ایک مثالی شوہر
حمیرا علیم
جدید دور کی مغربی خاتون کے لیے ایک مثالی شوہر وہ ہے جو نوکری کے ساتھ ساتھ کھانا بھی پکاتا ہے، گھر صاف کرتا ہے، کپڑے دھوتا ہے، بچوں کو فیڈر پلاتا ہے ان کے ڈائپر تبدیل کرتا ہے۔ اتنا ہی گھر کے کام کرتا ہے جتنا کہ وہ خود کرتی ہے اور یہی سب کچھ وہ اپنی فلموں، مقبول ٹی وی شوز، وائرل ٹک ٹاک ویڈیوز اور کتب میں بھی دکھاتے ہیں۔ یوٹیوب پہ ایک نئی شادی شدہ خاتون اپنی زندگی کے بارے میں بات کر رہی تھی کہ وہ نرس ہے اور اس کا شوہر ایک مثالی شوہر ہے کیونکہ وہ گھر کے سارے کام کرتا ہے اور جب وہ چودہ گھنٹے کی شفٹ سے واپس گھر آتی ہے تو صاف ستھراگھر اور مزیدار کھانا دیکھ کر بہت خوش ہوتی ہے۔
میرا سوال یہ ہے کہ خواتین صرف اسی مرد کو ہی مثالی شوہر کیوں گردانتی ہیں جو گھر کے کاموں میں ان کی مدد کرے؟ وہ اس بات کو ترجیح کیوں نہیں دیتیں کہ شوہر ان کی اور بچوں کی سو فیصد معاشی کفالت کرے اور انہیں گھر کے اندر ہر چیز مہیا کرے، کیا یہ بہتر ڈیل نہیں؟کیا بغیر کچھ کیے مکمل معاشی تحفظ زیادہ مفید ہے یا شوہر کا گھر کے کاموں میں مدد کرنا؟کیا وہ خاتون چودہ گھنٹے کی شفٹ میں کام کرنے والی نوکری پہ گھر میں آرام کرنے کو ترجیح نہیں دے گی؟
پھر مجھے احساس ہوا کہ جن خواتین کی خواہش نوکری یا معاشی خودمختاری ہوتی ہے ان کی ترجیحات پہ نسائیت ، فیمین ازم کا اثر ہوتا ہے اور ان کے لیے مرد کا کفیل و قوام ہونا ایک بھیانک خواب ہو سکتا ہے نہ کہ ترجیح کیونکہ حقوق نسواں کی حامی کے مطابق گھر میں صرف مرد کی وجہ سے آنے والی کمائی ایک بری چیز ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ بحیثیت ایک عورت اپنی ضروریات کے لیے مرد پہ انحصار کرتی ہے یعنی کہ وہ اس کے رحم وکرم پہ ہے اور اس کے انگوٹھے کے نیچے اور اس کے قابو میں ہے اور اسے اپنے شوہر پہ ہی اعتبار کرنا ہو گا حالانکہ یہ وہ حق ہے جو اللہ تعالٰی نے اسے خود دیا اور اسے معاشی فکروں اور محنت مشقت سے آزاد کیا ہے۔
حال ہی میں مجھے ایک کتاب” Feminine Mistakes: "Are we giving up too much پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کی مصنفہ ایک امریکی حقوق نسواں کی حامی خاتون ہے جو اپنی ساتھی خواتین کو اس بات پہ ابھارتی ہے کہ وہ اپنے شوہروں پہ انحصار نہ کریں کہ وہ ان کے لیے کما کر لائیں بلکہ ماووں اور بیویوں کو چاہیے کہ نوکری کریں اور اپنے خوابوں کو پورا کریں۔اور بچوں والی ماووں کو بھی بچوں پہ کام کو ترجیح دینی چاہیے اس کا خواتین کو بنیادی پیغام یہ ہے: تم ماں اور بیوی ہوتے ہوئے بھی سب کچھ کر سکتی ہو! تم سب حاصل کر سکتی ہو! تم اعلی تعلیم یافتہ، ماہر، اعلی عہدے پہ فائز اپنے خوابوں کی تعبیر حاصل کر سکتی ہو یہ سب بڑی آسانی سےکیا جا سکتا ہے ۔
