سیلاب کے نقصانات: کہیں نہ کہیں ہم بھی ذمہ دار ہیں
ریشم عزیز
پاکستان میں مون سون کی بارشیں ہر سال تباہی مچاتی ہیں مگر اس سال یہ پیمانہ کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے اور یہی بارشیں رحمت کی بجائے زحمت بن گئیں جس سے پاکستان کے چاروں صوبے متاثر ہوئے۔
امسال مون سون کی بارشوں کی تباہ کاریوں پر غور کیا جائے تو پاکستان میں سب سے زیادہ صوبہ بلوچستان متاثر ہوا ہے۔ سیلابی پانی کی وجہ سے قیمتوں جانوں کے ساتھ ساتھ کاشتکاروں کی فصلیں بھی پانی کی نذر ہو گئیں۔ قدرتی آفات کے قومی ادارے نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ کی حالیہ رپورٹ کے مطابق 14 جون سے 7 اگست تک 549 افراد اپنی جانیں گنوا جبکہ 628 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق سیلاب سے سب سے زیادہ نقصان بلوچستان میں ہوا ہے جہاں پر 170، سندھ میں 121، پنجاب میں 117 اور خیبر پختونخوا میں 103 افراد اپنی جانوں سے ہاتھ سے دھو بیٹھے ہیں۔
این ڈی ایم اے کے مطابق حکومت پاکستان نے متاثرہ علاقوں میں امدادی اشیاء، خوراک، کپڑے اور دیگر اشیائے ضرویہ پہنچائی ہیں جبکہ وزیراعظم شہباز نے حالیہ دوروں میں جاں بحق افراد کے خاندانوں کو دس، دس لاکھ روپے امداد دینے کا اعلان بھی کیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ ہر سال سینکڑوں افراد اور قیمتی املاک سیلاب کی نذر کیوں ہو جاتے ہیں اور اس کی روک تھام پر سنجیدگی سے غور کیوں نہیں کیا جاتا؟ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں حالیہ سیلاب کے دوران ہم نے دیکھا کہ جب سیلابی ریلے آبادی میں داخل ہونے لگے تو ہر طرف چیخ و پکار شروع ہوئی، لوگ اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بال بچوں کے ساتھ محفوظ مقامات پر کھلے آسمان تلے پناہ لینے لگے۔
بلوچستان پہلے ہی سے معاشی اور سماجی طور پر متاثرہ علاقہ رہ چکا ہے۔ گزشتہ 22 سالوں سے صوبہ بلوچستان دہشت گردی سے متاثر چلا آ رہا ہے جہاں پر عوام کی معاشی اور سماجی زندگی سب سے زیادہ متاثر ہوئی مگر صوبے کے عوام کے مکمل حالات کا اندازہ اس لئے نہیں ہوتا کہ پاکستانی میڈیا میں ان کے مسائل کو بہت کم ہی جگہ ملتی ہے۔ ایک طرف بدامنی نے صوبے کے مسائل میں اضافہ جاری رکھا ہے اوپر سے قدرتی آفات نے رہی سہی کسر پوری کر دی ہے، سیلاب کاشتکاروں کے لاکھوں کروڑوں مالیت کے تیار باغات، فصلیں اور سڑکیں بھی اپنے ساتھ لے گیا اور اب ان علاقوں میں بسنے والے خاندانوں کے پاس کھانے کو بھی کچھ موجود نہیں یہاں تک کہ بچوں کی خوراک بھی ختم اور وہ فاقوں پر مجبور ہو گئے ہیں۔
سیلاب کی وجوہات
سیلاب آنے کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مثلاً شدید یا غیرمعمولی بارشیں اور کوہساروں پر جمی برف پگھلنا، کلائمیٹ چینج یعنی موسمیاتی تبدیلی، گلوبل وارمنگ یعنی بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے سبب گلیشئرز کا پگھلاؤ وغیرہ وغیرہ۔
بڑھتا ہوا درجہ حرارت، جسے گلوبل وارمنگ کہا جاتا ہے، عالمی آب و ہوا میں تغیرات کا سبب بن رہا ہے۔ ان تبدیلیوں کی وجہ سے کہیں غیرمتوقع طور پر شدید بارشیں ہو رہی ہیں تو کہی بدترین خشک سالی ڈیرے ڈالے ہوئی ہے۔
سیلاب کے اثرات
یوں تو ہر قدرتی آفت کے آفٹر شاکس موجود ہوتے ہیں مگر سیلاب کے اثرات بڑے واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ سیلابی پانی جب خندقوں اور کھڈوں میں کھڑا ہو جائے تو بیماریاں پھیلنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جن میں ڈینگی اور ملیریا سرفہرست ہیں۔
اس کے علاوہ سیلاب زدہ علاقوں میں بجلی کا نظام مکمل طور پر درہم برہم ہو جاتا ہے، پینے کیلئے صاف پانی تک میسر نہیں ہوتا، مہنگائی میں اضافہ جبکہ غذائی قلت کا اندیشہ رہتا ہے، انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
سیلاب نہ صرف موجودہ حالات پر منفی اثرات ڈالتے ہیں بلکہ مستقبل کیلئے خطرے کی علامت بھی ہوتے ہیں کیونکہ سیلاب سے زرعی زمینیں مٹ جاتی ہیں جو کسی بھی علاقے کی معیشت اور انسانی زندگی کی بقا میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔
سیلاب کی روک تھام
ہر سال خیبر پختونخوا، پنجاب اور بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور ادارے سیلاب کی روک تھام پر توجہ ہی نہیں دیتے، لیکن صرف حکومت ہی نہیں اس صورتحال کے ہم بھی کہیں نہ کہیں ذمہ دار ہیں کیونکہ دریا کنارے پشتوں کی عدم موجودگی اور نکاسی آب کا ناقص نظام سیلاب کے اسباب میں سے چند ایک ہیں۔ اگر دریاؤں کے کناروں پر پشتوں اور نکاسی آب پر توجہ دی گئی تو شائد دریاؤں کے قریب آبادیاں بڑے نقصان سے بچ سکیں۔
بحیثیت ذمہ دار شہری کے ہمیں بھی سوچنا ہو گا کہ دریاؤں سے دور اپنے گھر آباد کریں، کھیتوں کے ساتھ لگی پشتیں نہ گرائیں، درخت اُگائیں، کٹائی سے گریز کیا جائے۔ جنگلات میں گھاس پھوس کو آگ نہ لگائی جائے بلکہ یہ تمام معاملات محکمہ جنگلات کے ماہرین پر چھوڑنے چاہئیں۔
حکومتی سطح پر آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ سیلابی پانی کو ڈیموں میں ذخیرہ کرنا چاہئے تاکہ آنے والی تباہ کاریوں سے بچاجا سکے اور یہی پانی زراعت کیلئے استعمال کیا جائے۔ لہذا اب ان تمام معاملات پر حکومتی اور عوامی سطح پر سنجیدگی سے غور ہونا چاہئے کہ کیسے ہم سیلاب کی تباہ کاریوں کی روک تھام کریں گے اور اس کے لئے کون سے ٹھوس اقدامات اُٹھانے ہوں گے۔