پاک افغان ٹریڈ کو ترقی دینے کیلئے سیاست سے الگ رکھا جائے: پاک افغان چیمبر
رفاقت اللہ رزڑوال
پاک افغان تاجروں نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان کاروبار کو ڈالروں کی شکل میں بحال کیا جائے اور کاروبار کو سیاست سے دور رکھا جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کاروبار معمول کے مطابق جاری رہے۔
پشاور کے ایک نجی ہوٹل میں پاک افغان تاجروں کا ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں کہا گیا کہ پاک افغان سرحدات پر کاروبار کیلئے بنائی گئیں پالیسیاں مقامی تاجروں کی خواہشات کی بنیاد پر ترتیب دی جائیں تاکہ پیش آنے والے مسائل کا تدارک ہو سکے۔
یہ اجلاس ایسے حال میں بلایا گیا جب 18 سے 20 جولائی تک پاکستان کے تاجروں کا سرکاری وفد افغانستان کا دورہ کر چکا تھا جس کے بعد پاکستانی سفارتخانے اور طالبان حکام نے کہا کہ دورے میں کاروبار کو وسعت دینے، ٹرانزٹ، مسافروں کیلئے بارڈر پر ویزوں میں آسانی، بارڈر پر درپیش مسائل کے حل پر بات چیت ہوئی ہے۔
مذکورہ اجلاس کو پاکستان اور افغانستان کے تاجروں نے خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ دورے میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد یقینی بنانا چاہئے کیونکہ اس سے پہلے بھی کئی دفعہ ایسے فیصلے کئے گئے تھے سیاسی اختلافات کی وجہ سے جن پر عملدرآمد نہیں کیا گیا۔
پاکستان اور افغانستان کے تاجروں کے مشترکہ چیمبر کے صدر خان جان الکوزئی نے کہا کہ پاک افغان تجارت دن بہ دن گھٹتی جا رہی ہے اور چاہتے ہیں کہ درآمدات اور برآمدات میں پیش آنے والی مشکلات حل ہو جائیں اور تجارت آگے بڑھے۔
انہوں نے ٹی این این کو بتایا کہ پاکستانی وفد کے دورے کے دوران بارڈر کے دونوں اطراف کسٹم حکام سے ملاقات کی اور ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ ٹرانزٹ اور تجارتی گاڑیوں کو فوری طور پر کلیئر کرایا جائے گا، پاکستان کے تاجروں کی تجاویز سنی جائیں گی تاکہ تجارت کو مزید فروغ دے سکیں۔
خان جان الکوزئی کا کہنا تھا "پاکستان کے ساتھ تجارت کم ہوئی ہے، پہلے پاکستان اور افغانستان کے درمیان 3 ارب ڈالر تک تجارت ہو رہی تھی مگر اب یہ گھٹ کر ایک ارب ڈالر تک آ گئی ہے، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ہر دور میں کاروبار سیاست کا شکار ہوتا رہا ہے، سیاست کو کاروبار سے الگ رکھنا چاہئے۔”
انہوں نے کہا کہ کراچی سے افغانستان تک سالانہ 1 لاکھ 70 ہزار کنٹینرز جاتے تھے مگر اب یہ 50 ہزار تک رہ گئے جس کی کمی پوری کرنے کیلئے چاہ بہار اور دیگر ممالک سے رابطے کرتے ہیں، پہلے ہم دس ہزار ٹن سیمنٹ پاکستان سے درآمد کرتے تھے مگر اب یہ شرح دو ہزار ٹن تک بھی نہیں رہی باقی کمی وسطی اشیاء تاجکستان، ازبکستان سے پوری کرتے ہیں۔
خان جان الکوزئی نے بتایا "اصل مسئلہ نیتوں کا ہے، نزدیک ترین ملک پاکستان ہے اور اس سے نزدیک ترین راستہ کوئی نہیں اگر کوئی صاف نیت سے چاہے کہ سیاست کو اقتصاد اور تجارت سے الگ رکھیں۔”