حالانکہ یہ صرف ایک تصور ہے لیکن تصورات کا یہی تو مزہ ہے کہ وہ بہت اچھے، بہت دلکش اور پرکشش لگتے ہیں۔ میں یہ سب کیوں نہیں کر سکتی؟
میں کیوں بیک وقت سب کچھ نہیں بن سکتی؟
چنانچہ بجائے چند بنیادی زمروں کے بارے میں حقیقت پسندانہ سوچ کے خواتین ان خوبصورت تصورات کو ترجیح دیتی ہیں اور سب کام بیک وقت کرنا چاہتی ہیں جو کہ مشن امپاسبل ہے اور بیشک یہ تصور ناکام ہو جاتا ہے۔
لہذا تھکی ہوئی بیویاں جو سپروومن بننے کی کوشش میں ہوتی ہیں جلد چڑ جاتی ہیں اور اپنے ان بےبس شوہروں پہ الزام دھرتی ہیں جو ان کی مدد نہیں کرتے اور ان سے سوال کرتی ہیں:” تم بھی اتنا ہی کام کیوں نہیں کرتے؟ تم بھی اتنے ہی کام سے مغلوب کیوں نہیں جتنی میں ہوں؟ تمہیں اپنا بوجھ خود اٹھانا چاییے۔
پس شوہر جو کہ خود بھی کل وقتی نوکری کر رہا ہوتا ہے اسے خود سارے کام کرنے پڑتے ہیں۔اسے نوکری بھی کرنی پڑتی ہے اور گھر آ کر کھانا بنانا، ویکیوم کرنا، برتن اور کچن بھی دھونا پڑتا ہے اور وہ بیوی کا مردانہ عکس بن جاتا ہے۔
اور وہ دونوں نرو مادہ کارکن شہد کی مکھیاں بن جاتے ہیں۔ اب دونوں ہی بہت زیادہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور دونوں ہی مغلوب، بساط سے بڑھ کے کام کر کےحد سے زیادہ تھکے ہوئے اور کم آرامی کا شکار ہو جاتے ہیں۔جب آپ ہر چیز کر رہے ہوتے ہیں، چاہے جزوقتی ہی کیوں نہ ہو، تو آپ کو کسی قسم کا استثنی حاصل نہیں ہوتا۔ آپ کو کوئی بھی کام چھوڑنے کی اجازت نہیں ہوتی۔نہ ہی کسی چیزکے بارے میں بے فکر ہو سکتے ہیں۔چنانچہ آپ ہر چیزکے بارے میں ہردم فکرمند رہتے ہیں: بلز کی ادائیگی سے لے کر ، کھانے میں کیا بنے گا، اور برتن کون دھوئے گا۔ یہ نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور نفسیاتی طور پر بھی بہت بھاری بوجھ ہوتا ہے۔
اور وقت کے ساتھ ساتھ یہ مزید بھاری، مشکل اور بوجھل ہوتا جاتا ہےخصوصا جب بچے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ بچوں کو وقت، توانائی اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ کام کرنے والے والدین کے پاس نہیں ہوتا۔یہی وجہ ہے کہ انہیں دوسرے لوگ، آیا، نوکر یا ڈے کئیر والے، پالتے ہیں۔بچے گھر رہ ہی نہیں سکتے کیونکہ ان کے ساتھ گھر پہ رہنے والا کوئی نہیں ہوتا ۔
بدقسمتی سے مسلمان خواتین نے بھی اسی نقطہ نظر کو اپنا لیا ہے اور کچھ طریقوں سے مسلم ورژن زیادہ برا ہے۔جب مسلمان خواتین کی شادی ہوتی ہے تو وہ کچھ غلط توقعات باندھ لیتی ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔وہ شوہر سے نہ صرف اسلامی حقوق جیسے کہ نان نفقہ چاہتی ہیں بلکہ غیر مسلم نظریہ کے تحت گھر میں مساوی فرائض ادا کرنے والے شوہر بھی چاہتی ہیں۔
