سوات: طالبان کی واپسی، یرغمال پولیس اہلکاروں کی بازیابی، اصل کہانی کیا ہے؟
عبدالستار
سوات کی تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقہ اور ضلع دیر کے بارڈر پر پولیس فورس اور سیکورٹی فورسز کی دہشت گردوں کے ساتھ جھڑپ کے دوران ڈی ایس پی سمیت چھ افراد کو دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا جنہیں بعد میں مذاکرات کے زریعے رہا کرا دیا گیا۔
خیبر پختونخوا کے شمالی اضلاع میں طالبان نے ایک مرتبہ پھر اپنی موجودگی ظاہر کر دی۔ سوات کی تحصیل مٹہ کی چپریال پولیس چوکی پر اتوار اور پیر کی درمیانی شب نامعلوم شرپسندوں نے حملہ کیا اور حملے کے بعد موقع سے فرار ہو گئے۔ جوابی کاروائی میں پیر کے روز ڈی ایس پی مٹہ بھاری پولیس نفری کے ہمراہ دہشت گردوں کے پیچھے گئے جہاں پر جھڑپ کے دوران ڈی ایس پی سمیت چار پولیس اہلکار زخمی ہوئے جبکہ زخمی پولیس اہلکاروں سمیت چھ پولیس اپلکاروں کو دہشت گروں نے یرغمال بنا لیا، بعد ازاں مقامی معززین کے جرگے کے زریعے مذاکرات کر کے رہا کرا لیا گیا، رہائی کے بعد ڈی ایس پی سمیت دیگر زخمی اہلکار ہسپتال میں زیرعلاج ہیں۔
سوات سے تعلق رکھنے والے شخص نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس واقعے کی تصدیق کی اور بتایا کہ یہ تحصیل مٹہ کے پہاڑی علاقے آسمانی گاؤں ہے جو ضلع دیر اور ضلع سوات بارڈر پر واقع ہے جہاں پر طالبان افغانستان سے داخل ہو کر دیر اور اسی راستے سے پھر سوات کے کبل اور مٹہ کے علاقوں میں داخل ہوتے ہیں جبکہ پہلے سے یہ علاقے مٹہ اور پیوچار طالبان کا گڑھ رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ماہ سے مقامی لوگ طالبان کی علاقے میں موجودگی کے بارے میں بتا رہے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کو دروازے پر دستک دے کر کہتے ہیں کہ رات کے وقت گھر سے نہ نکلنا جبکہ مقامی لوگوں سے بھتہ لینے کی بھی اطلاعات ہیں، ”سوات میں طالبان شروع میں بھی اس طرح کی کاروائیاں کرتے تھے اور اب بھی وہی صورتحال کا لوگ سامنا کر رہے ہیں۔
اس واقعے کے حوالے سے سوات پولیس کے حکام کے ساتھ کئی بار رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن رابطہ نہیں ہو سکا۔
سوات کے مقامی صحافی شہزاد عالم نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر جاری ایک پیغام میں تحریک طالبان کے ایک کمانڈر سے گفتگو کی، انہوں نے زخمی ڈی ایس پی پیرسید کے موبائل پر کال کر کے طالبان کے کمانڈر سے گفتگو کی جس میں طالب کمانڈر نے کہا کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز کے ساتھ سیز فائر ہے اور ہمیں اپنے مشران کی طرف سے کہا گیا ہے کہ تم اپنے اپنے علاقوں میں جا سکتے ہو لیکن سوات پولیس پہاڑ پر چڑھ کر ہمارے اوپر حملہ آور ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے ان پر کوئی حملہ نہیں کیا اور ہمیں اپنے مشران کی جانب سے ہدایت کی گئی ہے کہ پاکستانی سیکورٹی فورسز پر فائر نہیں کرنا کیونکہ ہمارے مشران اور پاک ارمی کے درمیان مذاکرات جاری ہیں۔
طالب کمانڈر نے کہا کہ ہمارے بیان کو میڈیا پر نشر کرو کہ پولیس اور آرمی کے اہلکار ہمارے بھائی ہیں اور ہم ان پر حملہ نہیں کرتے اور ہم ان کے تھانے نہیں گئے اور نہ ان پر حملہ کیا، یہ لوگ پہاڑ پر چڑھ کر یہاں آئے ہیں، حملہ کرنے والے پولیس ڈی ایس پی پیرسید زخمی حالت میں ہمارے ساتھ ہے اور ہماری بات چل رہی ہے جب ان کے ساتھی آ جائیں گے تو ہم ان کو حوالہ کر دیں گے۔
