ملک بھر میں سیلاب سے 820 افراد جاں بحق، 5 لاکھ مویشی سیلاب کی نذر
محمد فہیم
ملک بھر میں بارشوں اور سیلاب کی صورتحال قابو ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، رواں برس مون سون کا شکار سب سے زیادہ بلوچستان رہا ہے جبکہ خیبر پختونخوا، سندھ اور پنجاب کے مختلف علاقے بھی بارش اور سیلاب سے اس قدر متاثر ہوئے کہ منتخب حکومتیں اس قدرتی آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے تیار ہی نہیں تھیں۔ جون کے وسط میں بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا اور تب سے لے کر اب تک مسلسل بارشیں اور سیلاب کی رپورٹس ہی سامنے آ رہی ہیں۔
نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے اعدادوشمار کے مطابق جون کے وسط سے لے کر اب تک ملک بھر میں 820 افراد کے جاں بحق ہونے کی تصدیق ہوئی ہے جبکہ انہی بارشوں اور سیلاب سے ایک ہزار 315 فراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں سب سے زیادہ، 231 اموات کا تعلق سندھ سے ہے جبکہ بلوچستان میں 225، خیبر پختوخوا میں 166، پنجاب میں 151، آزاد کشمیر میں 37، گلگت بلتستان میں 9 جبکہ وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں ایک شخص جاں بحق ہوا ہے۔ جاں بحق ہونے والوں میں 338 مرد، 178 خواتین جبکہ 304 بچے شامل ہیں، زخمیوں میں مردوں کی تعداد 654، خواتین کی تعداد 331 جبکہ بچوں کی تعداد 330 ہے۔
بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ انفراسٹرکچر کی تباہی بھی بہت بڑا المیہ ہے جبکہ لائیوسٹاک کو بھی شدید حد تک نقصان پہنچا ہے۔ اعدادوشمار کے مطابق ملک بھر میں 5 لاکھ 4 ہزار 321 مویشی سیلاب کی نذر ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیادہ 5 لاکھ مویشی بلوچستان کے ہیں۔ گھروں، سڑکوں اور عمارتوں کی بات کی جائے تو 3 لاکھ 19 ہزار 450 عمارتیں متاثر ہوئی ہیں جن میں 95 ہزار 350 مکمل طور پر تباہ جبکہ 2 لاکھ 24 ہزار 100 جزوی متاثر ہوئی ہیں۔ سندھ میں بارشوں اور سیلاب سے 2 ہزار 135 کلومیٹر، بلوچستان میں 710 کلومیٹر، پنجاب میں 33 کلومیٹر جبکہ خیبر پختونخوا میں 7 کلومیٹر سڑک بھی سیلاب بہا کر لے گیا ہے۔ آبی گزارگاہوں پر تعمیر 129 پل اور 50 دکانیں بھی سیلاب برد ہو گئی ہیں۔
سیلاب سے متاثرہ شہریوں کی بات کی جائے تو وہ نظر آنے والے تباہی سے کئی گنا زیادہ ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق 22 لاکھ 89 ہزار 455 افراد سیلاب اور بارشوں کے باعث متاثر ہوئے ہیں، ان میں گھروں کے مسمار ہونے، رابطہ سڑکوں کے بہہ جانے کے باعث منقطع ہونے، چھتیں گرنے سمیت دیگر وجوہات شامل ہیں۔ ملک بھر میں 116 اضلاع بارشوں اور سیلاب سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سب سے زیادہ بلوچستان کے 34 اضلاع شامل ہیں، خیبر پختونخوا کے 33 اضلاع، سندھ کے 17، پنجاب کے 16، آزاد کشمیر کے 10 جبکہ گلگت بلتستان کے 6 اضلاع شامل ہیں۔
