جرائم

”5 سال کی عمر میں سگے ماموں نے اپنی ہوس کا نشانہ بنایا”

ناہید جہانگیر

”جب می ٹو والا دور آیا تو ایک دن مجھے بھی بہت شوق ہوا کہ کیوں نا میں بھی اس می ٹو کا حصہ بنوں لیکن پھر وہی خیال آیا کہ لوگ اور شوہر کیا کہیں گے۔”

ثمینہ (فرضی نام ) جب 5 سال کی تھیں تو امی نے نانی کے گھر چھوڑا، والدہ ننھیال کی تمام خواتین کے ساتھ میت پر گئیں۔ شاید وہ دن قیامت کا تھا لیکن اللہ کا قانون ہے کہ ہر چیز کا وقت مقرر کیا ہے ویسے ہی قیامت کا بھی دن مقرر ہے جو وقت سے پہلے نہیں آ سکتی۔

ماموں جو سب سے زیادہ بھروسے کا بندہ ہوتا ہے، اس نے اسے جنسی تشدد کا نشانہ بنایا اور ساتھ میں ڈرایا بھی کہ اگر کسی کو کہا تو اگلی مرتبہ گلا دبا کر جان سے مار دوں گا۔ اور پھر وہ کتنی مرتبہ شکار ہوتی گئی۔

جب سات سال کی ہوئی تو ذہنی طور پر کافی کمزور ہو گئی تھی لیکن شائد دل بہت مضبوط ہو گیا تھا، نانی کے گھر جانا چھوڑ دیا ماموں کے سامنے نہیں آتی تھی جو والدہ کو اچھا نہیں لگتا تھا۔

ہر کسی سے ڈر لگتا تھا جس نے تعلیمی کارکردگی کو بھی کافی متاثر کیا، کبھی بھی سکول میں کسی کو بھی سہیلی نہیں بنایا، چپ کا تالہ تھا زبان پر، اپنے کام سے کام رکھتی تھی۔

ثمینہ کی شادی جلدی کر دی گئی جب وہ ایف اے سے فارغ ہو گئی تھی۔ ان کی شادی کو 16 سال ہو گئے ہیں، 3 بچوں کی ماں ہیں لیکن اعتبار کسی پر بھی نہیں کرتیں، وہ کسی کے ساتھ بھی زیادہ لین دین نہیں رکھتیں اور اپنے بچوں کو ماموں کے ساتھ آس پاس بیٹھنے بھی نہیں دیتیں۔ وہ تلخ واقعہ جو ان کے ساتھ ہوا، اس کے بعد اب اپنے بھائیوں پر بھی اعتبار نہیں کرتیں۔

بقول ان کے ان کو تو زندہ چھوڑ دیا گیا تھا لیکن اب تو حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ جنسی عمل کرنے کے بعد قتل کر دیتے ہیں۔

یاد رہے کہ پشاور شہر صدر میں ایک ہفتہ کے دوران 3 بچیاں جنسی عمل کے بعد قتل کی گئی ہیں۔

گروپ ڈویلپمنٹ پاکستان پشاور کے پراجیکٹ کوآرڈینیٹر ہیں عمران ٹکر کے مطابق نومبر 2021 تک خیبر پختونخوا میں کل 1 سو 35 بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا جن میں 65 لڑکیاں جبکہ 70 لڑکے شامل تھے اور ان کی عمریں 1 سال سے 5 سال کے درمیان تھیں، ”اسی طرح سال 2020 میں کل 3 سو 23 کیسز ہوئے جن میں 2 سو 72 لڑکے جبکہ 51 لڑکیاں شامل تھیں۔ 7 کیسز ان بچوں کے رجسٹرڈ ہوئے جو جنسی تشدد کے بعد قتل کئے گئے تھے۔ قتل ہونے والوں میں 3 لڑکے اور 4 بچیاں شامل تھیں۔”

