افغانستان: کوئلے کی قیمت کو پر کیوں لگ گئے؟
محمد فہیم
پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں گزشتہ ایک دہائی سے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور بجلی و گیس کی شدید قلت کے باعث ملک کی صنعتوں کا پہیہ جاری رکھنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہو گیا ہے۔
رواں برس بجلی اور گیس کی شدید لوڈشیڈنگ نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مستقبل قریب میں پاکستان اب توانائی کے شعبہ میں خودکفیل نہیں ہو سکتا لہٰذا فوری طور پر پاکستان کو قلیل المدتی منصوبہ بندی کرنا ہو گی اور اسی منصوبہ بندی کے تحت حکومت پاکستان نے اپنے پڑوسی ملک افغانستان کی مدد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔
اگست 2021 میں افغانستان میں امارات اسلامی کی حکومت آنے کے بعد دنیا نے افغانستان سے منہ موڑ لیا تاہم پاکستان نے اپنے برادر اسلامی ملک کی مدد جاری رکھی ہوئی ہے اور اسی مدد کے تحت افغانستان کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
چند ماہ قبل جب پاکستان کو شدید توانائی بحران کا سامنا کرنا پڑ گیا تو وزیر اعظم شہباز شریف نے پڑوسی ملک افغانستان کی مدد لینے کا فیصلہ کیا، اس مدد کے تحت افغانستان کا کوئلہ بڑی سطح پر درآمد کرنا شامل ہے جس سے نہ صرف پاکستان کی ضرورت پوری ہو گی بلکہ افغانستان حکومت کو بھی زرمبادلہ میسر آئے گا تاہم حکومت پاکستان کا اعلان کرنا ہی تھا کہ افغانستان میں کوئلہ کی قیمت کو پر لگ گئے۔
حکومت پاکستان کے مطابق افغانستان سے کوئلہ کی درآمد سے دو ارب ڈالرز کی سالانہ بچت ہو سکتی ہے اور جب یہ فیصلہ کیا گیا اس وقت افغانستان میں کوئلہ کی قیمت 90 ڈالرز فی ٹن تھی تاہم حکومت پاکستان کا اس جانب اقدام اٹھانا ہی تھا کہ یہ قیمت بڑھ کر 280 ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی ہے اور اس میں اب مسلسل اضافہ جاری ہے۔
افغانستان میں کوئلہ قیمت کیوں بڑھ رہی ہے؟
حکومت پاکستان کا اعلان افغان حکومت کیلئے نیک شگون ثابت ہوا اور افغان حکومت نے اپنی آمدن بڑھانے کیلئے کوئلہ پر ڈیوٹی دو گنا کر دی۔ اس کوئلہ پر فی ٹن تین ہزار افغانی ڈیوٹی عائد تھی اب اسے بڑھا کر 6 ہزار افغانی کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح افغانستان حکومت یہ کوئلہ ڈالرز میں فروخت کر رہی ہے اور بین الاقوامی سطح پر کوئلہ کی قیمت 400 ڈالرز فی ٹن ہے لیکن پابندیوں کے باعث افغانستان یہ کوئلہ عالمی مارکیٹ میں فروخت نہیں کر سکتا اسی لئے پاکستان کو یہ ارزاں نرخ پر دستیاب تھا۔
پاکستان کی ضرورت کو دیکھتے ہوئے افغانستان حکومت نے اس کی قیمت بڑھا دی، اسی طرح پاکستان میں ڈالرز کا عدم استحکام اور روپیہ کی گرتی قدر، ڈیزل اور پیٹرول کی قیمت میں اضافہ نے بھی افغانستان میں کوئلہ کی خریداری میں ڈالر کو مہنگا کر دیا جس کی وجہ سے پاکستانی روپیہ میں اس کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔
افغانستان میں کوئلہ میسر آنے کے بعد مزار شریف سے پاک افغان سرحد تک کرایہ تقریباً 18 ہزار روپے سے زائد ہے جس کے بعد پاکستانی کسٹم ڈیوٹی اور پھر مزدور و دیگر اخراجات شامل ہیں جبکہ پاکستانی سرحد سے ہر فیکٹری تک کوئلہ کی ترسیل پر اوسط فی ٹن 4 سے 5 ہزار روپے خرچ ہوتا ہے جس کے بعد یہ کوئلہ فی ٹن 72 ہزار روپے سے متجاوز ہو جاتا ہے۔ تین ماہ قبل یہی کوئلہ پاکستانی کارخانہ تک 30 ہزار روپے فی ٹن میسر تھا جس میں اب دو گنا سے بھی زائد اضافہ ہو گیا ہے جبکہ افغان حکومت کی جانب سے مقرر 280 ڈالر فی ٹن کوئلہ کی ابھی تک ترسیل نہیں ہوئی تاہم اگر اس کی قیمت کا اندازہ لگایا جائے تو اس میں مزید 30 ہزار روپے تک اضافہ ہو سکتا ہے۔
افغانستان کے کوئلہ میں خاص کیا ہے؟
عالمی مارکیٹ میں کوئلہ کی بڑھتی ہوئی مانگ اور افغانستان میں اس کی قیمت مارکیٹ سے کم ہونے کے باعث اب چین، ترکی، ایران، بھارت، جرمی اور دیگر ممالک بھی اسی کوئلہ میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ ان ممالک کے پاس پاکستان کی نسبت زیادہ وسائل اور زیادہ ڈالرز ہیں جس کی وجہ سے یہی خوف ہے کہ افغانستان کا کوئلہ پاکستان کی بجائے ان ممالک جانا شروع ہو جائے گا۔ پاکستان کے تین صوبوں سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے قبائلی اضلاع میں کوئلہ کے بڑے ذخائر موجود ہیں تاہم اس کے باوجود پاکستان کی دلچسپی افغانستان کے کوئلہ میں ہے جس کی بڑی وجہ اس کا معیار ہے۔
پاکستانی کوئلہ کی حرارت کارخانوں کی ضرورت پوری نہیں کر سکتی۔ کوئلہ کا معیار اور اس کی حرارت کو گراس کیلوریفک ویلیو (جی سی وی) میں ماپا جاتا ہے، 6 ہزار 500 جی سی وی حرارت درکار ہے، پاکستان میں 4 ہزار سے لے کر زیادہ سے زیادہ ساڑھے 5 ہزار جی سی وی حرارت کا کوئلہ موجود ہے جبکہ دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو افغانستان کے علاقے مزار شریف میں دریوسف، سر پل اور بلخاب کا کوئلہ سب سے بہترین ہے جس کی حرارت 7 ہزار جی سی وی تک میسر ہے۔
پاکستان میں توانائی بحران کے پیش نظر سیمنٹ، ٹیکسٹائل، گھی، اینٹوں کی بھٹیاں اب کوئلہ پر منتقل ہو گئی ہیں، ان کارخانوں میں افغانستان کے کوئلہ کو پاکستان کے کوئلہ کے ساتھ مکس کر کے استعمال کیا جاتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق افغانستان سے 10 ہزار ٹن کوئلہ روزانہ پاکستان درآمد ہوتا ہے، ٹرانسپورٹ، منڈیاں، گودام اور کوئلہ کی کانوں میں کام کرنے والے ہزاروں افراد برسر روزگار ہیں۔
پاک افغان بارڈر مسائل
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد 24 گھنٹے کھلی رکھنے کا اعلان کیا تھا اور اس پر عمل درآمد بھی جاری ہے تاہم پاکستان کا سرحد کھلا رکھنے کا فیصلہ تبھی سود مند ہو گا جب افغانستان بھی اپنی سرحد 24 گھنٹے کھلی رکھے گا۔ غلام خان، خرلاچی اور دیگر مقامات پر پاکستان نے اپنا بارڈر کھول دیا لیکن افغانستان کی جانب سے بارڈر 24 گھنٹے نہیں کھلا ہوتا۔ تاجروں کے مطابق افغان حکام کی جانب سے کلیئرنس میں تاخیر کی جاتی ہے اور عمومی طور پر کوئلہ کی ترسیل کلیئرنس میں ایک سے ڈیڑھ ماہ لے لیتی ہے ایسے میں اگر پاکستانی اور افغانستان کی گاڑیوں کیلئے روڈ پاس مل جائے اور براہ راست ان کی ترسیل ہو سکے تو مسائل کافی حد تک کم ہو سکیں گے۔
حکومت پاکستان نے کوئلہ کی قیمت اور بارڈر مسائل اٹھانے کیلئے ایک وفد افغانستان بھیجا ہے، وزارت پیٹرولیم کا وفد کس حد تک کامیاب ہوتا ہے وہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم اس تمام عمل میں کوئلہ سے منسلک تاجروں کو اعتماد میں نہیں لیا جا رہا۔