”امن”: عیدک، شمالی وزیرستان میں بیٹھے دھرنا کے شرکاء کا واحد مطالبہ
شاہد خان
شمالی وزیرستان کے علاقہ عیدک میں جولائی کے دوسرے عشرے کے اواخر سے اتمانزئی قبائل کا دھرنا آج بھی جاری ہے، جبکہ قبائل نے پلان سی پر عمل درآمد کرنے کا اعلان کر دیا ہے جس کے تحت احتجاج کا دائرہ کار مزید بڑھایا جائے گا۔
جرگہ سربراہ ملک رب نواز کے مطابق علاقے میں مجموعی طور پر 8 مقامات پر سڑکیں بند کئے جائیں گی۔ پلان سی کے مطابق علاقہ کجھوری گیٹ کے قریب سڑک کو قریبی رہائش پذیر دیہات کے اقوام بند کریں گے۔ سپین وام اور شیوہ کے قبائل اپنے علاقے میں سپین وام چوک اور تودہ چینہ کے مقام پر روڈ بند کریں گے۔ مداخیل اور منظرخیل کے اقوام محمد خیل کے مقام پر روڈ بند کردیں گے۔ میرانشاہ، درپہ خیل اور سیدگی اقوام غلام خان روڈ پر دھرنا دے کر اسے بند کریں گے۔ خسوخیل، موسکی، ایپی، خیدرخیل اور میرعلی اقوام خیسور شریف روڈ کو اور دوہ سڑک کے مقام پر بند کر دیں گے۔ عیدک، خدی زیرکی اور خکیم خیل، مبارک شاہی، تپی اور نورک بوراخیل کے قبائل عیدک کے مقام پر پہلے سے بند روڈ مکمل طور پر بند رکھیں گے۔ اور رزمک روڈ شانڈوری کے مقام پر ملحقہ قبائل یعنی وہاں کے باشندگان سڑک بند کرنے کے فرائض انجام دیں گے۔
مطالبات:
شمالی وزیرستان میں اتمانزئی قبائل کا احتجاج تیسرے ہفتے میں داخل ہو گیا ہے، مظاہرین نے عیدک کے مقام پر سڑک پر دھرنا دے رکھا ہے جس میں علاقے کے نوجوان، بزرگ اور علماء سمیت ہر طبقے کے شہری موجود ہیں۔ اتمانزئی قبائل کا پہلا اور اہم مطالبہ علاقے میں قیام امن ہے۔
منگل کے روز خیبر پختونخو ااسمبلی میں ایم پی اے میرکلام وزیر نے عیدک میں اتمانزئی قبائل کے دھرنے کے حوالے سے ایوان کو بتایا کہ گزشتہ دو ہفتوں سے شمالی وزیرستان کے قبائل سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں، تمام سرکاری دفاتر اور سرکاری امور کا بائیکاٹ کیا گیا ہے تاہم ابھی تک خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے ان قبائل کے ساتھ کسی نے رابطہ تک نہیں کیا۔
4 سال میں 480 افراد کی ٹارگٹ کلنگ
میرکلام وزیر کے مطابق 2018ء سے اب تک شمالی وزیرستان میں 480 افراد کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے لیکن ابھی تک ایک بھی قاتل یا ملزم گرفتار نہیں ہوا۔ شمالی وزیرستان میں آپریشنز کے بعد حکومت نے امن کی بحالی کا اعلان کیا تو شہری اپنے علاقوں میں واپس آ گئے تاہم اب ٹارگٹ کلنگ سے حالات خراب ہونے لگے ہیں، شمالی وزیرستان میں اس وقت غیریقینی صورتحال ہے۔ لوگ ایک مرتبہ پھر منتقل مکانی کا سوچ رہے ہیں۔ شمالی وزیرستان میں کاروبار تباہ ہے، افغانستان کے ساتھ تجارت کے تمام راستے بند ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ مظاہرین کا دوسرا مطالبہ شمالی وزیرستان میں دریافت ہونے والی گیس ہے، گیس وزیرستان میں دریافت ہوئی ہے اس لئے مقامی آبادی کو گیس کی سہولت فراہم کی جائے لیکن گیس کو ملک کے دیگر حصوں تک لے جانے کے لئے پائپ لائن بچھائی جا رہی ہے اور مقامی قبائل کو گیس کے حوالے سے کوئی پوچھتا ہی نہیں۔
ایم پی اے میر کلام کے مطابق شمالی وزیرستان میں جاری دھرنے میں ایک مطالبہ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے متاثرین کے ساتھ جو وعدے کئے گئے تھے انہیں پورا کیا جائے، اس کے علاوہ افغانستان کے ساتھ غلام خان بارڈر کے راستے تجارت کو کسٹم فری کیا جائے کیونکہ انضمام کے وقت وعدہ کیا گیا تھا کہ ضم شدہ اضلاع پانچ سال تک ٹیکس فری ہوں گے۔
خیبر پختونخوا اسمبلی میں شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر اقبال وزیر نے جواب میں کہا کہ قبائلی اضلاع میں مجموعی طور پر امن بحال ہو چکا ہے، شمالی وزیرستان میں جتنا امن فاٹا انضمام کے بعد قائم ہوا ہے پہلے نہیں تھا، شمالی وزیرستان میں ترقیاتی منصوبے شروع ہو چکے ہیں جو پہلے کبھی نہیں ہوئے۔
اس کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات پر اقبال وزیر کی جانب سے کوئی واضح بات نہیں کی گئی تاہم انہوں نے امن کو مثالی قرار دیا۔
سال 2022 میں بھی ٹارگٹ کلنگ جاری
ڈپٹی کمشنر شمالی وزیرستان نے کہا ہے کہ سال 2022 میں شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ اور قتل و غارت کے 63 واقعات ہوئے ہیں جبکہ 105 ٹارگٹ کلرز، دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور پاک فوج نے مختلف آپریشنز کے دوران قتل کر دیا اور 204 کو گرفتار بھی کیا۔
میرانشاہ میں کمانڈنٹ ٹوچی سکاؤٹس اور ڈی پی او کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر نے تسلیم کیا کہ علاقے میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس سے یہاں کے عوام کی زندگیاں اجیرن ہو چکی ہے تاہم حکومت نے قیام امن کے سلسلے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان کاوشوں اور آپریشنز کے دوران 42 جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، حال ہی میں قاری سمیع الدین اور دیگر نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث پانچ ٹارگٹ کلرز کو مقامی انتظامیہ، پاک فوج اور پولیس نے گرفتار کر کے بے نقاب کیا جو ٹارگٹ کلنگ کے مختلف واقعات میں ملوث تھے جن کی مدد سے دیگر ٹارگٹ کلرز اور گروپوں کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور بہت جلد ان تمام عناصر کو قانون کی گرفت میں لایا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان افراد کا بنیادی مقصد موجودہ امن مذاکرات کی ناکامی اور عوام اور حکومت کے مابین بداعتمادی پیدا کرنا ہے تاہم حکومتی ادارے ان کے مذموم عزائم کو کسی طور کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
دوسری جانب ڈی پی او شمالی وزیرستان فرحان خان نے دعوی کیا کہ مذکورہ 63 واقعات میں سے 30 واقعات ذاتی دشمنی جبکہ چار واقعات غیرت کے نام پر قتل کی صورت میں رونما ہوئے ہیں۔