جنسی زیادتی کے 80 ملزم آزاد، ڈی آئی خان میں 63 کو معاف کر دیا گیا
محمد فہیم
خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں تین سالوں کے دوران بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے 63 افراد کو معاف کرتے ہوئے بری کر دیا گیا۔
اس وقت خیبر پختونخوا میں جو قانون موجود ہے اس کی رو سے بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی سزا عمر قید یا پھر پھانسی ہے تاہم فریقین کی باہمی رضامندی سے معاملہ صلح پر ختم ہوا اور بچوں کےساتھ جنسی زیادتی کرنے والے آزاد ہو گئے۔
معاملہ صرف ڈی آئی خان تک نہیں بلکہ دیگر اضلاع میں بھی صورتحال ایسی ہی ہے۔ محکمہ داخلہ کی جانب سے صوبائی اسمبلی میں جمع کرائی جانے والی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی خان میں سال 2019 میں کل 42 مقدمات درج ہوئے جن میں 28 مقدمات کے ملزم بروئے راضی نامہ رہا ہو گئے۔ سال 2020 میں کل 43 مقدمات جنسی زیادتی کے درج ہوئے جن میں 26 ملزمان جبکہ سال 2021 میں 42 مقدمات درج ہوئے اور 9 کے ملزمان بروئے راضی نامہ بری ہو گئے۔ تین سالوں میں یہ تعداد مجموعی طور پر 63 بنتی ہے۔
دیگر اضلاع کی بات کی جائے تو پشاور میں 2019 میں 9 ملزمان بری ہوئے، سال 2020 میں 5 بری ہوئے جبکہ سال 2021 میں تین بری ہو گئے۔ پشاور میں بری ہونے والوں کی تعداد 17 ہے یعنی ان دو اضلاع میں تین سالوں کے دوران 80 ملزمان بری ہو گئے اور انہیں آزادی کا لائسنس دے دیا گیا۔
محکمہ داخلہ کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے تو 2019، 2020 اور 2021 کے دوران صوبہ کے 14 اضلاع میں 539 بچوں کے ساتھ جنسی واقعات اور ان میں سے 13 بچوں کو تشدد کے بعد قتل کیا گیا ہے۔ پشاور میں اس عرصہ میں سب سے زیادہ 120 بچے متاثر ہوئے ہیں۔
2019 میں پشاور میں 42 مقدمات میں 71 ملزمان کو گرفتار کر کے چالان عدالت میں داخل کرایا گیا تھا جن میں سے چار ملزمان کو تین سال جبکہ ایک ملزم کو دس سال اور ایک ملزم کو سزائے موت دی گئی ہے، 9 مقدمات میں ملزمان کو بری اور 29 مقدمات تاحال عدالتوں میں زیرسماعت ہیں۔ تفصیل کے مطابق 2020 میں 33 مقدمات میں 90 ملزمان کو گرفتار کیا گیا، ان ملزمان میں سے تین ملزمان کو سات سال قید، دو ملزمان کو دس سال کی قید اور دس، دس لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا اور پانچ ملزمان کو عدالت سے بری کیا گیا۔ اس طرح 23 مقدمات عدالت میں چل رہے ہیں۔
گذشتہ سال 2021 میں 44 مقدمات میں 61 ملزمان کو گرفتار کر لیا گیا تھا جن میں سے دو ملزمان کو باالترتیب پانچ اور دس سال قید اور دس، دس لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا ہے جبکہ تین ملزمان کو بری کیا گیا اور 39 مقدمات عدالت میں چل رہے ہیں۔
ملزمان کو سزا کی بات کی جائے تو 539 کیسز میں جہاں 80 کے ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں وہیں صرف 27 کیسز میں سزا سنائی گئی ہے جن میں 4 مقدمات پشاور میں 2019، اسی طرح 5 مقدمات پشاور میں 2020 اور پشاور میں 2021 میں 2 مقدمات میں سزا سنائی گئی۔
مانسہرہ میں 5 مقدمات میں قید کی سزا، ایبٹ آباد میں ایک مقدمہ میں تین سال قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ، نوشہرہ میں ایک مقدمہ میں مجرم کو سزائے موت اور شریک مجرم کو عمر قید، ڈی آئی خان میں 2019 میں تین ملزمان کو تین سال پروبیشن قید سنائی گئی جبکہ دو کیسز میں ملزمان انتقال ہی کر گئے۔
2020 میں ڈی آئی خان میں ایک کیس میں 7 سال قید اور ایک کیس میں تین سال پروبیشن قید سنائی گئی، ٹانک میں 2019 میں ایک مجرم کو ایک سال قید جبکہ 2020 میں ایک مجرم کو 10 سال قید کی سزا ہوئی۔
ان کیسز میں معافی اور صلح سے متعلق قانون دان مہوش محب کاکاخیل کہتی ہیں کہ تمام تر ذمہ داری ریاست پر آتی ہے، جو بچہ متاثر ہو گیا ہے اسے اس کا خاندان بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا ایسے میں ملزمان کے ساتھ راضی نامے کا دباﺅ بھی ہوتا ہے، اگر کسی بھی ملزم کو آزادانہ گھومنے کی اجازت دی جاتی ہے تو ذمہ داری ریاست پر عائد ہو گی اور ریاست کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ اتنی بڑی تعداد میں کیسز کا زیر التواء ہونا بھی تشویشناک ہے، 539 کیسز میں صرف 27 کیسز میں سزا سنائی گئی ہے جبکہ 80 میں تو معاف کر دیا گیا، باقی 432 کیسز کا فیصلہ ہونا باقی ہے جس کی بڑی وجہ تفتیش کا نظام کمزور ہونا ہے، پولیس ایف آئی آر ہی انتہائی کمزور کر دیتی ہے جس کے بعد کیسز کا فیصلہ جلدی آنا یا پھر ذمہ دار کو سزا ہونے کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔
بچوں کے حقوق پر کام کرنے والے سماجی کارکن عمران ٹکر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ جب ہم روک تھام کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ واقعات ہی نہ ہوں لیکن یہ ایسے ممالک میں ممکن نہیں جہاں آبادی زیادہ ہو، ہمارے ملک میں آگاہی آئی ہے لیکن اب بھی یہ انتہائی کم ہے، کئی بچوں کے والدین اس خطرے سے آگاہ نہیں ہیں، اس کی روک تھام یورپ میں تو ممکن ہے تاہم پاکستان جیسے غریب ملک میں یہ ممکن نہیں ہے، اس حوالے سے بیداری، شعور اور آگاہی کی بات کرنا پڑے گی۔
ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں عمران ٹکر کا کہنا تھا کہ اس بارے میں ہر طرح کی آواز اٹھانی ہو گی، خطرات سے لے کر قانون اور سزا تک تمام امور بتانے ہوں گے اور اسے ہر پلیٹ فارم پر اٹھانا پڑے گا، عوام اور حکومت کی بہت زیادہ توجہ سزا کو سخت کرنے پر ہے تاہم یہ بات مزید خطرناک ہے، سزائے موت کے ڈر سے جنسی زیادتی کرنے والے بچوں کو قتل کرنا شروع کر دیں گے، ضرورت اس امر کی ہے کہ مساجد کے خطیب مہینے میں ایک بار ضرور جمعہ کے خطبہ میں اس حوالے سے بات کریں جبکہ سکول کے نصاب میں بھی اس کی شمولیت لازمی ہے۔