جسمانی معذوری ایک طرز زندگی ہے
مہرین خالد
ہم معذور لوگوں پر افسوس تو کرتے ہیں لیکن ان کی زندگی کو آسان بنانا ضروری نہیں سمجھتے۔
مائل سٹون کے بعد فرحان کی زندگی
کچھ روز پہلے فیس بک پر بی بی سی اردو کی ایک ویڈیو اسٹوری نظر سے گزری جو لاہور سے تعلق رکھنے والے محمد فرحان کی تھی۔ وہ جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب بزنس مین بھی ہیں۔ فرحان کے مطابق جب 2017 میں مائل سٹون ٹیم کے ساتھ وہ جاپان گئے تو انہوں نے جاپان اور پاکستان میں معذور لوگوں کی طرز زندگی کے متعلق بہت فرق دیکھا؛ جاپان میں ہر جگہ سہولیات ہیں شاپنگ مالز میں، سینما ہالز میں، پبلک ایریاز میں جدھر بھی آپ جانا چاہیں آپ کے لیے "ایزی ٹو موو” یعنی معذوروں کے لئے چلنے پھرنے کی آزادی ہے لیکن پاکستان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ پاکستان میں تو ہر لمحے یہ سوال ذہن میں آتا ہے کہ میں وہیل چیئر پر بیٹھ کر کچھ بھی نہیں کر سکتا لیکن جاپان میں جا کر ان کے سارے سوال ختم ہو گئے۔
پچیس سال بعد انہوں نے اپنےآپ کو ایک اچھے بزنس مین کے ساتھ ساتھ وہیل پاور مین کے طور پر دیکھا۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستان میں بھی معذوروں کی بحالی اور ان کے لئے خصوصی انفراسٹرکچر پر کام ہو۔ وہ خود اس حوالے سے کام کرنا چاہتے ہیں، معذوروں کے لیے روزگار تک رسائی، مینٹل ہیلتھ ان چیزوں پر کام کر کے کافی حد تک ان کی زندگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار
روزنامہ آزادی کوئٹہ کی شائع کردہ تحریر میں اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد افراد مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں جن میں 90 لاکھ صرف خواتین ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موجود 60 فیصد معذور افراد کا تعلق نوجوان طبقہ سے ہے۔ ان کی عمریں 29 سال سے کم ہیں جو کہ ذہنی و جسمانی معذوری کے باعث مختلف نوعیت کے مسائل سے دوچار ہیں۔
تعلیم و روزگار
ہم معذوروں کو سہولیات فراہم کرنے کے بجائے ان کے بنیادی حقوق پر بھی ڈاکہ ڈالنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔
میرا ایک دور پرے کا جاننے والا ہے جس کی دور کی نظر کمزور ہے۔ اسے چشمے کے بغیر دھندلا مگر چشمے کے ساتھ بالکل صحیح دکھتا ہے۔ پانچ سال پہلے سفارش کی بنیاد پر ایک یونیورسٹی میں معذوروں کے کوٹے پر داخلہ لینے میں کامیاب ہو گیا جبکہ وہ جسمانی طور پر مکمل صحتمند ہے۔
ایک دن ملا تو اپنے داخلے کا قصہ سنانے لگا کہ کیسے معذوروں کی مخصوص سیٹ پر حقیقی طور پر معذور طالب علم آئے ہوئے تھے، کوئی ایک ٹانگ سے تو کوئی دونوں ٹانگوں سے محروم تھا، کچھ وہیل چیئر پر بیٹھے تھے تو کچھ نے بیساکھیاں تھامی ہوئی تھیں، کچھ نابینا بھی تھے لیکن داخلہ پھر بھی سفارش کی طاقت سے مجھے یعنی ایک صحتمند طالب علم کو ملا۔
یہ کیسی طاقت ہے جس سے مستحق کا حق غصب کیا جائے؟ کیا اسے طاقت کہہ سکتے ہیں؟ نہیں، میرے حساب سے تو اسے صرف اور صرف حق تلفی کہا جائے گا۔
معذوری کا سرٹیفیکیٹ
معذوری کا سرٹیفکیٹ حکومت پاکستان کی تصدیق شدہ دستاویز ہے۔ اس سرٹیفکیٹ کے حصول کے لیے حکومت وقت کے تحت ملک بھر میں معذوری کی تصدیق اور معائنے کے لئے میڈیکل بورڈز قائم کیے گئے ہیں جہاں طبی ماہرین، ڈاکٹر، اور سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ کے افسران میں شامل ہوتے ہیں۔
اگر آپ کے پاس معذوری کا سرٹیفکیٹ ہے تو آپ مالی امداد تک رسائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ روزگار اور تعلیم کی سہولیات کا فائدہ کوٹے کے تحت اٹھا سکتے ہیں۔ اگر آپ کو وہیل چیئر کی ضرورت ہو تو یہ سرٹیفکیٹ پاکستان بیت المال میں درخواست دائر کرتے وقت آپ کے کام آتا ہے۔
خصوصی کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ کے لئے بھی معذوری کا سرٹیفکیٹ مطلوبہ دستاویزات میں شامل ہوتا ہے۔
خصوصی انفراسٹرکچر
میں سمجھتی ہوں کہ معذوری کو ایک طرز زندگی کے طور پر تسلیم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے لئے خصوصی انفراسٹرکچر بنایا جائے جیسے فٹ پاتھ پر ہموار جگہ جہاں سے وہیل چیئر یا بیساکھی استعمال کرنے والوں کی آمدورفت ممکن ہو سکے، عمارتوں میں ریمپس بنائے جائیں، خصوصی ٹوائلٹس ہونے چاہئیں، جبکہ شاپنگ کے لئے مخصوص قطار کا انتظام کیا جائے تاکہ معذور افراد بھی اپنے آپ کو اس معاشرے کا فعال فرد سمجھیں۔
آپ کی نظر میں معذور افراد کے لئے اور کیا سہولیات ہونی چاہئیں؟
مہرین خالد ضلع بنوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر اور رپورٹر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