طالب کمانڈر نے کہا کہ یہ پولیس کی پہلی غلطی نہیں ہے اس سے پہلے پیوچار کے پہاڑ پر سخرہ کے مقام اور دوغلے کے پہاڑ پر بھی یہ ہمارے پیچھے آئے تھے، یہ ان کی غلطیاں ہیں کیونکہ ہماری اور ان کے درمیان سیزفائر جاری ہے۔
جماعت اسلامی کے رہنما اور رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان نے ٹی این این کو فون پر بتایا کہ ملاکنڈ ڈویژن میں دہشت گرووں کی مختلف کاروائیوں نے ان کی موجودگی ظاہر کر دی ہے جبکہ لوئر دیر، اپر دیر اور سوات میں لوگ بتا رہے ہیں کہ طالبان دوبارہ علاقے میں نظر آ رہے ہیں۔
عنایت اللہ خان نے کہاکہ سیکورٹی اداروں نے میرے سیکورٹی گارڈز کو بھی خبردار کیا تھا کہ علاقے میں واقعات رونما ہونے کے بعد چھٹی بھی نہ کریں اور چوکس بھی رہنا ہے، ”میں نے اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھی ہیں اور اپنے علاقے کے عوام کو دہشت گردوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتا۔”
کیا ایم پی اے ملک لیاقت پر حملہ بھی دہشت گردوں نے کیا؟
جماعت اسلامی کے رہنما عنایت اللہ خان نے کہا کہ تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے ملک لیاقت علی پر حملہ کے بعد ان کی فیملی کے پاس تعزیت کے لئے گیا تھا اور ان کے ساتھ اس بات پر بحث نہیں کی لیکن یہ بات عام ہے کہ انہیں دہشت گردوں کی جانب سے بھتے کی کالز آئی تھیں۔ انہوں نے کہا کہ لوگوں سے بھتہ کیلئے کالز باجوڑ، لکی مروت، دیر لوئر، دیر اپر اور سوات میں بھی آتی ہیں۔
رکن خیبر پختونخو اسمبلی عنایت اللہ خان نے کہا کہ موجودہ حالات طالبان کے 2010 کے ابتدائی حالات کی طرح ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پاک افغان بارڈر پر جو باڑ لگائی ہے اس کا مقصد تو ملک اور عوام کی حفاظت تھا لیکن اب بارڈر پر دہشت گردوں کے آنے جانے سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پہلے بھی ہم دہشت گردی سے بہت نقصان اٹھا چکے ہیں اور اب ایک مرتبہ پھر حالات خراب ہو رہے ہیں، صوبائی حکومتی کی رٹ کمزور ہوتی جا رہی ہے اور حکومتی رٹ غیرموثر نظر آ رہی ہے، ملاکنڈ ڈویژن وزیراعلی کا آبائی علاقہ ہے انہیں چاہیے کہ حکومتی رٹ موثر اور مضبوط کریں تو حالات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
سوات ہوٹل ایسوسی ایشن کے صدر زاہد خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ایک مرتبہ پھر سوات میں طالبان لوگوں کو خطوط بھی بھیجتے ہیں، دھمکیاں بھی دیتے ہیں اور پیسے بھی مانگتے ہیں جبکہ سیکورٹی ایجنسیوں کی جانب سے بھی لوگوں کو مختاظ رہنے کا کہہ دیا گیا ہے، ”پہلے سوات میں دس ہزار پولیس تھی اب اس کی نفری پندرہ ہزار ہے جبکہ پاک آرمی بھی موجود ہے لیکن گزشتہ روز پولیس کے ڈی ایس پی اور دیگر سیکورٹی اہلکاروں کو یرغمال بنانا اور مذاکرات کے زریعے رہا کرانا طالبان کے ایک مرتبہ پھر منظم ہونے کا ثبوت ہے۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں سماجی کارکن، مزاحمت کرنے والے اور امن اور سکون کی بات کرنے والے لوگ ایک مرتبہ پھر نشانہ بن رہے ہیں اور گزشتہ روز گورنمنٹ کنٹریکٹر کو نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے قتل کر دیا ہے، بیس ہزار سیکورٹی فورسز اور پندرہ ہزار پولیس کی موجودگی میں اس طرح واقعات کے رونما ہونے پر لوگوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
یاد رہے کہ شمالی وزیرستان میں گزشتہ ایک ماہ میں سیکورٹی فورسز پر دہشت گردوں کے حملے معمول بن چکے ہیں جبکہ گزشتہ روز بھی ایک خودکش حملے میں سیکورٹی فورسز کے چار جوان شہید ہو چکے ہیں۔