ماہر ذہنی امراض ڈاکٹر اعزاز جمال نے اس حوالے سے بتایا کہ جب بھی بچے کسی بھی رشتہ دار کے سامنے نا آنا چاہیں تو اس پر زور زبردستی نا کریں، ضرور کوئی نا کوئی وجہ ہوتی ہے، اس طرح جو بچے خاموش رہنے لگتے ہیں کھیل کود یا دوست بنانے میں دلچپسی نہیں رکھتے ان کو ضرور ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے، وقت کے ساتھ ساتھ یہی ڈپریشن، ذہنی تناو و پریشانی بڑے بڑے مسائل میں تبدیل ہو جاتے ہیں، جو بچے بچپن میں خود جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں پھر وہی بڑے ہو کر انتقام کی صورت میں دوسرے بچوں کے ساتھ وہی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ ہوا ہوتا ہے یا پھر اپنے رشتہ داروں پر اعتبار نہیں کرتے کہ کہیں ایسا نا ہو جو ان کے ساتھ ہوا مستقبل میں ان کے بچوں کے ساتھ بھی ہو جائے۔

انہوں نے بتایا کہ بچوں میں جب بھی معمول کے برعکس تبدیلی دیکھیں تو ان کو وقت دیں ان کے روزمرہ معمولات پر نظر رکھیں، زیادہ تبدیلی کی صورت میں بچوں کی کونسلنگ کریں یا کسی بھی ماہر ذہنی امراض سے معائنہ کرائیں، 80 فیصد ابیوزر اپنے رشتہ دار ہی ہوتے ہیں ماموں، چچا، کزن وغیرہ۔

ایک متاثرہ لڑکی کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر اعزاز جمال نے کہا کہ وہ لڑکی اپنے ہی والد کے ہاتھوں جنسی تشدد کا شکار ہوتی تھی حالانکہ وہ خود میڈیکل کی طالبہ تھی، جہاں تک جنسی تشدد کرنے والے لوگ ہیں ان کو ایک بیماری ہوتی ہے، ایسے بیمار کو پیڈو فائل کہتے ہیں، یہ ایسی ذہنی بیماری ہے جس میں مریض ہوش میں نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے اور اکثر جنسی عمل کے بعد بچہ بچی کو قتل بھی کر دیتے ہیں، اکثر ذاتی دشمنی کی وجہ سے بھی بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، منشیات کا عادی یا جرائم پیشہ افراد بھی بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور ایسے لوگ ذہنی طور پر بیمار ہوتے ہیں۔

32 سالہ نوشین بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے بتاتی ہیں کہ وہ خود بچپن میں شکار ہوئیں جب چھٹی جماعت میں پڑھتی تھیں، ایک دن ان کی طبیعت خراب ہوئی تو والد صاحب ان کو پشاور سی ایم ایچ لے کر آئے، ڈاکٹر نے معائنہ کرنے کے دوران بہت ہی غلط غلط طریقے سے چھوا، حیرانگی اس بات پر ہوئی کہ والد موجود تھے۔

اثرات کے حوالے سے نوشین نے کہا کہ وہ دن اور آج کا دن ہے کہ اول تو وہ ڈاکٹر کے پاس جاتی نہیں ہیں لیکن اگر جانا بھی ہوتا ہے تو وہ صرف لیڈی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہیں۔

اسلام بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے کیا کہتا ہے، اس حوالے سے جب مفتی غلام ماجد، سینئر ریسرچ آفیسر اسلامی نظریاتی کونسل اسلام آباد سے رابطہ ہوا تو انہوں نے بتایا کہ اسلام لوگوں سے بھلائی کا درس دیتا ہے ہر قسم کے گناہ سے منع کرتا ہے، جہاں تک جنسی عمل کی بات ہے بہت ہی بڑا گناہ ہے اور شریعت میں ریاست یا قاضی کو اختیار دیا گیا ہے کہ جرم کی سنگینی، مجرم کی کیفیت اور حالات و واقعات کو مدنظر رکھ کر سزا دیں، اسلام میں جنسی عمل کرنے والے کے لئے سزا کو حد کہتے ہیں، جس مرد نے کسی کے ساتھ جنسی عمل کیا اگر وہ مرد غیرشادی شدہ ہے تو مجرم کو 100 کوڑے دینے کا حکم ہے اور اگر شادی شدہ ہے تو سنگسار کرنے کا حکم ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک جنسی عمل کرنے کے بعد قتل کا معاملہ ہے تو یہ اسلام میں سنگین جرم ہے، قرآن پاک میں ہے کہ مومن کو جان بوجھ کر قتل کرنے والا جہنم میں جائے گا اور دنیا میں اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو گی۔ جبکہ دنیا میں سزا قصاص کا ہے، جرم ثابت ہونے پر مجرم کو قصاص کیا جائے یہ سزا اس لئے ہے کہ کوئی اپنے قتل کے ڈر سے کسی دوسرے کا قتل نا کرے۔

