اگر فاطمہ تحریک پاکستان میں میرا ساتھ نہ دیتی تو میں کبھی کامیاب نہ ہوتا۔ قائداعظم
حدیبیہ افتخار
میں نے اپنے اسکول کی کسی کتاب میں بانی پاکستان قائدا عظم محمد علی جناح کا اپنی بہن فاطمہ جناح کے لئے کہا جانے والا یہ فقرہ پڑھا تھا: “اگر فاطمہ تحریک پاکستان میں میرا ساتھ نہ دیتی تو میں کبھی کامیاب نہ ہوتا۔“
میں یہ فقرہ بار بار پڑھتی اور جب بھی پڑھتی تو پہلے سے زیادہ حوصلہ افزائی ہوتی۔ میرے لئے یہ محض ایک فقرہ نہیں تھا بلکہ لڑکیوں کی ان صلاحیتوں کا اعتراف تھا جنیں معاشرہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔
بانی پاکستان خواتین کو قومی زندگی میں فعال کردار ادا کرتے دیکھنا چاہتے تھے۔ ان کی بہن فاطمہ جناح آزادی کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ رہیں۔ فاطمہ کی سیاسی تربیت بھائی محمد علی جناح کے ہاتھوں ہی سرانجام پائی۔یہی وجہ ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کی سرگرم رکن کی حیثیت سے جدوجہد آزادی میں بھرپور حصہ لیا۔ انہوں نے پاکستان میں گرلز گائیڈ تحریک اور پاکستان ویمنز ایسوسی ایشن کی بنیاد رکھی۔ پاکستان میں جمہوریت کی جدوجہد اور بقا کے لئے اپنا فعال کردار ادا کیا۔ اس کی سب سے اہم مثال فاطمہ جناح کا فوجی آمر ایوب خان کے خلاف صدراتی انتخاب میں حصہ لینا تھا۔ فاطمہ کی سیاسی طاقت، مقبولیت اور بصیرت سے خوفزدہ آمر نے ان کے خلاف باقاعدہ منظم تحریک چلائی۔ یوں مغربی پاکستان کے انتخابات کے نتائج اپنے حق میں کرائے جبکہ مشرقی پاکستان میں فاطمہ جیت چکی تھیں۔
مشکل وقت میں قیادت کی کمان سنبھالتی پاکستانی خواتین
پاکستان کی قومی سیاست میں مشکل حالات سے سیاسی پنجہ آزمائی کی ایک مثال فاطمہ جناح کا ذکر تو میں کر چکی۔ حال ہی میں پیپلز پارٹی کی رہنما اور سابقہ وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی بیٹی آصفہ بھٹو کو ملتان میں ایک جلسے کی قیادت کرتے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ یوں لگا جیسے بینظیر دوبارہ زندہ ہو کر سامنے کھڑی ہوں جنہوں نے اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور فوجی ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق کے زیرعتاب اپنی سیاسی جماعت کی بقا کی جنگ ہمت اور حوصلے سے لڑی۔
کلثوم نواز جو سابق وزیر اعظم نواز شریف کی اہلیہ تھیں، انہوں نے بھی ایک دوسرے فوجی آمر پرویز مشرف کا ڈٹ کر سامنا کیا اور اپنے شوہر کی غیرموجودگی میں سیاسی تحریک کامیابی سے چلائی۔
ان کی صاحبزادی مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز ہے جس نے پارٹی کو مشکل دور میں سہارا دیا جب سابق وزیراعظم نواز شریف کو عہدے سے ہٹا کر جیل بھیج دیا گیا اور ان کے بعد مسلم لیگ ن کی تمام اعلی قیادت کو گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا گیا، اس وقت مریم نواز شریف واحد رہنما تھیں جنہوں نے پارٹی کی کمان بخوبی سنبھالی۔
خیبر پختونخوا (اس وقت کا صوبہ سرحد) کی خواتین بھی سیاست میں پیش پیش رہیں، نسیم ولی خان نے پختونستان کے قیام اور ”لر و بر” کی تحریک میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔
پیپلز پارٹی ہو، مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی ہو جماعت اسلامی یا پی ٹی آئی سب میں خواتین کا بہت اہم کردار ہے۔
سیاست کے علاوہ جہاں اور بھی ہیں
سیاست کے علاوہ دیگر شعبوں میں بھی خواتین نمایاں طور پر فعال ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی پہلی نائب صدر ایک خاتون ہیں۔ عائشہ ملک ایڈوکیٹ نے بار ایسوسی ایشن کے انتخابات میں حصہ لیا اور کامیاب ہوئیں۔ اس کے علاوہ شکیلہ ناز ایڈوکیٹ پہلی بار تخت بائی بار کی نائب صدر منتخب ہوئیں۔ شکیلہ ناز سے جب بات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کیا لیکن ہار نہیں مانی، آج اپنی کمیونٹی کی مضبوط آواز بن کر ان کی نمائندگی کر رہی ہوں۔
یہ ایسی مثالیں ہیں جو ہمیں بحثیت عورت معاشرے میں اہم کردار ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔
عورت کسی سے کم نہیں
میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر عورتیں گھر کو انتہائی مہارت سے سنبھالنے اور اپنے بچوں کو پڑھا لکھا کر ایک اچھا شہری بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں تو وہ یہ صلاحیتیں اپنی قوم کی ترقی کے لئے کیوں استعمال نہیں کر سکتیں۔
ایک طرف معاشرتی رکاوٹوں کا خیال آتا ہے تو دل میں سوال آتا ہے کہ یہ آزادی تو سب کے لئے ہے پھر کیوں آج بھی عورت فرسودہ روایتوں کی قید میں ہے۔ تو دوسری طرف جب عورتوں کو تمام رکاوٹوں کو دلیری سے عبور کرتا دیکھتی ہوں تو دل کو سکون ملتا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو ہم ہار ماننے والی مخلوق ہے ہی نہیں۔
میں نے ٹھیک کہا نا کہ ہم کسی سے کم نہیں؟
حدیبیہ افتخار ایک فیچر رائٹر اور بلاگر ہیں۔