جنوبی وزیرستان کا چلغوزہ: غذائیت سے بھرپور، اور ایک بہترین ذریعہ معاش بھی!
بشریٰ محسود
جنوبی وزیرستان ضم اضلاع سابقہ فاٹا کے ایک چوتھائی رقبے پر مشتمل یہاں کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ قدرتی وسائل پر منحصر اس علاقے کے مقامی لوگوں کا ذریعہ معاش زراعت ہے۔ یہاں کے میوے بشمول چلغوزے نہایت اہمیت کے حامل ہیں جو غذائیت سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ ایک بہترین ذریعہ معاش بھی ہیں۔
چلغوزہ ایک مہنگا میوہ ہے جو کہ جنوبی وزیرستان میں وافر مقدار میں پیدا ہوتا ہے۔ جنوبی وزیرستان شکائی سے لے کر انگور اڈہ کے جنگلات اور افغانستان بارڈر تک کے ساتھ ساتھ والی زمین پر 20 فیصد جنگلات چلغوزے کے درختوں پر مشتمل ہیں جو کہ کسانوں کو کمائی کا ایک پرکشش موقع فراہم کرتے ہیں۔
پاکستان میں چلغوزے کی پیداوار وقت کے لحاظ سے عموماً ستمبر سے ماہ نومبر تک ہوتی ہے۔ چونکہ یہ خاص علاقوں کی مخصوص موسمی پیداوار ہے اس لیے یہ پھل کثرت سے دستیاب نہیں ہوتا۔
جنوبی وزیرستان میں زیادہ پیداوار چلغوزے کی ہے۔ وزیرستانی چلغوزے کی سب سے بڑی خاصیت یہ ہے کہ سائز میں موٹے ہوتے ہیں اور دوسری بات کہ اس میں پانی کی مقدار بہت کم ہوتی ہے باقی چلغوزے کی نسبت اس لیے اس سے نہ صرف بہت زیادہ زرمبادلہ حاصل کیا جا سکتا ہے بلکہ علاقائی سطح پر بھی زمیندار اس سے بہت فائدہ اٹھا سکتے ہیں لیکن وزیرستان کے زمیندار جدید ٹیکنالوجی اور طور طریقوں سے ناواقفیت کی بنا پر وہ نفع حاصل نہیں کر پاتے جس کے وہ حقدار ہیں۔ اس کی بڑی وجہ زمینداروں کی لاعلمی ہے۔
ایک تو یہ ہے کہ یہ فصل کو وقت سے پہلے اتار لیتے ہیں اور پھر دوسری غلطی یہ کرتے ہیں کہ اپنے مال (کونز) کو دھوپ میں اچھی طرح سکھاتے نہیں ہیں یہ سوچ کر کہ ان کے مال کا وزن کم ہو جائے گا حالانکہ تھوڑے سے وزن کی کمی ان کو بہت بڑے نقصان سے بچا سکتی ہے کیوں کہ مال کو دھوپ میں رکھنے سے اس میں ایک چمک پیدا ہوتی ہے اور سنہرا رنگ چڑھتا ہے جو کہ مارکیٹ میں کسٹمر کی پہلی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اور وہ مال خراب بھی نہیں ہوتا اور دانے کالے بھی نہیں ہوتے لہذا فصل کو پر وقت کاٹنا اور دھوپ دینا بہت منافع بخش ہو سکتا ہے ان زمینداروں کے لئے!
اس کے علاوہ زیادہ تر پھل یہ لوگ غیرمناسب طریقے سے چننے میں بھی ضائع کر دیتے ہیں۔ ان زمینداروں کو جدید اور مناسب طریقے نہیں آتے درخت سے پل اتارنے کے جس میں اکثر یہ لوگ اگلے سال کی فصل بھی خراب کر دیتے ہیں۔
وزیرستان میں چلغوزے کے باغات میں 90 فیصد کام مقامی خواتین اور بچے کرتے ہیں۔ مردوں کا کام صرف درختوں سے پھل (کونز) اتارنا ہوتا ہے باقی اس کو اکٹھا کرنا پھر بوریوں میں ڈالنا اور پہاڑوں سے سروں پر یا ہتھ گاڑی کے ذریعے مخصوص جگہ یا گودام تک یہ خواتین اور بچے لاتے ہیں جو کہ بہت تکلیف دہ عمل ہوتا ہے اور پھر ان (کونز) سے دانے الگ کرنے کے عمل میں بھی زیادہ تر خواتین ہی ہوتی ہیں۔
چترال اور جنوبی وزیرستان کے کسان چلغوزہ کی فصل کو کون (پھل) سمت مقامی دکاندار یا کولیکٹرز کو بھیج دیتے ہیں پھر وہ اس کو مقامی منڈیوں میں بھجوا دیتے ہیں یہاں تک کہ کچھ کسان تو درخت پر لگا پھل ہی فروخت کر دیتے ہیں۔ اگر یہ کسان علاقائی سطح پر ہی خود بھننا اور پیکنگ کرنا شروع کرتے تو ایک طرف بہت زیادہ بے روزگار نوجوانوں کو روزگار مل جائے گا دوسرا مقامی زمیندار بہت زیادہ نفع کما سکیں گے۔
اگر یہ لوگ اپنی پروڈکٹ کو برانڈ میں تبدیل کر لیں تاکہ ان کو شناخت ملے اور ملکی منڈیوں تک بھی خود رسائی حاصل کریں تو اس طرح منڈیوں میں موجود مواقعوں تک رسائی ممکن ہو گی اور کسانوں اور منڈیوں میں دیگر سرگرمیاں سرانجام دینے والوں کے درمیان بھی براہ راست رابطہ ہوں گے۔
اگر یہ کسان اپنی فصل ایک خاص جگہ پر اکٹھی کریں اور مقامی اور ملکی منڈیوں میں ایک ساتھ مارکیٹنگ شروع کریں اور مناسب سطح پر درجہ بندی کریں تو معیار کو اور بھی بہتر بنا سکتے ہیں اس طرح ان کو براہ راست سارا نفع حاصل ہو گا نہ کہ بیوپاریوں کو جو کہ ان کو آدھی قیمت فروخت کے وقت پر ادا کرتے ہیں اور باقی قیمت ایک دو ماہ بعد!
چلغوزے کی اہم منڈیاں
ڈیرہ اسماعیل خان کی منڈی، لیکن یہاں کم تعداد میں کاروبار ہوتا ہے۔
بنوں منڈی (آزاد منڈی)، یہ چلغوزے کی دوسری بڑی منڈی ہے۔ پرانے زمانے میں چین کے تاجر بھی یہاں کاروبار کرتے تھے، چترال سکردو سے بھی یہاں چلغوزہ لایا جاتا تھا۔
لاہور کی منڈی، یہ اقوامی اور بین الاقوامی بڑی منڈی ہے۔
پشاور کی منڈی، یہ تیسری بڑی منڈی ہے۔
راولپنڈی منڈی، اس منڈی میں پشاور اور بنوں سے چلغوزہ سپلائی ہوتا ہے اور دوسروں ممالک بھی چلغوزہ برآمد ہوتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان مقامی کسانوں کو تربیت دی جائے تاکہ ان کو زیادہ منافع مل سکے اور جدید طریقوں سے واقفیت ہو۔ آئی آر کے ایف پروجیکٹ جو کہ ضم اضلاع میں 2010 سے اور ایم ڈی ٹی ایف ورلڈ بینک کے تعاون سے کام کر رہا ہے لیکن حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ ان کسانوں کی تربیت کی طرف توجہ دے۔