فاکہہ قمر
کون ہے جو نامور اور معروف کھیل کرکٹ سے ناآشنا ہے۔
یہ بہت سوں کا من پسند کھیل ہے۔ ہمارا قومی کھیل تو ہاکی ہے لیکن ہم نے اپنا کھیل چھوڑ کر دوسروں کا اپنا لیا ہے۔
کرکٹ کی ابتداء مغربی ممالک میں ہوئی لیکن آج ہم نے ان کے کھیل کو اپنے قومی کھیل پر ترجیح دے ڈالی ہے۔ کوئی ایسا گھر یا گلی نہیں ہے جہاں پر کرکٹ نہ کھیلا جاتا ہو۔ بچہ بچہ اس کھیل سے نہ صرف واقف ہے بلکہ اس کا شیدائی بھی ہے۔
صحت مندانہ اور کارآمد سرگرمی ہمیشہ انسانی جسم اور زندگی پر دوررس لیکن مثبت نتائج مرتب کرنے کے حامل بنتے ہیں اسی وجہ سے ہم بچپن سے بچوں کو نصابی کے ساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں کی ترغیب بھی دیتے ہیں تاکہ وہ ایک صحت مند اور اچھی زندگی گزارنے کے قابل ہو سکیں۔
بہت سے شہروں میں کرکٹ کو علاقی سطح پر کھیلا جاتا ہے۔ ہمارے بہت سے نوعمر لڑکے اس کھیل کا حصہ بنتے ہیں لیکن جہاں پر یہ ہمارے لیے مثبت نتائج کا حامل ہے وہیں پر اس کھیل کے ذریعے معاشرے میں بہت سے بگاڑ بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ اچھائی کے ساتھ برائی بھی لازم ہے سو اسی طرح اس کھیل کے بھی بہت سے منفی پہلو ہیں۔
بچپن سے لڑکوں کو کرکٹ کی جانب راغب کیا جاتا ہے کہ یہ لڑکوں کا کھیل ہے، ہمارے نوجوان کم سنی میں ہی اس کے دلدادہ اور دیوانے ہو جاتے ہیں، وہ خود کو کرکٹر کی مانند سوچنے سمجھنے لگ جاتے ہیں۔ حالاں کہ وہ جانتے ہیں کہ قومی سطح پر بغیر میرٹ اور رشوت کے سلیکشن نہیں ہوتی ہے لیکن وہ مسلسل خود کو فریب دیے اپنی زندگی کو تباہ و برباد کر ڈالتے ہیں محض ایک کھیل کے پیچھے وہ اپنی جیتی جاگتی زندگی کو بھی کھیل بنا کر رکھ دیتے ہیں۔
یہ معاشرے میں ایک منفی پہلو پروان چڑھتا جا رہا ہے۔ سو میں سے اسی فیصد نوجوان لڑکوں کے ساتھ یہی مسئلہ درپیش ہے جو کہ بعد میں نفسیاتی عوارض میں منتقل ہو جاتا ہے اور بہت سی نفسیاتی بیماریاں جنم لے لیتی ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ہر کوئی فواد عالم جیسا حوصلہ نہیں رکھتا ہے جو دس برسوں کی محنت کے بعد پھر سے قومی سطح پر نمائندگی کا اہل ہو، اس کے لئے کڑی محنت کے ساتھ صبر بھی ضروری ہے۔
جب بھی کرکٹ کا موسم آتا ہے تو سب دیوانہ وار سب کچھ بھلا کر خود کو محض کھیل تک محدود کر لیتے ہیں جو کہ نقصان دہ امر ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ بہت سے شیدائی ان دنوں میں خصوصی طور پر کرکٹ کا میچ دیکھنے کے لیے اپنے علاقے میں خصوصی اہتمام کرتے ہیں جس میں بڑے سائز کی ایل سی ڈی ٹی وی، کھانے پینے اور ڈھول کا خوب انتظام کیا جاتا ہے گویا اہل محلہ کے لیے سینما تیار کیا جاتا ہے۔ سب بخوشی ان لمحات کو جیتے ہیں لیکن جیسے ہی میچ میں ان بن ہوتی ہے ہماری قوم اس قدر جذباتی ہو جاتی ہے کہ آپس میں لڑنے بھڑنے اور توڑ پھوڑ ہر اتر آتی ہے۔ وہی سارا انتظام جو لاکھوں روپے لگا کر کیا ہوتا ہے بعد میں اسی کو نشان عبرت بنایا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنا خرچا کرنے اور بعد میں اپنا ہی نقصان کرنے سے میچ پر کیا اثر پڑے گا، کیا آپ کا یہ سب کرنے سے کھیل میں متوقع ٹیم کو جیت میسر آ جائے گی؟