ایڈووکیٹ طارق افغان نے کہا کہ خیبر پختونخوا چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر ایکٹ سیکشن 53 بچوں کے ساتھ بدفعلی سے معتلق ہے جس کے تحت جس کے خلاف بھی مقدمہ درج ہوتا ہے تو جرم ثابت ہونے پر 14 سال قید کی سزا سنائی جاتی ہے، اگر جنسی تشدد کے بعد قتل کیا جائے تو 302 دفعہ ہے جس میں عمر بھر قید کی سزا یا سزائے موت سنائی جاتی ہے اور مجرم کو ضمانت پر رہائی بھی نہیں دی جاتی۔

انہوں نے بتایا کہ چائلڈ پروٹیکشن ایکٹ نے بچوں کے تشدد کے خلاف تمام امور کو بہت ہی اچھے طریقے سے کور کیا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں بدقسمتی سے قانون بن جانے کے بعد اس پر عمل نہیں کیا جاتا یا اس کو اس طرح سے استعمال نہیں کیا جاتا، لوگوں کو بہت ہی زیادہ آگاہی کی ضرورت ہے بچے پر جنسی تششدد کرنا بچے کا قصور نہیں ہے لیکن پھر بھی لوگ شرم کی وجہ سے مقدمہ درج نہیں کرتے یا پھر مقدمہ کرنا ان کو زیادہ دقت دینے والا معاملہ لگتا ہے یا پھر غربت کی وجہ سے مقدمہ درج ہی نہیں کرتے کہ وہ غریب لوگ ہیں کسی سے دشمنی نہیں کر سکتے۔

دوسری جانب سائیکالوجسٹ ڈاکٹر عرشی ارباب بچوں پر جنسی تشدد کے حوالے سے کہتی ہیں کہ پچھلے کئی سالوں سے بچوں پر جنسی تشدد کے واقعات بڑھ رہے ہیں، جنسی تشدد کرنے والوں کی عمر 16 سے 24 عمر کے درمیان ہوتی ہے وہ کیوں بچوں کو جنسی تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اس کی کچھ اہم وجوہات ہیں، اس عمر میں لڑکوں میں ہارمونز ہوتے ہیں جو ان کو سیکس کے لیے بوسٹ کرتے ہیں اور اس عمر میں سیکس فیلنگ بھی زیادہ ہوتی ہیں جس کی وجہ سے کم عمری میں غلطی کر لیتے ہیں۔

ڈاکٹر عرشی ارباب کے مطابق جنسی خواہش یا تو نو عمری میں پیک/عروج پر ہوتا ہے یا پھر 60 سال کے مردوں میں بہت پایا جاتا ہے، بزرگان میں وجہ یہ ہوتی ہے کہ بیوی زیادہ وقت نہیں دے پاتی، خود کو مطمئن کرنے کے لیے وہ پھر لڑکوں کے پیچھے گومتے ہیں جہاں بھی کسی بچے کو دیکھا تو آسانی سے قابو میں کر کے زیادتی کر دیتے ہیں جو ایک بہت ہی بڑا المہ ہے، ”دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں سیکس ایجوکیشن نہیں ہے، اسے بہت ہی معیوب سمجھا جاتا ہے کہ بچوں کو بتایا جائے ان میں جسمانی کیا کیا تبدیلیاں رونما ہوں گی اور کیوں، تاکہ وہ اپنی بلوغت کی تبدیلیوں سے واقف ہوں لیکن ہمارے معاشرے میں سیکس ایجوکیشن کیا بلکہ اس پر بات نا کرنے کے لیے لڑکا لڑکی کو سپریس کیا جاتا ہے، شرم کی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک ضرورت ہے۔ اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے یا خود کو مطمئن کرنے کے لیے 70 سے 80 فیصد لڑکے کوئی بھی غلط راستہ اختیار کر لیتے ہیں، ایسے نوجوان یا تو چھوٹے بچوں یا بچیوں کو ہوس کا نشانہ بناتے ہیں، کیوں جنسی تشدد کے لیے بچوں کا انتخاب کرتے ہیں اس لیے کہ وہ چھوٹے ہوتے ہیں اور جلدی کنٹرول میں آ جاتے ہیں، ابیوزر کی عمر 16 سے 20 جبکہ شکار ہونے والے بچوں کی عمریں 2 سال سے 5 سال تک ہوتی ہے، سیکس کے بعد زیادہ ڈر کی وجہ سے بچوں کو قتل کر دیا جاتا ہے کہ کہیں اس بات کا ذکر کسی سے نا کریں۔

