ملالئی وقار: تعلیم سے محروم بچی جس نے افغان بچوں کیلئے کتاب لکھ ڈالی
امین وردگ
ملالئی وقار افغانستان کے تجربہ کار صحافی، مصنف اور سماجی کارکن حبیب وقار کی صاحبزادی ہے جو ساتویں جماعت کی طالبہ تھی۔
ملالئی روز صبح اس امید کے ساتھ سکول جاتی تھی کہ ایک دن ڈاکٹر بن کر وہ اپنے ملک اور قوم کی خدمت کرے گی۔
وہ ان افغان خواتین کے لئے زیادہ افسردہ رہتی تھی جو لیڈی ڈاکٹر اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث دوران زچگی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتی تھیں۔
یہ کم عمر لیکن عقلمند افغان بچی شہ سرخیوں کی زینت تب بنی جب اس نے ”وری او ستوری” کے عنوان سے ایک کتاب لکھ ڈالی جس پر اسے مرد و خواتین لکھاریوں کی جانب سے خوب داد دی گئی لیکن یہ خوشی دیرپا ثابت نہ ہوئی۔
ملالئی نہیں جانتی تھی کہ ایک دن وہ اپنا سکول، اپنے کلاس فیلوز، دوستوں اور تمام قریبی و دور کے رشتہ داروں کو روتے بسورتے پیچھے چھوڑ آئے گی اور اپنا دیس چھوڑ کر مہاجر بن جائے گی، لیکن بہت جلد ایسا واقعہ رونما ہوا۔
یہ دن اگست کی 15 تاریخ کو آیا جب افغانستان میں بیس سالہ پرانے جمہوری نظام کا سقوط ہوا اور اقتدار طالبان کے ہاتھون میں آیا۔ اس دن نے ملالئی کی طرح ہزاروں افغان بچیوں کی توقعات اور ارمانوں کو مٹی میں ملا کر خاک کر دیا۔
اس دن ہمیشہ کی طرح صبح سویرے افغان بچیاں سیاہ قمیص اور سفید چادر اوڑھے اپنے اپنے سکول گئیں لیکن بہت جلد پرنم آنکھوں کے ساتھ گھروں کو لوٹ آئیں، طالبان نے اقتدار کے پہلے ہی روز لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد کر دی، ان لڑکیوں میں سے ایک ملالئی وقار بھی تھی جس سے تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا گیا تھا، حالات ایسے ہو گئے کہ وہ سکول جا کر اپنا سلسلہ تعلیم جاری و ساری نہیں رکھ سکتی تھی۔
لیکن ملالئی کے والد حبیب وقار نے اپنی بیٹی کی امیدوں کو پورا کرے کیلئے بہت جلد ایک تھکا دینے والے اور مشکلات سے بھرے سفر کا عزم کر لیا اور اپنے خاندان کے ہمراہ کافی سختیاں جھیل کر قندہار اور کوئٹہ کے راستے پشاور چلے آئے لیکن قسمت نے یہاں بھی یاوری نہیں کی۔
حبیب وقار ایک کہنہ مشق صحافی تھے، افغانستان کے مختلف میڈیائی اداروں کے ساتھ کام کر چکے تھے، انہوں نے کینیڈا کے ویزے کے لئے درخواست دی اور پشاور میں ایک کٹھن سال گزارنے کے بعد کینیڈا شفٹ ہو گئے۔
ملالئی اپنی باقی ماندہ زندگی اپنے دیس سے دور اس امید پر گزارے گی کہ شاید کسی روز وہ اپنے ارمان پورے کر لے گی لیکن ملالئی کی طرح ہزاروں افغان بچیاں اس امید پر دن رات بسر کر رہی ہیں کہ کسی دن ان کے سکول کھلیں گے اور وہ ایک بار پھر اپنا سلسلہ تعلیم شروع کر سکیں گی۔
طالبان حکومت کو ایک سال پورا ہو گیا لیکن لڑکیوں کے سکول آج بھی بند ہیں۔ اگرچہ طالبان نے یہ وعدہ ضرور کیا ہے کہ وہ ایک پالیسی وضع کر کے لڑکیوں کے سکول کھول دیں لیکن آج ایک سال گزرنے کے بعد افغان عوام ان سے مایوس ہو چکے ہیں، اب یہ افغانوں کے لئے ایک خواب ہی ہے کہ کسی دن ان کی بچیاں ایک بار پھر سکول جائیں گی۔
حال ہی میں طالبان میں سے بعض حلقوں نے بھی اس امر پر افسردگی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کے بس میں ہوا تو آج ہی وہ لڑکیوں کے تمام سکول کھول دیں گے، لیکن بقول ان کے یہ ان کے سربراہ کا حکم ہے۔
ایسے طالبان میں سے ایک تحریک کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد بھی ہیں جنہوں نے حال ہی میں ایک نشست میں اس امر کا اعتراف کیا کہ لڑکیوں کے بند سکولوں پر وہ بہت دکھی ہیں اور اگر ان کا بس چلے تو کل ہی لڑکیوں کے تمام سکول کھول دیں گے۔
طالبان کے خارجہ امور کے معاون وزیر شیر محمد عباس ستانزئی اور وزارت بجلی کے معاون فاروق اعظم نے وقتاً فوقتاً طالبان حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور لڑکیوں کے سکول کھولنے کا مطالبہ کیا ہے۔