بارشیں، سیاسی جوڑ توڑ اور سیلابی ریلے
سلمیٰ جہانگیر
بچپن میں جب بھی بارش کے لئے دعا کرتی تو امی کا یہ جملہ ہمیشہ سننے کو ملتا ”بیٹا ساتھ میں یہ بھی بولو کہ خیر کی بارش ہو” اور میں دل میں کہتی کہ یہ کیا بات ہوئی بارش تو بارش ہوتی ہے، اس میں خیر کیا چیز ہے۔ تب میں صرف بارش ہونے پر ہی زور دیتی کیونکہ طوفانی بارشوں کے بعد آنے والے خطرات اور نقصانات کا کوئی علم تھا نہ ہی کوئی ڈر!
لیکن اب جب بھی دعا مانگتی ہوں تو امی کا رٹا ہوا یہ جملہ ساتھ میں ضرور زیر لب دہراتی ہوں۔
اس مرتبہ بھی جب گرمی اور حبس نے اپنی حدیں پار کی تو ہاتھ اٹھا کے بارش کے لئے دعا مانگی اور ساتھ میں اپنی والدہ کے یاد کیے ہوئے الفاظ بھی دہرائے لیکن وہی ہوتا ہے جو منظور خدا ہوتا ہے کہ بارش تو ہوئی اور گرمی کا زور بھی ٹوٹ گیا لیکن ساتھ میں تباہی پھیلانے والا سیلاب بھی لے کر آیا جو کہ پورے ملک میں شدید جانی اور مالی نقصان کا سبب بنا۔
حالیہ مون سون بارشوں نے جہاں گرمی کا زور توڑا وہاں ملک بھر میں سیلاب نے تباہی بھی مچا دی ہے۔ نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 14 جون سے 24 جولائی تک موصول ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں آنے والے سیلاب سے 310 افراد ہلاک جبکہ 295 زخمی ہوئے ہیں۔
مون سون کی حالیہ بارشوں کے خطرات سے این ڈی ایم اے نے پہلے سے ہی عوام کو خبردار کر دیا تھا لیکن سیاسی ہلچل کی وجہ سے شدید بارشوں کے بعد ہونے والے نقصانات سے باخبرحکومت شاید یہ بھول چکی ہے کہ سیلاب نے پاکستان کے جن علاقوں میں تباہی مچائی ہے وہاں کے لوگوں کو امداد فراہم کرنا بھی ریاست و حکومت ہی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں میں ہزاروں گھر بہہ چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لوگ بھی ڈوب گئے ہیں۔ لیکن اس مالی اور جانی نقصان سے بے خبر ملک کا سیاسی ٹولہ پنجاب میں وزیر اعلیٰ کی کرسی کے لیے لڑ رہا ہے۔
سیلابی علاقوں کے لوگوں کے مطابق ان کو حکومتی امداد نہیں ملی اور نہ ہی ریسکیو والے اپنا کام کر رہے ہیں۔ لوگ اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کو سیلابی علاقوں سے نکال رہے ہیں اور ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کر رہے ہیں۔ لاہور، کراچی اور خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں بھی سیلاب کی وجہ سے سینکڑوں لوگ متاثر ہوئے ہیں۔
سیاست دانوں کی وزارت کی کرسی کے لیے تگ و دو دیکھ کرمجھے اپنے سکول کا زمانہ یاد آتا ہے جب ہم دوست کرسی کے اردگرد کھیلتے تھے کہ جو سب سے پہلے بیٹھے گا/گی تو جیت اسی کی ہو گی۔
پاکستان کا سیاسی جوڑ توڑ اتنا طول پکڑ چکا ہے کہ رواں برس اس کے حل ہونے کے کوئی ممکنہ آثار نظر نہیں آتے۔
ایسے لگتا ہے جیسے اب سیاست ملک کی بہتری اور عوام کی بھلائی کے لیے نہیں بلکہ ذاتی دشمنیاں نبھانے کے لئے ہو رہی ہے۔ جہاں باپ اپنے بیٹے کے لئے وزارت خریدنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری طرف ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کو نیچا دکھانے کے لیے فروخت ہو رہا ہے۔ غریب عوام اپنی فریاد سنانے کے لیے کس کے پاس جائیں کیونکہ تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ مشت و گریبان ہیں۔