کھیل

پانچ گولڈ میڈل جیتنے والی تائیکوانڈو پلیئر رائمہ صاحبزادی کون ہیں؟

بشریٰ محسود

”میرا نام رائمہ صاحبزادی ہے اور میرا تعلق ڈیرہ اسماعیل خان علی زئی فیملی سے ہے، میں تائیکوانڈو کی پلیئر ہوں،
میں گیمز کی طرف اس طرح آئی کہ تین ماہ کی گرمیوں کی چھٹیاں ہوئیں تو میری فیملی فرینڈ سے مجھے معلوم ہوا کہ ایک اکیڈمی ہے جہاں پر مارشل آرٹس سے متعلق سکھایا جاتا ہے، مجھے تو بچپن ہی سے تائیکوانڈو کا شوق تھا تو میں نے اپنے والدین سے بات کی تو انہوں نے بھی مجھے اجازت دے دی۔

جب میں وہاں گئی اور میں نے سٹارٹ لیا تو میں اس سوچ سے وہاں گئی تھی کہ میں سیلف ڈیفنس سیکھوں گی اور باڈی فٹنس وغیرہ لیکن میرے سر نصیر بلوچ صاحب کو مجھ میں ایسا سپرٹ نظر آیا کہ میں گیمز میں شرکت کر سکتی ہوں تو انہوں نے میرے والدین سے اجازت لی اور اس طرح میں گیمز میں آ گئی۔

ڈیرہ اسماعیل خان ایک ”ڈیولپڈ” علاقہ نہیں ہے تو اس علاقے میں اعلی تعلیم حاصل کرنے، دیگر شعبوں میں جانے کی اجازت نہیں ہے لڑکیوں کو، تو میرا اس طرح کی گیمز جو مارشل آرٹس سے منسلک ہے، تائیکوانڈو میں آنا بہت بڑی بات تھی، میرے لیے، میری فیملی اور پورے ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے!

فیملی میں بہت سارے لوگ تھے جو مجھے ”ڈسکریج” کرتے تھے اور میرے والدین کو کہتے تھے کہ یہ لڑکی ہے اس کو مت کھیلنے دو، بری بات ہے لیکن میرے والد نے کبھی بھی مجھے یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ کوئی اس طرح کی باتیں بھی کرتا ہے۔

میں نے اپنے پہلے مقابلے جو پشاور میں ہوا تھا، اس میں سلور میڈل حاصل کیا، اس کے بعد اسلام آباد میں مقابلہ تھا جس میں، میں نے گولڈ میڈل جیتا تھا۔

پہلی بار وکٹری اسٹینڈ پر کھڑا ہونا وہ بھی گولڈ میڈل جیت کر میرے اور میری فیملی کے لئے بہت بہت زیادہ خوشی کی بات تھی کیوں کہ ہماری فیملی میں آج تک کسی اور لڑکی نے ایسا گولڈ میڈل نہیں جیتا تھا، جو لوگ مجھے ڈسکریج کرتے تھے کہ مت جاؤ، نا لو حصہ اب وہ مجھے اپنے بچوں کے سامنے ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں اور میرے لیے یہ بہت خوشی کی بات ہے۔

پھر میں نے تیسرا میڈل جو کہ گولڈ میڈل تھا حاصل کیا 2021 میں، اس کے بعد سپورٹس گالا جو چارسدہ میں ہوا تھا اس میں بھی میں نے گولڈ میڈل حاصل کیا اور یوں ایک سلور میڈل کے بعد لگاتار تین گولڈ میڈل حاصل کئے ہیں اور پھر لاہور میں نیشنل گیمز تھے اور میری خواہش تھی کہ میں گولڈ میڈل جیتوں کیوں کہ جس حریف کے ساتھ میرا آخری مقابلہ تھا وہ مجھ سے 15 سال بڑی تھی گیمز میں اور مجھے اس گیم میں آئے ہوئے اس وقت دو سال ہی ہوئے تھے اور الحمدللہ
اس میں بھی اللہ تعالی نے مجھے اتنی عزت دی کہ گولڈ میڈل اپنے نام کیا۔

یہ پاکستان کا بہت بڑا ایونٹ تھا اور میرے لیے یہ بہت زیادہ معنی رکھتا تھا اور جب میں نے مقابلہ جیت لیا تب میری خوشی کی انتہا نہیں تھی، میں اتنی خوش تھی کہ میرے آنسو نکل آئے اور میں رونے لگی کہ میرے اللہ نے مجھے اتنی عزت دی کہ مجھے اس مقام پر پہنچایا۔

سر نصیر بلوچ صاحب نے بہت زیادہ محنت کر کے تیاری کروائی اور میرے والدین کی سپورٹ میرے ساتھ رہی جس کی وجہ سے میں آج نیشنل لیول کی گولڈ میڈلسٹ ہوں۔

21 سے 25 جولائی کو ہونے والے ففٹین کورین ایمبیسیڈر چیمپئن شپ جو اسلام آباد میں ہوئی اس میں بھی گولڈ میڈل حاصل کیا جو کہ پورے ڈیرہ کے لیے فخر کی بات ہے۔”

یہ گفتگو پانچ گولڈ میڈل حاصل کر کے ڈیرہ اسماعیل خان کا نام روشن کرنے والی رائمہ خان کی ہے، ٹی این این کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا ”میں نے زندگی سے یہ سیکھا ہے کہ اپنے مقاصد کو بہت اونچا رکھیں اور اس تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ کوشش کرنی چاہیے، اگر آپ کی سوچ چھوٹی ہو گی تو آپ کچھ بھی نہیں حاصل کر سکیں گے، اپنا معیار ہمیشہ بلند رکھیں تو آپ کی سوچ بھی بلند رہے گی، محنت کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا، جو لوگ چاند پر جانے کی کوشش کرتے انہیں ستارے تو مل ہی جاتے ہیں، اگر مجھے موقع ملا تو انشاءاللہ مستقبل میں اولمپک چیمپئن بن کر اپنے ملک کا نام روشن کروں گی اور یہ ثابت کروں گی کہ لڑکیاں کسی بھی میدان میں اپنا نام کما سکتی ہیں بشرطیکہ ان کو فیملی سپورٹ اور مواقع میسر ہوں۔”

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button