پیغور ( طعنہ )
مہرین خالد
پیغور یعنی ” طعنہ ” سننے میں تو بہت چھوٹا سا لفظ ہے لیکن اس کو سن کر یا تو برداشت کرتے ہیں یا پھر طیش میں آکر کوئی ایسا کام کرڈالتے ہیں جس کو نہیں کرنا چاہئے۔
میمونے سے شیر عالم کی جان لیوا محبت
میمونے اور شیر عالم کی لوک داستان میں نے نویں یا دسویں جماعت میں پڑھی تھی۔ پڑھتے پڑھتے یوں لگنے لگا تھا جیسے محبت کے سفر کی بجائے میمونے کا موت کی وادی کی طرف جانے کا سفر ہو ۔
شیرعالم خوبصورتی کی معاشرتی تشریح پر پورا نہیں اترتا تھا۔ دوسری طرف میمونے اس تشریح کے حساب سے حسن و جمال کا پیکر تھی۔ شیرعالم میمونے کا ماموں زاد تھا، وہ میمونے کی ظاہری خوبصورتی کی وجہ سے اس سے محبت کرتا تھا۔
جب دونوں کی شادی ہوچکی تھی تو کسی تقریب کے دوران شیرعالم کی غیر موجودگی میں اس کا دوست اس کے دروازے پر میمونے کو مخاطب کرکے کوئی چیز لینے آیا۔
کچھ عرصے بعد شیر عالم کا کسی جھگڑا ہوا تو اسی دوران کسی نے یہ اسے یہ پیغور( طعنہ ) دیا کہ تمھاری بیوی راتوں کو غیر مردوں سے باتیں کرتی ہے۔
یہ پیغور شیر عالم کی محبت پر بھاری پڑ گیا۔ وہ میمونے کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتا ہوا گاؤں سے دور لے گیا اور وہاں اس کا گلا کاٹ ڈالا۔ ذبح کردیا پیغور نے شیر عالم کی میمونے کے لئے محبت کو۔
بنوں کی وہ ایک رات
معمول کے مطابق گاؤں میں بجلی نہیں تھی۔ ہم چارپائی پر آسمان تلے لیٹے تھے۔ ہر طرف ہو کا عالم تھا۔ ایسے میں کتوں کے بھونکنے کی آواز سے وحشت محسوس ہو رہی تھی۔ تب ہی امی کی پھوپی سکینہ ادے نے جیسے ہمارے احساس کو زبان دے دی ہو۔ کہا کتوں کی آواز سے وحشت ٹپک رہی ہے۔
ٹپولا اور ان کی بہن جو والدین کے سائے سے محروم تھیں، ان کے چچا زاد بھائی شہروز خان چچا ( فرضی نام ) اور ان کا بھائی ان دو بہنوں سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ وہ خاندان کی دولت کو باہر جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔ مگر ٹپولا اور اس کی بہن شادی کے لئے رضامند نہیں تھیں۔ بات جب ضد اور آنا کی ہو تو کسی ایک کو مرنا ہی پڑتا ہے۔
شہروز خان شادی ہر بضد مگر ٹپولا کا پیغور کہ ” ہم تمہیں گلی کے کتے کے برابر بھی نہیں سمجھتے ” ہیں۔ یہ طعنہ دینا ہی ٹپولا اور اسکی بہن کی موت کی وجہ بنی۔ شہروز خان نے اگلے روز ٹپولا کی بہن کو تو گولی مار کر موت کی نیند سلا دیا۔ مگر ٹپولا کو سب کے سامنے بالوں سے پکڑ کر گھسیٹتے ہوئے گاؤں سے لے جانے لگے۔ گاؤں کی عورتیں کہتی رہیں کہ چھوڑ دو اسے لیکن پیغور کا ا تنا گہرا اثر تھا جو ٹپولا کو مار کر ہی زائل ہوتا۔
وہ ٹپولا کو وزیرستان لے گیا۔ اس کو کچھ اور مہلت دی کہ شائد وہ شادی کرنے پر راضی ہو جائے لیکن ٹپولا جانتی تھی کہ موت ہی اسکی منزل ہے تو اس نے موت کو ہی چنا۔
سنا ہے ٹپولا کے آخری الفاظ یہی تھے ” اگر کسی کو دولت چاہیے ہو تو میری قبر پہ آکے دولت کی دعا مانگے ” شہروز خان جو اب گائوں کی مسجد کے موزن ہیں، معلوم نہیں کہ الله کو اپنی بے گناہی کا ثبوت دیتے ہیں یا ٹپولا تک اپنی ندامت کا احساس پہنچاتے ہیں۔
طعنہ اور ہماری زندگی
ہماری زندگیوں پر طعنے کا اتنا اثر ہے کہ اس کے آگے کوئی بھی دلیل کام نہیں آتے۔ محبت بھی پسند بھی اور زندگی بھی یہ ہماری ضد اور آنا ہی ہوتی ہے جو ہم پر اس قدر حاوی ہوتی ہے کہ سارے رشتوں کا بھرم توڑ دیتی ہے جیسے میمونے اور ٹپولا دونوں کو ہی کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا۔
ہم نے باشعور معاشرہ بنانے کے لیے عبرت کی مثال کے طور پرایسی لوک داستانیں تو لکھ دیں مگر بد قسمتی سے اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی بجائے ہم نے انہیں اپنی زندگی کا حصہ بنا لیا۔ لکھنے والے لکھ گئے پڑھنے والے پڑھ گئے لیکن پیغور یعنی طعنہ آج بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہے۔
ہمیں یہ بات سمجھنی ہی ہوگی کہ طعنے صرف طعنے ہوتے ہیں، ان میں کوئی معنی ڈھونڈنا یا ان کے اثر میں آجانا درست نہیں ہے۔ ان کے اثر میں آنے کے بجائے خاتمے کے لئے سوچنا ہوگا۔
کیا کبھی آپ کو بھی کسی نے پیغور سے چھلنی کرنے کی کوشش کی؟
مہرین خالد ضلع بنوں سے تعلق رکھتی ہیں اور ٹی این این کے ساتھ بلاگر اور رپورٹر کی حیثیت سے منسلک ہیں۔