ڈالر کی گراوٹ حیران کن مگر وجوہات کیا ہیں؟
محمد فہیم
پاکستان میں گزشتہ 4 ماہ کے دوران ڈالر کی قیمت مسلسل بڑھنے کے بعد 3 اگست کو اچانک سے ڈالر کی قیمت گرنا شروع ہو گئی اور تاریخ میں پہلی مرتبہ ڈالر کی قیمت ایک ہی روز میں 12 روپے تک گر گئی۔ انٹربینک میں جو ڈالر 239 روپے کا تھا وہ 227 پر آ گیا اور اس کے اگلے روز ہی مسلسل قیمت مزید گرتی گئی۔
ڈالر کی یہ گراوٹ کئی لوگوں کیلئے حیران کن بھی تھی اور خوش گوار بھی تھی تاہم ڈالر کے ایسے اچانک گرنے کی وجہ کیا بنی؟ مارکیٹ میں اگر ڈالر موجود تھے تو کہاں تھے اور اگر اب تک چھپے تھے تو وہ باہر کیسے نکالے گئے؟ ڈالر کی گراوٹ اور روپے کی قدر میں اضافہ کی 5 اہم وجوہات سامنے آئی ہیں:
ڈالر گرنے کی 5 وجوہات
1۔ پاکستان میں ڈالرز عمومی طور پر ایکسچینج کمپنیوں اور بینکوں کے پاس ہوتے ہیں اور یہ کمپنیاں اور بینک ہی ڈالرز کو ذخیرہ کرنے میں ملوث ہیں؛ سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ نے تھوڑی نرمی اور تھوڑی سختی کرتے ہوئے ان دونوں سٹیک ہولڈرز کو ایک میز پر بٹھایا اور ان سے ڈالرز نکلوائے، بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں نے مارکیٹ میں وہ ڈالرز پھینک دیئے جو وہ کئی ماہ سے اپنے پاس دبا کر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایکسچینج کمپنیوں کا ڈالر روک کر رکھنا اور اس کی قیمت بڑھانا کوئی پہلا موقع نہیں ہے، پیپلز پارٹی کے دور میں خنانی اور کالیہ انٹرنیشنل ایکسچینج کمپنی کیخلاف کریک ڈاﺅن کیا گیا تھا جس کے بعد ڈالر بھی مستحکم ہو گیا تھا۔
2۔ وفاقی حکومت نے تجارتی خسارہ کنٹرول کرتے ہوئے 2 ارب ڈالرز درآمدات کم کر دی ہیں جس کے باعث ڈالرز کا ملک سے باہر جانے کا عمل سست ہو گیا ہے۔ حکومت نے فرنس آئل کی خریداری پر بھی عارضی پابندی لگا دی ہے جبکہ پیٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے اس کے استعمال میں 25 فیصد کمی بھی ریکارڈ کی گئی ہے لہٰذا کم استعمال کیلئے درآمدات بھی کم کر دی گئیں۔
3۔ حکومت کی گزشتہ 4 ماہ سے جاری کوششیں اب مکمل ہونے کو ہیں اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں، ممکن ہے کہ اگست کے اختتام تک آئی ایم ایف حکومت پاکستان کو قرض جاری کر دے گا جس سے نہ صرف ملک میں ڈالرز کی درآمد ہو گی بلکہ دیگر بین الاقوامی بینک بھی پاکستان پر اعتماد کریں گے۔
4۔ چین کی جانب سے 2 ارب ڈالرز ایک سال کیلئے آگے بڑھا دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہ رقم پاکستان استعمال نہیں کر سکتا تاہم زرمبادلہ کے ذخائر میں موجود یہ رقم ملکی معیشت کیلئے آکسیجن سے کم نہیں ہے۔ اسی طرح سعودیہ عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر سمیت کئی دوست ممالک نے بھی حکومت پاکستان کو 4 سے 5 ارب ڈالرز دینے پر رضامندی ظاہر کر دی ہے۔
5۔ جون کے مہینے میں سمندر پار پاکستانیوں کی جانب سے ترسیل زر میں کمی دیکھنے میں آئی تھی اور جون میں دو ارب 65 کروڑ 76 لاکھ ڈالرز بھیجے گئے۔ اب تک جولائی کے اعدادوشمار جاری نہیں کئے گئے تاہم دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ جولائی میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے اور اس میں اضافہ ہوا ہے جس نے ملکی معیشت کو سہارا دیا ہے۔
پشاور کی مارکیٹ میں ڈالر کی صورتحال
پشاور کی مارکیٹ میں چند روز قبل ڈالر 247 میں مل رہا تھا جس میں اچانک سے گراوٹ آگ ئی اور اب یہ گر کر 218 پر آ گیا ہے اور اس میں مزید کمی آ رہی ہے۔