اول تو آپ کا یہ سب کرنے کا جواز بنتا ہی نہیں ہے۔ کھیل کو کھیل سمجھیں اور دیکھیں نہ کہ اس کو اپنے اوپر سوار کر کے جذبات میں اندھے ہو کر نقصان کرتے پھریں اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوں۔ ہار جیت قسمت کے کھیل ہیں اس پے انسان کا کوئی اختیار نہیں ہے۔
قومی سطح پر اپنے ملک کی قیادت میں کھیلنا بطور ٹیم ممبر ہمارے لیے اعزاز کی بات ہے کہ ہمارے ملک کی جانب سے ٹیم دیگر ممالک کے ساتھ مقابلہ کر رہی ہے لیکن ایسے میں میچ پر شرطیں لگانا اور جوا کھیلنا یہ کدھر کا انصاف ہے؟ میچ پر سٹے بازیاں اس قدر عام ہو گئی ہیں کہ جس دن میچ کا اعلان ہوتا ہے اسی دن یہ خرافات معاشرے میں پنپنے لگتی ہیں اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ جب ہماری ٹیم ہارتی ہے تو ہم ان کی ہار کو تسلیم ہی نہیں کرتے فوراََ سے الزام عائد کر دیتے ہیں کہ یہ میچ تو فکس تھا، ہماری ٹیم بک گئی تھی اور نہ جانے کیا کیا الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ کیا یہ کھیل اور کھلاڑی کی توہین نہیں ہے کہ جب ٹیم میچ جیت جائے تو "تم جیتو یا ہارو، ہمیں تم سے پیار ہے” کے راگ الاپے جاتے ہیں اور جب ہارتے ہیں تو جوتوں کے ہار بمعہ گالیوں کے ان کے گلے میں ڈالے جاتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے؟
کرکٹ میچ کے موسم کے ٹورنامنٹ کے شروع ہوتے ہی جو سب سے بڑا نقصان دہ اور تکلف دہ عمل ہے وہ یہ ہے کہ ہم لوگ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر صرف میچ کے گرد ہی اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس دوران معیشت، تعلیمی اداروں، طالب علموں اور نہ جانے کس کس چیز کا حرج ہوتا ہے لیکن افسوس دہ بات یہ ہے کہ کسی کو پرواہ ہی نہیں ہے، پھر کہتے ہیں کہ ہم دیگر ممالک سے پیچھے ہیں۔ اگر ہم پیچھے ہیں تو اس کی کیا وجوہات ہیں اور ایسا کیوں ہو رہا ہے یہ امر قابل غور ہے۔
مجھے تو حیرت ہوتی ہے کہ جن کا کھیل ہے انہوں نے اس کو محض تفریح تک محدود رکھا ہے اور ہم جن کا اپنا قومی کھیل بھی نہیں ہے انہوں نے جنون کی حد تک اس کو اپنے سر پر سوار کر لیا ہے۔ ہے نا عجیب بات؟
یہ تمام عوامل اور عناصر ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہیں کہ جہاں کرکٹ ہمارے لیے باعث مسرت ہے وہیں پر اس سے جنونیت کی حد تک لگاؤ ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔
خدارا! خود کو جمود کا شکار نہ بنائیں، ایک مخصوص حد تک خود کو مقید نہ رکھیں۔ زندگی کو بیلنس کرنا سیکھیں، متوازن انداز میں اس کو گزاریں اور صرف خانہ پری کے طور پر نہ گزاریں بلکہ بامقصد بسر کریں۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیں سمجھنے بوجھنے کی صلاحیت عطا کرے اور ہم غیروں کی چیزوں کی بہ نسبت اپنی چیزوں سے محبت کریں اور ان کے لیے ہر دم فکرمند اور کوشاں رہیں کیونکہ انہی کی بدولت ہماری ترقی مقصود ہے۔
ہاں! قوم کو نیدرلینڈ کے خلاف کلین سوئپ مبارک ہو!