پشاور میں خیبر چیمبر گروپ کے قائد سید جواد حسین کاظمی نے بتایا کہ خیبر پختونخوا کے کاروباری افراد چاہتے ہیں کہ بارڈر ٹریڈ کیلئے بننے والی پالیسیاں خیبر پختونخوا کے کاروباری افراد کی خواہشات کے مطابق ترتیب دی جائیں تاکہ یہاں کے مقامی افراد کاروبار کے ساتھ جڑے رہیں۔
جواد کاظمی نے ٹی این این کو بتایا "اب پاک افغان بارڈر پر ٹریڈ کیلئے پالیسیاں کراچی میں بیٹھے تاجروں کی خواہشات کے مطابق ترتیب دی جاتی ہیں جس سے لوکل ایکسپورٹر کو نقصان پہنچتا ہے لیکن آج کے اجلاس میں یہ طے ہوا کہ بارڈر پر ٹریڈ لوکل اور ریجنل چیمبرز کریں گے۔”
انہوں نے کہا کہ جب سے 2021 اگست میں طالبان کی حکومت آئی ہے تو کاروبار میں کوئی ایسے تکنیکی مسائل سامنے نہیں آئے ہیں لیکن راستہ تنگ ہے، پل نہیں اور گاڑیوں کی آمدورفت میں مسائل ہیں تو اگر یہ مسائل حل ہوئے تو کاروبار مزید فروغ پائے گا۔
آل خیبر پختونخوا کے ایکسپورٹر ایسوسی ایشن کے نائب صدر عامر اللہ نے کاروباری مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایکسپورٹرز کو ڈالرز اور روپیوں میں بینکنگ چینلز کے مسائل درپیش ہیں، اس سے بھی کاروبار پر منفی اثرات پڑے ہیں۔
عامر اللہ کا کہنا تھا کہ حکومت نے پاک افغان ٹریڈ کیلئے تین طریقے واضح کئے ہیں جن میں ڈالروں، پاکستانی روپے اور مال کے بدلے مال میں کاروبار شامل ہیں لیکن ایک طرف دونوں ممالک میں ڈالروں کی کمی ہے جبکہ دوسری طرف پاکستانی روپوں کیلئے کوئی قانونی طریقہ کار یا بینکنگ چینل موجود نہیں اور دوسرا یہ کہ پاکستان سے کئی سو اجناس افغانستان برآمد کی جاتی ہیں جبکہ افغانستان میں اُتنا مال نہیں ہوتا کہ اس کے بدلے ہم وہ وصول کر سکیں۔
انہوں نے کہا کہ جب وہ افغانستان میں پاکستانی روپے کے بدلے میں مال فروخت کرتے ہیں تو حکومت کی اجازت کے باوجود بھی وہاں سے موصول ہونے والی رقم کے بارے میں ایف آئی اے اور نیب پوچھ گچھ کرتے ہیں اور ایکسپورٹرز پر الزام لگاتے ہیں کہ انہوں نے یہی رقم منی لانڈرنگ کر کے وصول کی ہے۔
انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ پاکستانی روپے میں ٹریڈ کیلئے قانونی چینل کا انتظام کیا جائے اور جنس کے بدلے جنس والے فیصلے کو واپس لیا جائے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کاروبار فروغ پا سکے۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل میں پاکستانی سفارتخانے نے پاکستان کے سرکاری وفد کے دورے کے بعد جاری بیان میں کہا کہ سیکرٹری تجارت محمد صالح احمد فاروقی کی قیادت میں افغانستان کے نائب وزیر برائے تجارت نورالدین عزیزی کے ساتھ ملاقات کی ہے۔
بیان میں کہا گیا "دونوں ممالک اس بات پرمتفق ہوئے ہیں کہ رواں سال دونوں ممالک بارڈر پر گاڑیوں کی کلئیرنس جلد کریں گے اور تاجروں کو آنے جانے کیلئے عارضی اسناد دی جائیں گی، بارڈر پر گاڑیوں سے سامان کو نہیں اتارا جائے گا جس سے تجارت کو مزید فروغ ملے گا۔”
اعلامیے کے مطابق طورخم، خرلاچی، غلام اور چمن بارڈر پر ٹریڈ کا دورانیہ بڑھایا جائے گا اور کسٹم حکام سامان کی کلیئرنس کیلئے نظام کو مزید بہتر کریں گے۔