صرافہ ایسوسی ایشن چوک یادگار پشاور کے صدر عبداللہ صراف کہتے ہیں کہ اگر حکومت ایک کروڑ ڈالر بھی مارکیٹ میں ڈالے تو ڈالر مزیر بھی گر سکتا ہے، حکومت عمومی طور پر ڈالرز کنٹرول کرنے کیلئے جو اقدام کرتی ہے اس میں وہ صراف کو اعتماد میں نہیں لیتی، اگر سٹیٹ بینک بائیومیٹرک سسٹم کے تحت ڈالرز کی فروخت لازمی کر دے تو اس سے یہ آسانی ہو جائے گی کہ ڈالرز کس نے کتنی مقدار میں لئے ہیں۔
عبداللہ صراف کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک خود یہ ڈالرز بینک کو دیتا ہے اور بینک وہ ڈالرز غائب کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں لہٰذا سٹیٹ بینک کو چاہئے کہ وہ بینکوں پر نظر رکھے اور سٹیٹ بینک مارکیٹ میں ڈالرز پھینک کر اپنا روپیہ اٹھائے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈالرز مزید گرے گا اور آئندہ چند روز میں یہ ڈالر 200 روپے سے بھی نیچے آ جائے گا اور ممکن ہے 190 تک آ جائے۔
پاکستان میں ڈالر کی قیمت کا افغانستان پر انحصار
پاکستان میں ڈالر بڑھے یا کم ہو، اس کا دارومدار افغانستان کی صورتحال پر ہوتا ہے۔ تقریباً 20 سال تک نیٹو کی افغانستان میں موجودگی سے پاکستان میں ڈالرز کی ترسیل ہوتی تھی اور یہ ترسیل بڑی مقدار میں ہونے کی وجہ سے پاکستان میں ڈالر کو مستحکم رکھے ہوئے تھی۔ جو لوگ افغانستان سے علاج ، تعلیم اور کاروبار کیلئے پاکستان آتے تھے وہ ڈالرز لے کر آتے تھے لیکن جب سے نیٹو گئی ہے افغانستان سے پاکستان میں ڈالرز کی ترسیل کم ہو گئی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں اس کا منفی اثر پڑ رہا ہے۔ چوک یادگار پشاور کا سب سے زیادہ انحصار سعودیہ اور خلیجی ممالک سے آنے والے ریال اور درہم پر ہے جبکہ اس مارکیٹ میں افغانستان سے ڈالرز آتے تھے تاہم اب یہ سب رک گیا ہے اور اس کا اثر بہت زیادہ پڑ رہا ہے۔
ڈالر کی غیرمتوقع گراوٹ اور اضافہ خطرناک کیوں؟
روپے کی قدر مسلسل گرنے اور ڈالر کی قدر مسلسل بڑھنے سے جتنا خطرہ معیشت کو ہوتا ہے اسی طرح ڈالر کی مسلسل گراوٹ سے بھی مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر غلام صمد کہتے ہیں کہ ڈالر کے گرنے سے سب سے زیادہ فائدہ یہ ہو گا کہ مہنگائی قابو میں آئے گی، استحکام مارکیٹ میں نظر آئے گا اور کاروباری سرگرمیاں بھی تیز ہو جائیں گی تاہم ڈالر جب غیرمستحکم ہوتا ہے تو تجارت بھی متاثر ہوتی ہے اور تاجر برداری بھی خود کو محدود کر لیتی ہے جس سے مارکیٹ پر منفی اثر پڑتا ہے۔
ڈاکٹر غلام صمد کہتے ہیں کہ مارکیٹ کے مطابق 190 سے لے کر 205 تک کے رینج میں ڈالر رہنا چاہئے اس سے زیادہ اور کم نہیں ہونا چاہئے یہ حد ایسی ہے جس میں ڈالر بھی مستحکم ہو گا اور روپیہ بھی محفوظ رہے گا، اسی طرح سیاسی استحکام انتہائی ضروری ہے تاہم سب سے زیادہ ضروری ہے کہ روپیہ اور بھی مضبوط ہو تاہم اتنی تیزی سے ڈالر کا گرنا کئی کاروباروں کیلئے نقصان دہ بھی ہے، جتنا تیزی سے ڈالر گرنے لگتا ہے تو کئی لوگ اپنے کاروبار روک لیتے ہیں، ڈالر کا تیزی سے اٹھنا اور تیزی سے گرنا دونوں فائدہ مند نہیں ہے، حکومت کو چاہئے کہ ایکسچینج کمپنیوں کے ساتھ معاملات بہتر رکھیں، جو کام اچھے تعلق سے ہو رہا ہے تو اس کیلئے سختی کی ضرورت نہیں پڑے گی، ڈالر کا گرنا اور چڑھنا جتنا آہستہ آہستہ ہو گا اتنا ہی مارکیٹ میں استحکام رہے گا۔
انہوں نے بتایا کہ ڈالر گرنے کی ایک بڑی وجہ اپنی کرنسی کیلئے امریکی پالیسی کا تبدیل ہونا بھی ہے گو کہ یہ انتہائی کم اثر رکھتا ہے تاہم اس کا اثر موجود ضرور ہے، امریکہ اپنی کرنسی مضبوط کرنے کیلئے ڈالرز پر زیادہ سود دیتا ہے جس کی وجہ سے لوگ ڈالر وہاں لے کر جاتے ہیں اور حتی کہ پاکستان سے ڈالرز امریکہ کی جانب سے جا رہے تھے، اس میں بھی کمی آئی ہے، اس کا اثر زیادہ نہیں ہے تاہم اثر ضرور ہے۔