سیلاب زدگان: خواتین کو اشیائے خوردونوش سے زیادہ سینیٹری پیڈز کی ضرورت
محمد فہیم
خیبر پختونخوا میں گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے مسلسل سیلاب نے تباہی مچا رکھی ہے؛ ڈی آئی خان اور ٹانک کو شدید حد تک متاثر کرنے کے بعد سیلاب نے چترال، سوات، دیر، ملاکنڈ، مردان، چارسدہ اور نوشہرہ کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے جس کے باعث ایک اندازے کے مطابق 2 لاکھ سے زائد افراد کو اپنا گھر چھوڑ کر کیمپوں یا رشتہ داروں کے گھر پناہ لینی پڑ رہی ہے۔ خیبر پختونخوا میں سیلاب سے متاثرہ شہریوں کی تعداد 43 لاکھ 50 ہزار سے متجاوز کر گئی ہے۔ کیمپوں میں موجود متاثرین کی مدد کیلئے گھر گھر چندہ مہم اور سڑکوں پر امدادی کیمپ لگائے گئے ہیں تاہم ان کیمپوں میں موجود خواتین کے مسائل پر کسی نے اب تک لب کشائی نہیں کی ہے۔
سماجی کارکن اور غیرسرکاری تنظیم ‘دحوا لور’ کی سربراہ شعوانہ شاہ کہتی ہیں کہ سب سے اہم مسئلہ خواتین کی ماہواری کا ہے، سیلاب سے متاثرہ علاقے دیہی ہیں اور دیہات میں اس حوالے سے خواتین اپنی والدہ اور بہنوں سے بھی گفتگو کرنے سے گریز کرتی ہیں ایسے میں سیلاب سے متاثر ہونے کے بعد کیمپ میں زندگی گزارنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے، ان خواتین کیلئے امداد کی صورت میں اشیائے خوردونوش کے ساتھ ساتھ سینیٹری پیڈز کا ہونا لازمی ہے، اس کے ساتھ ساتھ متاثرین میں بڑی تعداد حاملہ خواتین کی ہے اور ان خواتین کے ساتھ ایک اور زندگی بھی جڑی ہوئی ہے۔
شعوانہ شاہ کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین کیلئے ادویات اور خوراک انتہائی کلیدی ہیں جس کیلئے ہر ذی شعور انسان کو کردار ادا کرنا ہو گا، حاملہ خواتین کا ڈائٹ پلان تو تیار کرنا اب ممکن نہں تاہم ان کیلئے تازہ خوراک اور باقاعدگی سے ان کا طبی معائنہ کرانا لازمی ہے۔
سیلاب متاثرین کی مدد کیلئے ہر کوئی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے تاہم ان رضاکاروں میں بڑی تعداد مردوں کی ہے جو اشیائے خوردونوش پہنچانے سے لے کر ریسکیو تک کی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ متاثرین میں نصف سے زائد خواتین ہیں لیکن رضاکاروں میں خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔ مردوں کے ساتھ مسلسل رابطہ ہونے اور ان سے اشیائے خوردونوش کا مطالبہ کرنے والی متاثرہ خواتین کیلئے یہ کڑا وقت ہے، ایک انجان مرد سے مدد کی درخواست کرنا اور انجان مرد کو اپنی مشکل بیان کرنا بلاشبہ ان خواتین کیلئے آسان نہیں ہے ایسے میں خواتین رضاکاروں کی موجودگی انتہائی ضروری ہے۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر صلوئیہ علی خان کہتی ہیں کہ کیمپوں میں موجود مرد و خواتین کیلئے اس وقت غیریقینی کی صورتحال سب سے زیادہ خطرناک ہے؛ انہوں نے جس گھر کو بنانے میں برسوں لگا دیئے آج وہ گھر پانی میں ڈوب گئے ہیں، انہوں نے ایک بار پھر سے ان گھروں کو آباد کرنا ہے اور اپنی جمع پونجی اسی گھر پر لگانی ہے، ان کے سروں پر اس وقت اپنی چھت کو دوبارہ بحال کرنے کا غم سوار ہو گا۔
ڈاکٹر صلوئیہ علی خان کے مطابق اپنی پوری زندگی پردہ میں گزارنے والی آج انجان نظروں میں گھری ہوئی ہیں اور یہی خوف انہیں ذہنی دباﺅ کا شکار کر رہا ہے، کسی بھی سانحہ کے بعد کی صورتحال میں ان کی بحالی سب سے اہم ہے اور ان خواتین کو بطور گھر کے سربراہ ہونے کے سب سے زیادہ بحالی کی ضرورت ہے جو نہ صرف گھروں کی تعمیر کی صورت میں ہونی چاہئے بلکہ ان کیلئے نفسیاتی بحالی کے اقدامات کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ڈاکٹر علینہ علی شاہ نے نوشہرہ اور چارسدہ میں لگائے گئے مختلف کیمپوں میں طبی معائنے کئے ہیں؛ وہ کہتی ہیں کہ اس وقت بچوں میں سب سے زیادہ فوڈ پوائزننگ یعنی غیرمعیاری خوراک کھانے کے بعد کے مسائل سامنے آ رہے ہیں، بچوں میں پیٹ کی بیماریاں بہت زیادہ ہیں جس کی وجہ سے انہیں خصوصی معائنہ کی بھی ضرورت ہے۔
ڈاکٹر علینہ علی شاہ کہتی ہیں ”قوت مدافعت کی سب سے زیادہ کمی بچوں اور خواتین میں ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیلاب سے متاثرہ افراد میں بیماریاں سب سے زیادہ بچوں اور خواتین میں ہیں، سیلاب کا پانی اترنا شروع ہو گیا تاہم بیماریاں اب زیادہ زور سے سامنے آئیں گی جس کی بڑی وجہ اس گندے پانی کا جگہ جگہ کھڑا ہونا ہے، مستقبل میں ڈینگی، ملیریا اور اسہال کی بیماریاں ان علاقوں میں شدت سے سامنے آئیں گی جن کی روک تھام انتہائی ضروری ہے۔
ڈاکٹر علینہ علی شاہ کے مطابق مشکل کی اس گھڑی میں تمام ڈاکٹرز کا کردار مثالی رہا ہے اور انہوں نے اپنی سیاسی وابستگی ایک جانب رکھتے ہوئے صرف ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا ہے۔