بنیادی طور پر ، اس طرح کی نسائیت پسند خاتون ایسا مثالی شوہر چاہتی ہے جو اسے ہر چیز صد فیصد مہیا کرے کیونکہ وہ شرعا اس کا قوام ہے جبکہ وہ اپنی غیر مسلم ہم منصبوں کی طرح گھر سے باہر کام بھی کرتی رہے۔شوہر کا پیسہ’ ہمارا پیسہ’ جبکہ خاتون کا پیسہ صرف اس کا ہے اور یہ مثالی شوہر نہ صرف نوکری کرے گا بلکہ گھر آ کر سارے کام بھی کرے گا۔
لہٰذا شوہر کو نہ صرف صد فیصد مالیات مہیا کرنی ہیں بلکہ پچاس فیصد گھر کا کام بھی کرنا ہے یعنی 150 فیصد۔جبکہ بیوی گھر کے کاموں میں اس کا پچاس فیصد ہاتھ بٹانے کا احسان کرنے کو تیار ہے۔اور بقیہ وقت وہ اپنے سپنوں کو پورا کرنے میں گزارتی ہے۔یہ بالکل لغو بات ہے۔میرا کہنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ شوہر کوگھر کے کاموں میں بیوی کی مدد نہیں کرنی چاہیے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نہ صرف اپنی ازدواج کے کفیل تھے بلکہ ان کی گھر کے کاموں میں بھی مدد فرماتے تھے۔میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ یہ متعین نہیں ہونا چاہیے کہ یہ سب کام روزانہ کی بنیاد پہ ہوں اور اگر وہ اکیلا کمانے والا ہے، کیونکہ عورت اپنی کمائی گھر پہ یا اس پہ نہیں لگا رہی، تو یہ پچاس فیصد بھی نہیں ہونے چاہیے ہیں بلکہ جیسے اسے سہولت ہو ویسے وہ مدد کر سکتا ہے۔
اسلام میں مثالی شادی اور خاندان میں ازدواج کے مختلف اور متعین کردار ہیں جو کہ خاندانی ڈھانچہ وضع کرتے ہیں۔ایک مؤثر نظام میں، شوہر اور بیوی حکمت عملی کے ساتھ ذمہ داریاں اس طرح سے تقسیم کر لیتے ہیں کہ کوئی ایک ہی شخص ہر کام کرنے پہ مجبور نہ ہو۔اور دونوں فریقین اپنی طاقت کے مقدور کردار ادا کرتے ہیں۔ شوہر بیرونی دنیا سے بحیثیت بنیادی کفیل، محافظ اور سربراہ کےنمٹتا ہے جبکہ بیوی گھریلو محاذ پہ بچوں کی ماں اور تربیت کرنے والی اور گھر کی مالکن کے طور پہ کام کرتی ہے۔
غیر مسلم مثالی شوہر کا ماڈل جو کہ شہد کی کارکن مکھی کی طرح کام کرتا ہو اصل زندگی میں نہیں پایا جاتا اور نسائیت پسند مسلم خواتین کا مثالی شوہر حقوق نسواں کوسپورٹ کرتا ہے۔شادی شدہ زندگی میں ازدواج کے کردار کا اسلامی نمونہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس سے خوشی اور سکون ملتا ہے لیکن غیر مسلموں کی اندھا دھند پیروی اور نقالی میں ہم نے اپنا خوبصورت اسلامی نظام چھوڑ دیا ہے اور ان کےغیر فعال فتور کے پیچھے بھاگ رہے ہیں۔
نوٹ: اگر شوہر کے لیے یہ ممکن ہے کہ وہ اکیلا ہی معاشی بوجھ اٹھائے لیکن بیوی پھر بھی نوکری کرنا چاہتی ہے تو باہمی رضامندی سے کر سکتی ہے۔اس کے دوسرے پہلو بھی ہیں جیسے کہ گھر چلانے کے لیے دونوں کو کام کی ضرورت ہو۔ایسی صورتحال میں دونوں فریقین بات چیت کے ذریعے گھریلو ذمہ داریاں بھی بانٹ لیتے ہیں کیونکہ دونوں نے معاشی ذمہ داریوں کو بھی تقسیم کیا ہوتا ہے مگر ایسی صورتیں میرا موضوع نہیں ہیں اس لیے پلیز ان پہ بات نہ کی جائے۔