ملک بھر میں حکومت کی جانب سے مختلف ریسکیو کیمپ بھی قائم کئے گئے ہیں جن میں اس وقت 56 ہزار 681 افراد موجود ہیں۔ سب سے زیادہ سندھ میں 45 ہزار 207 لوگ ریلیف کیمپ میں موجود ہیں، بلوچستان میں 7 ہزار جبکہ خیبر پختونخوا میں ایک ہزار افراد کیمپوں میں ہیں۔
خیبر پختونخوا کے 33 اضلاع میں سب سے زیادہ 5 اضلاع متاثر ہوئے ہیں جن میں ڈی آئی خان، لوئر چترال، نوشہرہ، چارسدہ اور خیبر شامل ہیں جن میں اسہال، سانس کی بیماری اور ہیپاٹائٹس کی بیماریاں پھوٹ پڑی ہیں۔ ان بیماریوں کی اصل وجہ سیلاب اور بارشیں ہیں۔ محکمہ صحت خیبر پختونخوا کی جانب سے ان 5 اضلاع میں ان بیماریوں سے متاثرہ افراد کیلئے 37 میڈیکل کیمپ لگائے گئے ہیں جن میں 12 ہزار 808 مریضوں کا طبی معائنہ کیا گیا ہے۔ ان میں 4 ہزار 416 کو اسہال جبکہ 2 ہزار 346 کو سانس کی بیماری کی شکایت تھی۔
اسی طرح سیلاب میں آنے والے کیڑے مکوڑوں خصوصاً سانپ کے کاٹے کا صرف ایک مریض سامنے آیا ہے جبکہ جلد کی بیماری نے ایک ہزار 550 افراد کو شدید حد تک متاثر کیا ہے۔ ماہرین طب کے مطابق ان متاثرہ افراد کو نمونیا، ملیریا، ڈینگی، لشمینیا اور جلد کی بیماریاں لاحق ہیں جبکہ ہیپاٹائٹس سے بھی کئی شہری متاثر ہوئے ہیں، زخمی شہریوں کو بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے ان کے زخم بھی خراب ہوئے ہیں۔
وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کی جانب سے سیلاب متاثرین کی مدد اور بحالی کیلئے 37 ارب روپے کا پیکیج دینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ چترال، ڈی آئی خان، ٹانک، دیر اور دیگر کی انتظامیہ کے مطابق سیلاب نے بڑے پیمانے پر تباہی کی ہے جس سے نمٹنے کیلئے اربوں روپے درکار ہوں گے۔
چترال لوئر اور اپر سب سے زیادہ متاثر ہونے والا علاقہ ہے جس کے عمائدین نے وفاقی حکومت سے کم سے کم 5 ارب روپے کا خصوصی پیکیج مانگ لیا ہے۔ مقامی عمائدین کا کہنا ہے کہ حالیہ تباہ کن بارشوں کے نتیجے میں آج چترال کے لاکھوں باشندے کسی نہ کسی طرح متاثر ہیں، املاک کے نقصانات کے علاوہ یونین کونسل شیشی کوہ کے علاقے گورین گول میں 6 قیمتی انسانی جانیں سیلاب کی بے رحم موجوں کی نذر ہوئی ہیں، پورے ضلع میں رابطہ سڑکیں سیلاب برد ہوئی ہیں، آبپاشی کا نظام متاثر ہوا ہے۔
ضلع اپر چترال میں ہرچین، مستوج کے مختلف دیہات، بونی، توکہو، ملکہو، ریشن اور ضلع لوئر چترال میں گرم چشمہ کی مختلف آبادیاں، چترال سٹی کے مضافاتی علاقے، شیشی کوہ ویلی اور دیگر علاقے بری طرح متاثر ہوئے ہیں، ان علاقوں میں رابطہ سڑکین، آبپاشی کا نظام، موصلاتی نظام، پل تباہ ہوئے، جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں کے گھر مکمل طور پر تباہ ہوئے ہیں یا جزوی طور پر نقصان پہنچا ہے۔
خیبر پختونخوا میں متاثرین کو اب تک ایک ہزار 447 ٹینٹ، 503 ہزار کمبل، 653 مچھر دانیاں، 818 فوڈ پیکجز اور 722 پلاسٹک میٹ یعنی دریاں، 885 کچن سیٹ، 645 ہائی جین کٹ اور 403 چارپائیاں فراہم کی گئی ہیں۔ سرکاری اداروں کے ساتھ ساتھ متعدد غیرسرکاری اور غیرملکی ادارے بھی ریلیف آپریشن میں حصہ لے رہے ہیں اور ان کی جانب سے جہاں خوراک فراہم کی جا رہی ہے وہیں طبی سہولیات کی فراہمی بھی جاری ہے۔