسٹر سسٹم میں میڈٰیا اور کمیونیکیشن کلسٹر بھی تھا۔ ارتھ کویک ریلیف ریڈیو ٹرانسمیشن کے ذریعے لوگ ان اداروں کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے جس سے ریلیف کا بہترین انتظام کرنے میں سہولت رہتی تھی۔
حالیہ سیلاب میں چاروں صوبوں بشمول امدادی اداروں میں کوآرڈینیشن کا بہت فقدان دیکھنے میں نظر آ رہا ہے۔ سیلاب کے ایمرجنسی ریلیف کے بعد بحالی کا کام شروع ہو گا۔ ان سارے اداروں کے امدادی کلسٹرز بنانے کی ضرورت ہے۔
اس سانحے میں میڈیا کا کردار بہت ہی مایوس کن رہا۔ سیلاب کے پہلے کچھ دن میڈیا نے نہ کوئی خبر دی نہ ہی بلوچستان کے سیلاب کو کوئی اہمیت دی۔ جب کہ دوسری طرف ڈیجیٹل میڈیا نے اپنے سٹیزن جرنلسٹ کے ذریعے بہترین کردار ادا کیا۔ اور متاثرہ افراد کی خبریں اور ویڈیوز کے زریعے صاحبان اقتدار کو متوجہ کرتے رہے۔ پھر مین سٹریم میڈیا نے بھی سیلاب کی خبریں دکھانا شروع کر دیں۔ لیکن میڈیا کا سارا کام لوگوں کے دکھ درد دکھانے تک محدود ہے۔
انسانی حادثات میں میڈیا کا کردار صرف روتے ہوئے لوگ دکھانا ہی نہیں ہوتا بلکہ لوگوں کو آنے والے حادثات سے خبردار رکھنا، اور اس رسک کو کم کرنے لیے اقدامات متعارف کروانا، ریلیف کے کاموں میں امدادی اداروں کی مدد کرنا تاکہ ریلیف سارے متاثرین تک پہنچ سکے اور اسی طرح لوگوں کو ایمرجنسی امداد کے حوالے سے آگہی دینا اور تمام ضروری رابطہ نمبروں کی معلومات بار بار دکھانا یا سنانا وغیرہ بھی میڈیا کی اہم ذمہ داری ہے تاکہ امداد کے کام میں ڈپلیکیشن نہ ہو اور سارے متاثرہ افراد تک ریلیف پہنچ سکے۔