عرشی ارباب نے کہا کہ بچوں پر جنسی تشدد کی ایک اور اہم وجہ ہمارے ہاں خاندانوں کا مل جل کر ایک ہی گھر میں رہنا بھی ہے۔ جب بھی گھر کے بڑے کہیں جاتے ہیں تو بچوں کو دوسری فیملی کے حوالے کر دیتے ہیں یا دوپہر کو خود سو جاتے ہیں جبکہ بچے کیھلتے ہیں، ان حالات میں کافی آسانی ہوتی ہے کہ بڑے کزن چھوٹے کزن کو جنسی ہوس کا شکار بنا دیں، آج کل جو جنسی تشدد کی زیادہ وجہ بن رہی ہے وہ ہے موبائل کا بے دریغ استعمال، وہ جو بھی دیکھنا چاہتے ہیں آسانی سے دیکھ سکتے ہیں، والدین پڑھے لکھے ہیں نہیں کہ وہ اس طرح سے بچوں پر نظر رکھ سکیں کہ ان کے بچے موبائل میں کیا دیکھ رہے ہیں، اس کا سب سے برا اثر یہی ہوتا ہے کہ رات کو جو دیکھا ہوتا ہے وہی صبح ذہن میں چل رہا ہوتا ہے، وہ وہی عمل کرنا چاہتا ہے جو اس نے صرف پورن ویڈیو میں دیکھا ہوتا ہے، جیسے ہی کوئی موقع ہاتھ آتا ہے وہی کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر عرشی ارباب نے جنسی عمل کے بعد قتل کے حوالے سے کہا کہ جنسی تشدد میں جتنے بھی قتل ہوئے ہیں وہ اس خوف کی وجہ سے کہ یہ بچہ یا بچی اس کی نشاندہی نا کرے کہ فلاں نے اس کے ساتھ غلط کام کیا ہے، بہت سے کیسز میں جنسی تشدد کے بعد متاثرہ بچے نے نشاندہی کی ہے اور مجرم کو سزا مل چکی ہے، ان حالات کو کیسے اور کس طرح کنٹرول کیا جائے تو اس ضمن میں والدین کی اولین ذمہ داری ہے، جب بھی بچے بلوغت کو پہنچتے ہیں تو ان کی نیند ڈسٹرب ہو جاتی ہے جیسے یا تو زیادہ سونا یا پھر رات کو دیر تک جاگتے رہنا، بات بات پر غصہ کرنا، خوراک متاثر ہو جانا یا تو بہت زیادہ کھانا یا بہت کم کھانا، ان حالات میں والدین کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بہت ہی ٹیکنیکل انداز میں اور تحمل سے اپنے بچوں کو ہینڈل کریں، اگر نا کیا جائے تو بچے گھر کی جگہ باہر رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اور باہر ہر قسم لوگوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے ان کی یہ عارضی عادتیں مستقل بن جاتی ہیں۔

عرشی ارباب کے مطابق والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں پر کڑی نظر رکھیں، سکول پروگریس ہر مہینے خود سکول جا کر چیک کریں، کن لوگوں کے ساتھ دوستی ہے وہ دیکھیں، کہیں بچے اپنی عمر سے زیادہ عمر کے لڑکوں کے ساتھ دوستی تو نہیں کر رہے، جو بچے ہم عمر بچوں کے ساتھ دوستی کرتے ہیں ٹھیک ہے ورنہ خیال رکھیں، اسی طرح مدرسہ جانا وہاں کے مولوی یا قاری سے ملاقات کرنا، موبائل چیک کرنا بھی بہت ضروری ہے۔

Show More

متعلقہ پوسٹس

Back to top button