جرائمسیاست

"پولیس کے پاس گولیاں ختم ہو گئیں ورنہ ایک بھی خدائی خدمتگار زندہ بچ کر نہ جاتا”

عوامی نیشنل پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر انہیں حکومت مل گئی تو وہ سانحہ بابڑہ میں 6 سو زائد پشتونوں کے قتل عام کی تحقیقات کریں گی

رفاقت اللہ رزڑوال

عوامی نیشنل پارٹی نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر انہیں حکومت مل گئی تو وہ سانحہ بابڑہ میں 6 سو زائد پشتونوں کے قتل عام کی تحقیقات کریں گی جن میں ملوث کرداروں کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔
عوامی نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان نے ضلع چارسدہ میں بابڑہ کے مقام پر شہداء کی 74 ویں برسی کے موقع پر یادگار پر پھول چڑھائے اور شہداء کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا کہ 12 اگست 1948 کو اس وقت کے وزیراعلیٰ قیوم خان کی حکم پر پرامن مظاہرین پر گولیاں برسائیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت 6 سو سے زائد افراد شہید ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ ہر سال عوامی نیشنل پارٹی نے اس واقعے میں ملوث کرداروں کو سزائیں دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمل ولی خان مانتے ہیں کہ ان کی دور حکومت میں اس واقعے کی تحقیقات نہ کرنا انکی غلطی تھی، انکے مطابق ” حقیقت یہ ہے کہ اب ہم پشیمان ہیں اور یہ ہماری غلطی تھی کہ ہم نے اس واقعے کی تحقیقات نہیں کی لیکن اگر اگلی دفعہ ہمیں حکومت ملی تو سانحہ بابڑہ واقعے کی تحقیقات کریں گے”۔

صوبائی صدر ایمل ولی خان نے بتایا کہ 74 سال گزرنے کے باوجود پشتون قوم کو اپنے وسائل کے عملی طور پر اختیارات نہیں دیئے گئے، اسی نظریئے کے تحت آج بھی پشتونوں کے ساتھ وہی سلوک کیا جا رہا ہے جو پہلے سے ہو رہا ہے۔
ایمل ولی کہتے ہیں "ایسے سانحات ان ممالک میں رونما ہوتے ہیں جہاں پر انسانی حقوق کی کھلم کھُلا خلاف ورزیاں معمول ہو، امریکہ میں ایک پولیس نے ایک شہری کے گلے پر کہنی رکھی تھی جس سے پورے امریکہ میں آگ لگ گئی، یہاں تو چھ سو افراد شہید کئے گئے، پھر ان پر ایف آئی آرز درج کئے گئے اور 14 اگست کے موقع پر انکے گھروں کے سامنے ڈھول بجایا گیا، یہ کہاں پر ہو رہا ہے”؟

سانحہ بابڑہ کی دوبارہ تحقیقات کیسے کی جائیں گی؟

چارسدہ میں مقیم صحافی سید شاہ رضا کا کہنا ہے کہ سانحہ بابڑہ میں ملوث افراد کی معلومات موجود ہیں کیونکہ اس واقعے کی ایک ایف آئی آر تھانہ پڑانگ میں بھی موجود ہے اور ان کو علامتی طور پر سزائیں دی جاسکتی ہے۔
انہوں نے کہا ‘اس میں ایسی سزائیں ممکن نہیں جس طرح ایک زندہ ملزم کو دی جاسکتی ہے لیکن اگر ملزمان مر بھی گئے ہیں تو انہیں سزائیں سنائی جاسکتی ہے’۔

بابڑہ میں کیا ہوا تھا؟

بابڑہ ضلع چارسدہ کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں پر پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد 12 اگست 1948 پولیس کی جانب سے مظاہرین پر گولیاں برسائی گئیں لیکن عوام نیشنل پارٹی کا الزام ہے کہ پولیس کو فائرنگ کا حکم اس وقت کے وزیراعلیٰ قیوم خان نے دیا تھا۔
عبدالولی خان یونیورسٹی کے پشتو ڈیپارٹمنٹ کے چئرمین اور دس کتابوں کے مصنف ڈاکٹر سہیل خان نے اپنی کتاب ‘تاریخ چارسدہ’ میں لکھا ہے کہ سازشی عناصر نے 22 اپریل 1947 کو ڈاکٹر خان صیب کی اکثریتی ارکان پر مشتمل حکومت ختم کرکے قیوم خان کی اقلیتی ارکان کی حکومت قائم کردی جس کے بعد قائداعظم محمد علی جناح نے خان عبدالغفار خان عرف باچا خان سے ملاقات میں اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوئے کہا کہ صوبے میں کرپشن اور بدانتظامی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے اور آپ آئین اور حکومت میں شامل ہو کر خدمت کا بیڑا اُٹھائیں۔

ڈاکٹر سہیل خان لکھتے ہیں کہ باچا خان نے جناح کو بتایا کہ وہ اس فیصلے کی منظوری جرگہ سے لیں گے لیکن جرگے نے اس پیشکش کے ساتھ اتفاق نہیں کیا اور باچا خان نے جناح ‘مرکز عالیہ سردریاب’ آنے کی دعوت دی اور جناح نے قبول بھی کر لی۔
کتاب میں آگے لکھتے ہیں کہ قیوم خان اور انکے حواریوں نے باچاخان کے ساتھ جناح کی ملاقات کو اپنے لئے خطرہ سمجھا جس کے ردعمل میں قیوم خان نے ایک اخبارمیں جھوٹا بیان چھپوا کر کہا کہ ‘سردریاب آنے پر جناح کو قتل کیا جائے گا’ جس پر قائداعظم نے سردریاب آنے کی بجائے پشاور چلے گئے اور وہاں پر خطاب کیا۔

ڈاکٹر سہیل خان کہتے ہیں کہ اس کے بعد باچا خان اور انکے رفقاء کو 15 جون 1948 کو گرفتار کر لیا گیا جس کے بعد چارسدہ میں بابڑہ کے مقام پر مظاہرے شروع ہوئے۔ حکومت نے پہلے ہی سے دفعہ 144 نافذ کر دیا تھا جس کے نتیجے میں 14 خواتین، 6 بچوں سمیت 600 افراد شہید کئے گئے۔

انکا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد حکومت نے اعلان کیا کہ شہداء اور زخمیوں کے خاندان فائر کی گئی گولیوں کی قیمت ادا کریں جس کے خوف سے درجنوں خاندانوں نے اپنے پیاروں کو چھپایا تاکہ وہ فی گولی 100 روپے ادا نہ کرے۔
انہوں نے قیوم خان کی اسمبلی میں تقریر کا حوالہ دے کر کہا ‘میں نے بابڑہ میں دفعہ 144 نافذ کیا تھا۔ جب لوگ منتشر نہ ہوئے تو ان پر فائرنگ کی گئی۔ خدائی خدمتگار بڑے خوش قسمت تھے کہ پولیس کے پاس گولیاں ختم ہوگئی ورنہ ایک بھی خدائی خدمتگار زندہ بچ کے نہ جاتا’، تو ان الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ شہداء کی تعداد 6 سو سے زائد ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button