سندس بہروز
کبھی کبھار خود پر بہت افسوس ہوتا ہے کہ سولہ برس کی تعلیم بھی مجھے لغت میں الفاظ کی تبدیل ہوتی شکل اور معنوں سے روشناس نہ کرا سکی۔
میں پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہوں۔ یہ واقعہ کچھ عرصہ پہلےکا ہے جو میں بتانے جا رہی ہوں۔
ایک کالج کی طالبات کے ساتھ ان کے امتحانی مرکز جانا تھا۔ اسے حوالے سے ایک پیغام مجھے رات تین بجے ملا۔ صبح سویرے آنکھ اسی حوالے سے کی گئی فون کال سے کھلی۔ ساتھ ہی یہ ”مکمل سپورٹ” کا پیغام بھی موصول ہوا: ”ہم آپ سے مکمل "سپورٹ” کی امید رکھتے ہیں۔”
میری سمجھ بوجھ کے مطابق سپورٹ کا مطلب امتحانی مراحل میں مدد دینا تھا، مجھے لگا میں نے میدان جنگ میں اترنے سے پہلے جوش جگانے والی تقاریر کرنی ہیں، ان میں جذبہ ایمانی کو جگانا ہے، انہیں ایمانداری کا درس دینا ہے اور ساتھ ہی انہیں یقین دلانا ہے کہ ان کی محنت ضرور رنگ لائے گی۔
ہم تو ایک لفظ جیسے سیکھ لیتے ہیں تو بس آخری دم تک اسے تبدیل کئے بغیر استعمال کرنے کا عہد کر لیتے ہیں۔
مگر ہائے افسوس میری کم علمی پر! امتحانی مرکز پہنچنے پر پتہ چلا کہ یہاں تو گہماگہمی کا ایک الگ ہی عالم ہے۔ کچھ طالبات گائیڈ سے صفحات پھاڑ کر پرزے بنا رہی تھیں جو ہم اکثر کلاس میں پیریڈ کے دوران باتیں کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے۔
کچھ ان صفحات کو جوتوں میں رکھ رہی تھیں اور کچھ ماسک میں چھپا رہی تھیں۔ کچھ آستین اوپر کر کے کتاب سے لکھ رہی تھیں۔ یہاں لڑکیوں نے اپنے لمبے بالوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوڑے میں بھی کچھ پرزے چھپا لئے۔
یہ سب دیکھ کر میں سمجھی کہ وہ شاید ایم سی کیوز دیکھ رہی ہوں گی مگر وہ تو پرزے اکٹھے کر رہی تھیں۔
قریب سے دیکھا تو جانا کہ پورے کا پورا مضمون ہی ساتھ لئے جا رہی ہیں۔ مجھے دیکھا تو کہنے لگیں کہ مس ہال بڑا سخت ہے۔ اس دیدہ دلیری پر تو بے ہوش ہوتے ہوتے رہ گئی کہ سخت ہال میں بھی ان کا یہ حال ہے، اگر نہ ہوتا تو کیا ہوتا۔
اساتذہ کا کردار اور نقل کے لئے عقل
اساتذہ بھی طلبا کو امتحانی مرکز کے اندر بھیجنے کے لئے بے چین دکھائی دیئے۔ وہ بار بار اپنے موبائل فون بھی دیکھ رہے تھے۔ مجھے لگا وقت دیکھ رہے ہوں گے مگر یہ معمہ بھی تھوڑی دیر بعد حل ہواجب ان کے فون پر ایم سی کیوز کے جوابات بذریعہ پیغام موصول ہوئے۔
انہوں نے وہ جوابات ایک چھوٹے سے کاغذ پر لکھے اور وہاں صفائی ستھرائی کا کام کرنے والی ایک ملازمہ کے ذریعے اندر بھجوا دیئے۔ ملازمہ راکڈ، میں شاکڈ۔
پھر تو مانو اساتذہ نے رفتار ہی پکڑ لی اور کرنے لگے طلبا کی مکمل سپورٹ! تمام سوالوں کے جوابات حتی کے مضامین بھی ملازمہ کے ہاتھ امتحانی کمروں میں بھجوا دیئے گئے۔
جی۔۔۔۔ تو یہ تھی وہ سپورٹ جس کی امید مجھ سے بھی لگائی گئی تھی۔ تو یوں مجھے سپورٹ کے نئے مطلب کا پتہ چلا۔
لیکن میں حیران اس بات پر ہوں کہ سال بھر اساتذہ نے طالب علموں کے ٹیسٹ کیوں لئے پھر؟ یعنی امتحان لینے کے وہ ریکارڈ قائم کیے کہ طلبا اساتذہ سے ہی بیزار ہو گئے اور اساتذہ خود سے۔
سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ طالبات پورا سال کیا کر رہی تھیں؟ اگرکالج میں ان سے اتنی محنت کرائی گئی تھی تو کیا اس محنت کو امتحان میں رنگ نہیں لانا چاہئے تھا؟ اس سے تو صاف ظاہر ہے کہ اساتذہ اور طالبات دونوں کو ہی اپنی محنت پر بھروسا نہیں۔
امتحانی مائیکرو یا بددیانتی کے پرزے
امتحانی مائیکرو دکانوں اور بازاروں میں عام دستیاب ہیں۔ ان کی آسان دستیابی طلباء میں نقل کے رجحان کے فروغ کا ہی ایک ذریعہ ہے۔ اساتذہ تو پھر بھی نقل کی یہ تجارت چوری چھپے کرتے ہیں مگر بازاروں میں گیس پیپرز کی کھلم کھلا دستیابی اس بات کی دلیل ہے کہ محکمہ تعلیم اس رجحان کو جانتے بوجھتے ہوئے نظر انداز کر رہا ہے۔ ورنہ کیوں ان کی چھپائی اور فروخت کو نہ روکا جاتا اور ایسا کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جاتی مگر ایسا نہیں ہے۔
سچ مانئے تو امتحانی مرکز پر طلبا اور اساتذہ کو تعلیم کا مذاق اڑاتے دیکھ کردل بوجھل ہوا کہ کیسے پرزوں کی اس تجارت نے تعلیم کو برباد کر دیا۔
اساتذہ رول ماڈلز ہوتے ہیں۔ طلباء ہم سے سیکھتے ہیں، ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔ تو کیا دوسرے الفاظ میں ہم ان طالب علموں کو بے ایمانی کا سبق دیتے بددیانتی کے پرزے تھما رہے ہیں؟
سندس بہروز ٹیچنگ کے شعبے سے وابستہ ہیں، ریڈیو شوز کرتی ہیں اور صنفی موضوعات پر بلاگ اور شارٹ اسٹوریز بھی لکھتی ہیں۔
انسٹاگرام: @sundas_ behroz